Surah

Information

Surah # 112 | Verses: 4 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 22 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
لَمۡ يَلِدۡ   ۙ وَلَمۡ يُوۡلَدۡ ۙ‏ ﴿3﴾
نہ اس سے کوئی پیدا ہوا نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ۔
لم يلد و لم يولد
He neither begets nor is born,
Na uss say koi paida hoa na who kisi say paida hoa
نہ اس کی کوئی اولاد ہے ، اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے ۔ ( ٤ )
( ۳ ) نہ اس کی کوئی اولاد ( ف٤ ) اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ( ف۵ )
نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ۔ 5
نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہے
سورة الاخلاص حاشیہ نمبر : 5 مشرکین نے ہر زمانے میں خدائی کا یہ تصور اختیار کیا ہے کہ انسانوں کی طرح خداؤں کی بھی کوئی جنس ہے جس کے بہت سے افراد ہیں ، اور ان میں شادی بیاہ اور توالد و تناسل کا سلسلہ چلتا ہے ۔ اس جاہلانہ تصور سے انہوں نے اللہ رب العالمین کو بھی پاک اور بالا تر نہیں سمجھا اور اس کے لیے بھی اولاد تجویز کی ۔ چنانچہ اہل عرب کا یہ عقیدہ قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ فرشتوں کو اللہ تعالی کی بیٹیاں قرار دیتے تھے ۔ انبیاء علیہم السلام کی امتیں بھی اس جہالت سے محفوظ نہ رہ سکیں ۔ ان کے ہاں بھی کسی بزرگ انسان کو اللہ تعالی کا بیٹا قرار دینے کا عقیدہ پیدا ہوگیا ۔ ان مختلف توہمات میں دو قسم کے تصورات ہمیشہ خلط ملط ہوتے رہے ہیں ۔ بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ جن کو وہ اللہ تعالی کی اولاد قرار دے رہے ہیں وہ اس ذات پاک کی نسبی اولاد ہے ۔ اور بعض نے یہ دعوی کیا کہ جس کو وہ اللہ کا بیٹا کہہ رہے ہیں اسے اللہ نے اپنا متبنی بنایا ہے ۔ اگرچہ ان میں سے کسی کی یہ جرات نہیں ہوئی کہ معاذ اللہ کسی کو اللہ کا باپ قرار دیں ، لیکن ظاہر ہے کہ جب کسی ہستی کے متعلق یہ تصور کیا جائے کہ وہ توالد و تناسل سے پاک نہیں ہے ، اور اس کے بارے میں یہ خیال کیا جائے کہ وہ بھی انسان کی طرح اس قسم کی کوئی ہستی ہے جس کے ہاں اولاد پیدا ہوتی ہے ، اور جس کو لا ولد ہونے کی صورت میں کسی کو بیٹا بنانے کی ضرورت پیش آتی ہے ، تو پھر انسانی ذہن اس گمان سے محفوظ نہیں رہ سکتا کہ اسے بھی کسی کی اولاد سمجھے ۔ یہی وجہ ہے کہ جو سوالات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھے گ۴ے تھے ان میں ایک سوال یہ تھا کہ اللہ کا نسب کیا ہے؟ اور دوسرا یہ کہ کس سے اس نے دنیا کی میراث پائی ہے اور کون اس کے بعد وارث ہوگا ؟ ان جاہلانہ مفروضات کا اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ منطقی طور پر بیان کو فرض کرلینے سے کچھ اور چیزوں کو بھی فرض کرنا لازم آتا ہے ۔ اول یہ کہ خدا ایک نہ ہو ، بلکہ خداؤں کی کوئی جنس ہو ، اور اس کے افراد خدائی اوصاف ، افعال اور اختیارات میں شریک ہوں ، یہ بات خدا کی صرف نسبی اولاد فرض کرلینے ہی سے لازم نہیں آتی ، بلکہ کسی کو متبنی فرض کرنے سے بھی لازم آتی ہے ، کیونکہ کسی کا متبنی لا محالہ اس کا ہم جنس ہی ہوسکتا ہے ، اور جب معاذ اللہ وہ خدا کا ہم جنس ہے تو اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ خدائی کے اوصاف بھی رکھتا ہے ۔ دوم یہ کہ اولاد کا کوئی تصور اس کے بغیر نہیں کیا جاسکتا کہ نر و مادہ میں اتصال ہو اور کوئی مادہ باپ اور ماں کے جسم سے نکل کر بچے کی شکل اختیار کرے ۔ پس اللہ کے لیے اولاد فرض کرنے سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ وہ بذات خود معاذہ اللہ فانی ہو اور باقی رہنے والی چیز خداؤں کی نسل ہو نہ کہ ذات خدا ۔ نیز اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ تمام فانی افراد کی طرح نعوذ باللہ خدا کی بھی کوئی ابتدا اور انتہا ہو ۔ کیونکہ توالد و تناسل پر جن اجناس کے بقاء کا انحصار ہوتا ہے ان کے افراد نہ ازلی ہوتے ہیں نہ ابدی ۔ چہارم یہ کہ کسی کو متبنی بنانے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ایک لا ولد شخس اپنی زندگی میں کسی مددگار کا ، اور اپنی وفات کے بعد کسی وارث کا حاجت مند ہوتا ہے ۔ لہذا اللہ تعالی کے لیے یہ فرض کرنا کہ اس نے کسی کو بیٹا بنایا ہے ، اس ذات پاک کی طرف لازما وہی سب کمزوریاں منسوب کرنا ہے جو فانی اشخاص میں پائی جاتی ہیں ۔ ان تمام مفروضات کی جڑ اگرچہ اللہ تعالی کو احد اور الصمد کہنے سے کٹ جاتی ہے ، لیکن اس کے بعد یہ ارشاد فرمانے سے کہ نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ، اس معاملہ میں کسی اشتباہ کی گنجائش بھی باقی نہیں رہتی ۔ پھر چونکہ ذات باری کے حق میں یہ تصورات شرک کے اہم ترین اسباب میں سے ہیں ، اس لیے اللہ تعالی نے صرف سورہ اخلاص ہی میں ان کی صاف صاف اور قطعی و حتمی تردید کرنے پر اکتفا نہیں فرمایا ، بلکہ جگہ جگہ اس مضمون کو مختلف طریقوں سے بیان کیا ہے تاکہ لوگ حقیقت کو پوری طرح سمجھ لیں ۔ مثال کے طور پر آیات ذیل ملاحظہ ہوں: ۭاِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۭسُبْحٰنَهٗٓ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗ وَلَدٌ ۘ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ( النساء ، 171 ) اللہ تو بس ایک ہی خدا ہے ، وہ پاک ہے اس سے کہ کوئی اس کا بیٹا ہو ، جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ، سب اس کی ملک ہے ۔ اَلَآ اِنَّهُمْ مِّنْ اِفْكِهِمْ لَيَقُوْلُوْنَ ۔ وَلَدَ اللّٰهُ ۙ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ ( الصافات ، 151 ۔ 152 ) خوب سن رکھو ، یہ لوگ دراصل اپنی من گھڑت سے یہ بات کہتے ہیں کہ اللہ اولاد رکھتا ہے ۔ فی الواقع یہ قطعی جھوٹے ہیں ۔ وَجَعَلُوْا بَيْنَهٗ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَـبًا ۭ وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ اِنَّهُمْ لَمُحْضَرُوْنَ ( الصافات ، 158 ) انہوں نے اللہ اور فرشتوں کے درمیان نسب کا رشتہ بنا رکھا ہے ، حالانکہ فرشتے خوب جانتے ہیں کہ یہ لوگ ( مجرموں ) کی حیثیت سے ) پیش کیے جانے والے ہیں ۔ وَجَعَلُوْا لَهٗ مِنْ عِبَادِهٖ جُزْءًا ۭاِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ مُّبِيْنٌ ( الزخرف ، 15 ) لوگوں نے اس کے بندوں میں سے بعض کو اس کا جز بنا ڈالا ۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کھلا احسان فراموش ہے ۔ وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَاۗءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ وَخَرَقُوْا لَهٗ بَنِيْنَ وَبَنٰتٍۢ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۭسُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يَصِفُوْنَ ۔ بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ اَنّٰى يَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ ۭ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ ( الانعام ، 100 ۔ 101 ) اور لوگوں نے جنوں کو اللہ کا شریک ٹھہرا دیا ، حالانکہ وہ ان کا خالق ہے ۔ اور انہوں نے بے جانے بوجھے اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں گھڑ لیں ، حالانکہ وہ پاک اور بالاتر ہے ان باتوں سے جو وہ کہتے ہیں ۔ وہ تو آسمانوں اور زمین کا موجود ہے ۔ اس کا کوئی بیٹا کیسے ہوسکتا ہے جبکہ کوئی اس کی شریک زندگی ہی نہیں ہے ، اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے ۔ وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَـدًا سُبْحٰنَهٗ ۭ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَ ( الانبیاء ، 26 ) اور ان لوگوں نے کہا کہ خدائے رحمان نے کسی کو بیٹا بنایا ہے ، پاک ہے وہ ، بلکہ ( جن کو یہ اس کی اولاد کہتے ہیں ) وہ تو بندے ہیں جنہیں عزت دی گئی ہے ۔ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا سُبْحٰنَهٗ ۭ ھُوَ الْغَنِيُّ ۭ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ اِنْ عِنْدَكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍۢ بِهٰذَا ۭ اَتَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ( یونس ، 68 ) لوگوں نے کہہ دیا کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے ، سبحان اللہ ، وہ تو بے نیاز ہے ، آسمانوں میں جو کچھ ہے اور زمین میں جو کچھ ہے سب اس کی ملک ہے ۔ تمہارے پاس اس قول کی آخر دلیل کیا ہے؟ کیا تم اللہ کے بارے میں وہ باتیں کہتے ہو جنہیں تم نہیں جانتے؟ ۔ وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ يَكُنْ لَّهٗ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ ( بنی اسرائیل ، 111 ) اور ( اے نبی ) کہو ، تعریف ہے اس خدا کے لیے جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا ، نہ کوئی بادشاہی میں اس کا شریک ہے ، اور نہ وہ عاجز ہے کہ کوئی اس کا پشتیبان ہو ۔ مَا اتَّخَذَ اللّٰهُ مِنْ وَّلَدٍ وَّمَا كَانَ مَعَهٗ مِنْ اِلٰهٍ ( المومنون ، 91 ) اللہ نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ہے ، اور کوئی دوسرا خدا اس کے ساتھ نہیں ہے ۔ ان آیات میں ہر پہلو سے ان لوگوں کے عقیدے کی تردید کردی گئی ہے جو اللہ کے لیے نسبی اولاد یا متبنی بنائی ہوئی اولاد تجویز کرتے ہیں ، اور اس کے غلط ہونے کے دلائل بھی بیان کردیے گئے ہیں ، یہ اور اسی مضمون کی دوسری بہت سی آیات جو قرآن مجید میں ، سورہ اخلاص کی بہترین تفسیر کرتی ہیں ۔