Surah

Information

Surah # 114 | Verses: 6 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 21 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
مِنَ الۡجِنَّةِ وَالنَّاسِ‏ ﴿6﴾
۔ ( خواہ ) وہ جن میں سے ہو یا انسان میں سے ۔
من الجنة و الناس
From among the jinn and mankind."
( Khua ) woh jinn mein say ho ya insaan mein say.
چاہے وہ جنات میں سے ہو ، یا انسانوں میں سے ۔ ( ٤ )
( ٦ ) جن اور آدمی ( ف۷ )
خواہ وہ جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے ۔ 3 ؏١
خواہ وہ ( وسوسہ انداز شیطان ) جنات میں سے ہو یا انسانوں میں سے
سورة الناس حاشیہ نمبر : 3 بعض اہل علم کے نزدیک ان الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ وسوسہ ڈالنے والا دو قسم کے لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے ، ایک جن ، دوسرے انسان ۔ اس بات کو اگر تسلیم کیا جائے تو لفظ ناس کا اطلاق جن اور انسان دونوں پر ہوگا ۔ وہ کہتے ہیں ایسا ہوسکتا ہے ، کیونکہ قرآن میں جب رجال ( مردوں ) کا لفظ جنوں کے لیے استعمال ہوا ہے ، جیسا کہ سورہ جن آیت 6 میں ہم دیکھتے ہیں ، اور جب نَفَر کا استعمال جنوں کے گروہ پر ہوسکتا ہے جیسا کہ سورہ احقاف آیت 29 میں ہوا ہے ، تو مجازا ناس کے لفظ میں بھی انسان اور جن دونوں شامل ہوسکتے ہیں ۔ لیکن یہ رائے اس لیے غلط ہے کہ ناس اور انس اور انسان کے الفاظ لغت ہی کے اعتبار سے لفظ جن کی ضد ہیں ۔ جن کے اصل معنی پوشیدہ مخلوق کے ہیں اور جن کو جن اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ وہ انسانی آنکھ سے مخفی ہے ۔ اس کے برعکس ناس اور انس کے الفاظ انسان کے لیے بولے ہی اس بنا پر جاتے ہیں کہ وہ ظاہر اور مرئی اور محسوس ہے ۔ سورہ قصس آیت 29 میں ہے اٰنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ ۔ یہاں آنَسَ کے معنی رَاَی ہیں ، یعنی حضرت موسی نے کوہ طور کے کنارے آگ دیکھی ۔ سورہ نساء آیت 6 میں ہے فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ رُشْدًا ۔ اگر تم محسوس کرو کہ یتیم بچے اب ہوشمند ہوگئے ہیں ۔ یہاں انستم کے معنی احسستم یا رایتم ہیں ۔ پس ناس کا اطلاق لغر عرب کی رو سے جنوں پر نہیں ہوسکتا ، اور آیت کے صحیح معنی یہ ہیں کہ اس وسوسہ انداز کے شر سے جو انسانوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے ، خواہ وہ جنوں میں سے ہو یا خود انسانوں میں سے ۔ یعنی دوسرے الفاظ میں وسوسہ اندازی کا کام شیاطین جن بھی کرتے ہیں اور شیاطین انس بھی ، اور دونوں کے شر سے پناہ مانگنے کی اس سورہ میں تلقین کی گئی ہے ۔ اس معنی کی تائید قرآن سے بھی ہوتی ہے اور حدیث سے بھی ۔ قرآن میں فرمایا: وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَـيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ يُوْحِيْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا ( الانعام ، 112 ) اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے شیطان جنوں اور شیطان انسانوں کو دشمن بنا دیا ہے جو ایک دوسرے پر خوش آیند باتیں دھوکے اور فریب کے طور پر القا کرتے ہیں ۔ اور حدیث میں امام احمد ، نسائی اور ابن حبان حضرت ابو ذر کی روایت نقل کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپ مسجد میں تشریف فرما تھے ۔ فرمایا ابو ذر تم نے نماز پڑھی؟ میں نے عرض کیا نہیں ۔ فرمایا اٹھو اور نماز پڑھو ۔ چنانچہ میں نے نماز پڑھی اور پھر آکر بیٹھ گیا ۔ حضور نے فرمایا یا ابا ذر ، تعوذ باللہ من شر شیاطین الانس والجن ، اے ابو ذر شیاطین انس اور شیاطین جن کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ، کیا انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں؟ فرمایا ہاں ۔