Surah

Information

Surah # 4 | Verses: 176 | Ruku: 24 | Sajdah: 0 | Chronological # 92 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يَسۡــَٔـلُكَ اَهۡلُ الۡـكِتٰبِ اَنۡ تُنَزِّلَ عَلَيۡهِمۡ كِتٰبًا مِّنَ السَّمَآءِ‌ فَقَدۡ سَاَ لُوۡا مُوۡسٰٓى اَكۡبَرَ مِنۡ ذٰ لِكَ فَقَالُوۡۤا اَرِنَا اللّٰهَ جَهۡرَةً فَاَخَذَتۡهُمُ الصّٰعِقَةُ بِظُلۡمِهِمۡ‌‌ ۚ ثُمَّ اتَّخَذُوا الۡعِجۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡهُمُ الۡبَيِّنٰتُ فَعَفَوۡنَا عَنۡ ذٰ لِكَ‌‌‌‌ ۚ وَاٰتَيۡنَا مُوۡسٰى سُلۡطٰنًا مُّبِيۡنًا‏ ﴿153﴾
آپ سے یہ اہل کتاب درخواست کرتے ہیں کہ آپ ان کے پاس کوئی آسمانی کتاب لائیں ، حضرت موسیٰ ( علیہ السلام ) سے توانہوں نے اس سے بہت بڑی درخواست کی تھی کہ ہمیں کھلم کھلا اللہ تعالٰی کو دکھا دے پس ان کے اس ظلم کے باعث ان پر کڑاکے کی بجلی آپڑی پھر باوجودیکہ ان کے پاس بہت دلیلیں پہنچ چکی تھیں انہوں نے بچھڑے کو اپنا معبود بنا لیا ، لیکن ہم نے یہ بھی معاف فرما دیا اور ہم نے موسیٰ کو کھلا غلبہ ( اور صریح دلیل ) عنایت فرمائی ۔
يسلك اهل الكتب ان تنزل عليهم كتبا من السماء فقد سالوا موسى اكبر من ذلك فقالوا ارنا الله جهرة فاخذتهم الصعقة بظلمهم ثم اتخذوا العجل من بعد ما جاءتهم البينت فعفونا عن ذلك و اتينا موسى سلطنا مبينا
The People of the Scripture ask you to bring down to them a book from the heaven. But they had asked of Moses [even] greater than that and said, "Show us Allah outright," so the thunderbolt struck them for their wrongdoing. Then they took the calf [for worship] after clear evidences had come to them, and We pardoned that. And We gave Moses a clear authority.
Aap say yeh ehal-e-kitab darkhuast kertay hain kay aap inn kay pass koi aasmani kitab layen hazrat musa ( alh-e-salam ) say to enhon ney iss say boht bari darkhuast ki thi kay humen khullam khula Allah Taalaa ko dikha dey pus inn kay iss zulm kay baees inn per karakay ki bijli aa pari phir bawajood yeh kay inn kay pass boht daleel phonch chuki thi enhon ney bachray ko apna mabood bana liya lekin hum ney yeh bhi moaf farma diya aur hum ney musa ko khula ghalba ( aur sareeh daleel ) inayat farmaee.
۔ ( اے پیغمبر ) اہل کتاب تم سے ( جو ) مطالبہ کر رہے ہیں کہ تم ان پر آسمان سے کوئی کتاب نازل کرواؤ ، تو ( یہ کوئی نئی بات نہیں ، کیونکہ ) یہ لوگ تو موسیٰ اسے اس سے بھی بڑا مطالبہ کرچکے ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے ( موسی سے ) کہا تھا کہ ہمیں اللہ کھلی آنکھوں دکھاؤ ، چنانچہ ان کی سرکشی کی وجہ سے ان کو بجلی کے کڑکے نے آپکڑا تھا ، پھر ان کے پاس جو کھلی کھلی نشانیاں آئیں ، ان کے بعد بھی انہوں نے بچھڑے کو معبود بنا لیا تھا ۔ اس پر بھی ہم نے انہیں معاف کردیا ، اور ہم نے موسیٰ کو واضح اقتدار عطا کیا ۔
اے محبوب! اہل کتاب ( ف۳۸۲ ) تم سے سوال کرتے ہیں کہ ان پر آسمان سے ایک کتاب اتاردو ( ف۳۸۳ ) تو وہ تو موسیٰ سے اس سے بھی بڑا سوال کرچکے ( ف۳۸٤ ) کہ بولے ہمیں اللہ کو اعلانیہ دکھا دو تو انہیں کڑک نے آ لیا ان کے گناہوں پر پھر بچھڑا لے بیٹھے ( ف۳۸۵ ) بعد اس کے لئے روشن آیتیں ( ۳۸٦ ) ان کے پاس آچکیں تو ہم نے یہ معاف فرمادیا ( ف۳۸۷ ) اور ہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ دیا ( ف۳۸۸ )
یہ اہل کتاب اگر آج تم سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ تم آسمان سے کوئی تحریر ان پر نازل کراؤ 181 تو اس سے بڑھ چڑھ کر مجرمانہ مطالبے یہ پہلے موسیٰ سے کر چکے ہیں ۔ اس سے تو انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں خدا کو علانیہ دکھا دو اور اسی سرکشی کی وجہ سے یکایک ان پر بجلی ٹوٹ پڑی تھی ۔ 182 پھر انہوں نے بچھڑے کو اپنا معبود بنا لیا ، حالانکہ یہ کھلی کھلی نشانیاں دیکھ چکے تھے ۔ 183 اس پر بھی ہم نے ان سے درگزر کیا ۔ ہم نے موسیٰ کو صریح فرمان عطا کیا ،
۔ ( اے حبیب! ) آپ سے اہلِ کتاب سوال کرتے ہیں کہ آپ ان پر آسمان سے ( ایک ہی دفعہ پوری لکھی ہوئی ) کوئی کتاب اتار لائیں ، تو وہ موسٰی ( علیہ السلام ) سے اس سے بھی بڑا سوال کر چکے ہیں ، انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں اﷲ ( کی ذات ) کھلم کھلا دکھا دو ، پس ان کے ( اس ) ظلم ( یعنی گستاخانہ سوال ) کی وجہ سے انہیں آسمانی بجلی نے آپکڑا ( جس کے باعث وہ مرگئے ، پھر موسٰی علیہ السلام کی دعا سے زندہ ہوئے ) ، پھر انہوں نے بچھڑے کو ( اپنا معبود ) بنا لیا اس کے بعد کہ ان کے پاس ( حق کی نشاندہی کرنے والی ) واضح نشانیاں آچکی تھیں ، پھر ہم نے اس ( جرم ) سے بھی درگزر کیا اور ہم نے موسٰی ( علیہ السلام ) کو ( ان پر ) واضح غلبہ عطا فرمایا
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :181 مدینہ کے یہودی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو عجیب عجیب مطالبے کرتے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ہم آپ کی رسالت اس وقت تک تسلیم نہ کریں گے جب تک کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ایک لکھی لکھائی کتاب آسمان سے نازل نہ ہو ، یا ہم میں سے ایک ایک شخص کے نام اوپر سے اس مضمون کی تحریر نہ آجائے کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے رسول ہیں ، ان پر ایمان لاؤ ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :182 یہاں کسی واقعہ کی تفصیل بیان کرنا مقصود نہیں ہے ، بلکہ یہودیوں کے جرائم کی ایک مختصر فہرست پیش کرنی مقصود ہے ، اس لیے ان کی قومی تاریخ کے چند نمایاں واقعات کی طرف سرسری اشارات کیے گئے ہیں ۔ اس آیت میں جس واقعہ کا ذکر ہے وہ سورہ بقرہ آیت ۵۵ میں بھی گزر چکا ہے ۔ ( ملاحظہ ہو سورہ بقرہ ، حاشیہ نمبر ۷۱ ) سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :183 کھلی کھلی نشانیوں سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے رسول مقرر ہونے کے بعد سے لے کر فرعون کے غرق ہونے اور بنی اسرائیل کے مصر سے نکلنے تک پے در پے ان لوگوں کے مشاہدے میں آچکی تھیں ۔ ظاہر ہے کہ سلطنت مصر کی عظیم الشان طاقت کے پنجوں سے جس نے بنی اسرائیل کو چھڑایا تھا وہ کوئی گائے کا بچہ نہ تھا بلکہ اللہ رب العالمین تھا ۔ مگر یہ اس قوم کی طابل پرستی کا کمال تھا کہ خدا کی قدرت اور اس کے فضل کی روشن ترین نشانیوں کا تجربہ اور مشاہدہ کر چکنے کے بعد بھی جب جھکی تو اپنے محسن خدا کے آگے نہیں بلکہ ایک بچھڑے کی مصنوعی مورت ہی کے آگے جھکی ۔
محسوس معجزہ کی مانگ اور بنی سرائیل کی حجت بازیاں یہودیوں نے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کی طرف سے توراۃ ایک ساتھ لکھی ہوئی ہمارے پاس لائے ، آپ بھی کوئی آسمانی کتاب پوری لکھی لکھائی لے آیئے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ انہوں نے کہا تھا کہ ہمارے نام اللہ تعالیٰ خط بھیجے کہ ہم آپ کی نبوت کو مان لیں ۔ یہ سوال بھی ان کا بدنیتی سے بطور مذاق اور کفر تھا ۔ جیسا کہ اہل مکہ نے بھی اسی طرح کا ایک سوال کیا تھا ، جس طرح سورہ سبحان میں مذکور ہے کہ جب تک عرب کی سر زمین میں دریاؤں کی ریل پیل اور ترو تازگی کا دور دورہ نہ ہو جائے ہم آپ پر ایمان نہیں لائیں گے ۔ پس بطور تسلی کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان کی اس سرکشی اور بیجا سوال پر آپ کبیدہ خاطر نہ ہوں ان کی یہ بد عادت پرانی ہے ، انہوں نے حضرت موسیٰ سے اس سے بھی زیادہ بیہودہ سوال کیا تھا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ خود کو دکھائے ۔ اس تکبر اور سرکشی اور فضول سوالوں کی پاداش بھی یہ بھگت چکے ہیں یعنی ان پر آسمانی بجلی گری تھی ۔ جیسے سورہ بقرہ میں تفصیل وار بیان گذر چکا ۔ ملاحظہ ہو آیت ( وَاِذْ قُلْتُمْ يٰمُوْسٰى لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْكُمُ الصّٰعِقَةُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:52 ) یعنی جب تم نے کہا تھا کہ اے موسیٰ ہم تجھ پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک کہ اللہ تعالیٰ کو ہم صاف طور پر اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں پس تمہیں بجلی کے کڑاکے نہ پکڑ لیا اور ایک دوسرے کے سامنے سب ہلاک ہو گئے ، پھر بھی ہم نے تمہاری موت کے بعد دوبارہ تمہیں زندہ کر دیا تا کہ تم شکر کرو ۔ پھر فرماتا ہے کہ بڑی بڑی نشانیاں دیکھ چکنے کے بعد بھی ان لوگوں نے بچھڑے کو پوجنا شروع کر دیا ۔ مصر میں اپنے دشمن فرعون کا حضرت موسیٰ کے مقابلے میں ہلاک ہونا اس کے تمام لشکروں کا نامرادی کی موت مرنا ، ان کا دریا سے بچ کر پار نکل آنا ، ابھی ابھی ان کی نگاہوں کے سامنے ہوا تھا لیکن وہاں سے چل کر کچھ دور جا کر ہی بت پرستوں کو بت پرستی کرتے ہوئے دیکھ کر اپنے پیغمبر سے کہتے ہیں ہمارا بھی ایک ایسا ہی معبود بنا دو ۔ جس کا پورا بیان سورہ اعراف میں ہے اور سورہ طہ میں بھی ۔ پھر حضرت موسیٰ اللہ تعالیٰ سے مناجات کرتے ہیں ، ان کی توبہ کی قبولیت کی یہ صورت ٹھہرتی ہے کہ جنہوں نے گو سالہ پرستی نہیں کی وہ گوسالہ پرستوں کو قتل کریں ۔ جب قتل شروع ہو جاتا ہے ، اللہ ان کی توبہ قبول فرماتا ہے اور مرے ہوؤں کو بھی دوبارہ زندہ کر دیتا ہے ۔ پس یہاں فرماتا ہے ہم نے اس سے بھی درگذر کیا اور یہ جرم عظیم بھی بخش دیا اور موسیٰ کو ظاہر حجت اور کھلا غلبہ عنایت فرمایا اور جب ان لوگوں نے توراۃ کے احکام ماننے سے انکار کر دیا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فرمانبرداری سے بیزاری ظاہر کی تو ان کے سروں پر طور پہاڑ کو معلق کھڑا کر دیا اور ان سے کہا کہ اب بولو! پہاڑ گرا کر پاش پاش کر دیں یا احکام قبول کرتے ہو؟ تو یہ سب سجدے میں گر پڑے اور گریہ زاری شروع کی اور احکام الٰہی بجا لانے کا مضبوط عہد و پیمان کیا یہاں تک کہ دل میں دہشت تھی اور سجدے میں کنکھیوں سے اوپر دیکھ رہے تھے کہ کہیں پہاڑ نہ گر پڑے اور دب کر نہ مر جائیں ، پھر پہاڑ ہٹایا گیا ۔ ان کی دوسری کشی کا بیان ہو رہا ہے کہ قول و فعل دونوں کو بدل دیا ، حکم ملا تھا کہ بیت المقدس کے دروازے میں سجدے کرتے ہوئے جائیں اور حطتہ کہیں یعنی اے اللہ ہماری خطائیں بخش کہ ہم نے جہاد چھوڑ دیا اور تھک کر بیٹھ رہے جس کی سا میں چالیس سال میدان تیہ میں سرگشتہ و حیران و پریشان رہے لیکن ان کی کم ظرفی کا یہاں بھی مظاہرہ ہوا اور اپنی رانوں کے بل گھسٹتے ہوئے دروازے میں داخل ہونے لگے اور حنطتہ فی شعرۃ کہنے لگے یعنی گیہوں کی بالیں ہمیں دے ۔ پھر ان کی اور شرارت سنئے ہفتہ وار دن کی تعظیم و کریم کرنے کا ان سے وعدہ لیا گیا اور مضبوط عہد و پیمان ہو گیا لیکن انہوں نے اس کی بھی مخالفت کی نافرمانی پر کمربستہ ہو کر حرمت کرنے کا ان سے وعدہ لیا گیا اور مضبوط عہد و پیمان ہو گیا لیکن انہوں نے اس کی بھی مخالفت کی نافرمانی پر کمر بستہ ہو کر حرمت کے ارتکاب کے حیلے نکال لئے ۔ جیسے کہ سورہ اعراف میں مفصل بیان ہے ملاحظہ ہو آیت ( وَسْــــَٔـلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِيْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ ) 7 ۔ الاعراف:163 ) ایک حدیث میں بھی ہے کہ یہودیوں سے خاصتہ اللہ تعالیٰ نے ہفتہ والے دن کی تعظیم کا عہد لیا تھا ۔ یہ پوری حدیث سورہ سبحان کی آیت ( وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰي تِسْعَ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ فَسْــــَٔـلْ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اِذْ جَاۗءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ اِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰمُوْسٰي مَسْحُوْرًا ) 17 ۔ الاسراء:101 ) کی تفسیر میں آئے گی انشاء اللہ!