Surah

Information

Surah # 4 | Verses: 176 | Ruku: 24 | Sajdah: 0 | Chronological # 92 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤـاَهۡلَ الۡكِتٰبِ لَا تَغۡلُوۡا فِىۡ دِيۡـنِكُمۡوَلَا تَقُوۡلُوۡا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الۡحَـقَّ‌ ؕ اِنَّمَا الۡمَسِيۡحُ عِيۡسَى ابۡنُ مَرۡيَمَ رَسُوۡلُ اللّٰهِ وَكَلِمَتُهٗ‌ ۚ اَ لۡقٰٮهَاۤ اِلٰى مَرۡيَمَ وَرُوۡحٌ مِّنۡهُ‌ فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ‌ ‌ۚ وَلَا تَقُوۡلُوۡا ثَلٰثَةٌ‌ ؕ اِنْتَهُوۡا خَيۡرًا لَّـكُمۡ‌ ؕ اِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ‌ ؕ سُبۡحٰنَهٗۤ اَنۡ يَّكُوۡنَ لَهٗ وَلَدٌ‌ ۘ لَهٗ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ‌ؕ وَكَفٰى بِاللّٰهِ وَكِيۡلًا‏ ﴿171﴾
اے اہل کتاب !اپنے دین کے بارے میں حد سے نہ گزر جاؤ اور اللہ پر بجز حق کے اور کچھ نہ کہو مسیح عیسیٰ بن مریم ( علیہ السلام ) تو صرف اللہ تعالٰی کے رسول اور اس کے کلمہ ( کن سے پیدا شدہ ) ہیں جسے مریم ( علیہا السلام ) کی طرف ڈال دیا تھا اور اس کے پاس کی روح ہیں اس لئے تم اللہ کو اور اس کے سب رسولوں کو مانو اور نہ کہو کہ اللہ تین ہیں اس سے باز آجاؤ کہ تمہارے لئے بہتری ہے اللہ عبادت کے لائق تو صرف ایک ہی ہے اور وہ اس سے پاک ہے کہ اس کی اولاد ہو ، اسی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ۔ اور اللہ کافی ہے کام بنانے والا ۔
ياهل الكتب لا تغلوا في دينكم و لا تقولوا على الله الا الحق انما المسيح عيسى ابن مريم رسول الله و كلمته القىها الى مريم و روح منه فامنوا بالله و رسله و لا تقولوا ثلثة انتهوا خيرا لكم انما الله اله واحد سبحنه ان يكون له ولد له ما في السموت و ما في الارض و كفى بالله وكيلا
O People of the Scripture, do not commit excess in your religion or say about Allah except the truth. The Messiah, Jesus, the son of Mary, was but a messenger of Allah and His word which He directed to Mary and a soul [created at a command] from Him. So believe in Allah and His messengers. And do not say, "Three"; desist - it is better for you. Indeed, Allah is but one God. Exalted is He above having a son. To Him belongs whatever is in the heavens and whatever is on the earth. And sufficient is Allah as Disposer of affairs.
Aey ehal-e-kitab! Apney deen kay baray mein hadd say na guzar jao aur Allah per ba-juz haq kay aur kuch na kaho maseeh essa bin marium ( alh-e-salam ) to sirf Allah Taalaa kay rasool aur uss kay kalma ( kunn say peda shuda ) hain jisay marium ( alh-e-salam ) ki taraf daal diya tha aur uss kay pass ki rooh hain iss liye tum Allah ko aur uss kay sab rasoolon ko maano aur na kaho kay Allah teen hain iss say baaz aajao kay tumharay liye behtri hai Allah ibadat kay laeeq to sirf aik hi hai aur woh iss say pak hai kay uss ki aulad ho ussi kay liye hai jo kuch aasmanon mein hai aur jo kuch zamin mein hai. Aur Allah kafi hai kaam bananey wala.
اے اہل کتاب اپنے دین میں حد سے نہ بڑھو ، اور اللہ کے بارے میں حق کے سوا کوئی بات نہ کہو ۔ مسیح عیسیٰ ابن مریم تو محض اللہ کے رسول تھے اور اللہ کا ایک کلمہ تھا جو اس نے مریم تک پہنچایا ، اور ایک روح تھی جو اسی کی طرف سے ( پیدا ہوئی ) تھی ۔ ( ٩٥ ) لہذا اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور یہ مت کہو کہ ( خدا ) تین ہیں ۔ اس بات سے باز آجاؤ ، کہ اسی میں تمہاری بہتری ہے ، اللہ تو ایک ہی معبود ہے وہ اس بات سے بالکل پاک ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو ۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اسی کا ہے ، اور سب کی دیکھ بھال کے لیے اللہ کافی ہے ۔
اے کتاب والو! اپنے دین میں زیادتی نہ کرو ( ف٤۲۳ ) اور اللہ پر نہ کہو مگر سچ ( ف٤۲٤ ) مسیح عیسیٰ مریم کا بیٹا ( ف٤۲۵ ) اللہ کا رسول ہی ہے اور اس کا ایک کلمہ ( ف٤۲٦ ) کہ مریم کی طرف بھیجا اور اس کے یہاں کی ایک روح تو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ ( ف٤۲۷ ) اور تین نہ کہو ( ف٤۲۸ ) باز رہو اپنے بھلے کو اللہ تو ایک ہی خدا ہے ( ف٤۲۹ ) پاکی اسے اس سے کہ اس کے کوئی بچہ ہو اسی کا مال ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ( ف٤۳۰ ) اور اللہ کافی کارساز ،
اے اہل کتاب ! اپنے دین میں غلو نہ کرو 211 اور اللہ کی طرف حق کے سوا کوئی بات منسوب نہ کرو ۔ مسیح عیسٰی ابنِ مریم اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اللہ کا ایک رسول تھا اور ایک فرمان تھا 212 جو اللہ نے مریم کی طرف بھیجا اور ایک روح تھی اللہ کی طرف سے 213 ﴿جس نے مریم کے رِحم میں بچّہ کی شکل اختیار کی﴾ پس تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ 214 اور نہ کہو کہ ’’ تین‘‘ ہیں ۔ 215 باز آجاؤ ، یہ تمہارے ہی لیے بہتر ہے ۔ اللہ تو بس ایک ہی خدا ہے ۔ وہ بالاتر ہے اس سے کہ کوئی اس کا بیٹا ہو ۔ 216 زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں اس کی مِلک ہیں ، 217 اور ان کی کفالت و خبر گیری کے لیے بس وہی کافی ہے ۔ 218 ؏۲۳
اے اہلِ کتاب! تم اپنے دین میں حد سے زائد نہ بڑھو اور اﷲ کی شان میں سچ کے سوا کچھ نہ کہو ، حقیقت صرف یہ ہے کہ مسیح عیسٰی ابن مریم ( علیہما السلام ) اﷲ کا رسول اور اس کا کلمہ ہے جسے اس نے مریم کی طرف پہنچا دیا اور اس ( کی طرف ) سے ایک روح ہے ۔ پس تم اﷲ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور مت کہو کہ ( معبود ) تین ہیں ، ( اس عقیدہ سے ) باز آجاؤ ، ( یہ ) تمہارے لئے بہتر ہے ۔ بیشک اﷲ ہی یکتا معبود ہے ، وہ اس سے پاک ہے کہ اس کے لئے کوئی اولاد ہو ، ( سب کچھ ) اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ، اور اﷲ کا کارساز ہونا کافی ہے
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :211 یہاں اہل کتاب سے مراد عیسائی ہیں اور غلو کے معنی ہیں کسی چیز کی تائید و حمایت میں حد سے گزر جانا ۔ یہودیوں کا جرم یہ تھا کہ مسیح کے انکار اور مخالفت میں حد سے گزر گئے ، اور عیسائیوں کا جرم یہ ہے کہ وہ مسیح کی عقیدت میں محبت میں حد سے گزر گئے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :212 اصل میں لفظ”کلمہ“ استعمال ہوا ہے ۔ مریم کی طرف کلمہ بھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے حضرت مریم علیہا السلام کے رحم پر یہ فرمان نازل کیا کہ کسی مرد کے نطفہ سے سیراب ہوئے بغیر حمل کا استقرار قبول کر لے ۔ عیسائیوں کو ابتداءً مسیح علیہ السلام کی پیدائش بے پدر کا یہی راز بتایا گیا تھا ۔ مگر انہوں نے یونانی فلسفہ سے گمراہ ہو کر پہلے لفظ کلمہ کو ”کلام“ یا ”نطق “ ( LOCOS ) کا ہم معنی سمجھ لیا ۔ پھر اس کلام و نطق سے اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفت کلام مراد لے لی ۔ پھر یہ قیاس قائم کیا کہ اللہ کی اس ذاتی صفت نے مریم علیہا السلام کے بطن میں داخل ہو کر وہ جسمانی صورت اختیار کی جو مسیح کی شکل میں ظاہر ہوئی ۔ اس طرح عیسائیوں میں مسیح علیہ السلام کی الوہیت کا فاسد عقیدہ پیدا ہوا اور اس غلط تصور نے جڑ پکڑ لی کہ خدا نے خود اپنے آپ کو یا اپنی ازلی صفات میں سے نطق و کلام کی صفت کو مسیح کی شکل میں ظاہر کیا ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :213 یہاں خود مسیح کو رُوْحٌ مِّنْہُ ( خدا کی طرف سے ایک روح ) کہا گیا ہے ، اور سورہ بقرہ میں اس مضمون کو یوں ادا کیا گیا ہے کہ اَیَّدْ نٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ( ہم نے پاک روح سے مسیح کی مدد کی ) ۔ دونوں عبارتوں کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے مسیح علیہ السلام کو وہ پاکیزہ روح عطا کی تھی جو بدی سے ناآشنا تھی ۔ سراسر حقانیت اور راست بازی تھی ، اور از سر تا پا فضیلت اخلاق تھی ۔ یہی تعریف آنجناب کی عیسائیوں کو بتائی گئی تھی ۔ مگر انہوں نے اس میں غلو کیا ، رُوْحٌ مِّنَ اللہِ کو عین روح اللہ قرار دے لیا ، اور روح القدس ( Holy Ghost ) کا مطلب یہ لیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اپنی روح مقدس تھی جو مسیح کے اندر حلول کر گئی تھی ۔ اس طرح اللہ اور مسیح کے ساتھ ایک تیسرا خدا روح القدس کو بنا ڈالا گیا ۔ یہ عیسائیوں کا دوسرا زبردست غلو تھا جس کی وجہ سے وہ گمراہی میں مبتلا ہوئے ۔ لطف یہ ہے کہ آج بھی انجیل متی میں یہ فقرہ موجود ہے کہ “فرشتے نے اسے ( یعنی یوسف نجار کو ) خواب میں دکھائی دے کر کہا کہ اے یوسف ابن داؤد ، اپنی بیوی مریم کو اپنے ہاں لے آنے سے نہ ڈر ، کیونکہ جو اس کے پیٹ میں ہے وہ روح القدس کی قدرت سے ہے” ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :214 یعنی اللہ کو واحد الٰہ مانو اور تمام رسولوں کی رسالت تسلیم کرو جن میں سے ایک رسول مسیح بھی ہیں ۔ یہی مسیح علیہ السلام کی اصلی تعلیم تھی اور یہی امر حق ہے جسے ایک سچے پیرو مسیح کو ماننا چاہیے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :215 یعنی تین الہٰوں کے عقیدے کو چھوڑ دو خواہ وہ کسی شکل میں تمہارے اندر پایا جاتا ہو ۔ حقیقت یہ ہے کہ عیسائی بیک وقت توحید کو بھی مانتے ہیں اور تثلیث کو بھی ۔ مسیح علیہ السلام کے صریح اقوال جو اناجیل میں ملتے ہیں ان کی بنا پر کوئی عیسائی اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ خدا بس ایک ہی خدا ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں ہے ۔ ان کے لیے یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں ہے کہ توحید اصل دین ہے ۔ مگر وہ جو ایک غلط فہمی ابتداء میں ان کو پیش آگئی تھی کہ کلام اللہ نے مسیح کی شکل میں ظہور کیا اور روح اللہ نے اس میں حلول کیا ، اس کی وجہ سے انہوں نے مسیح اور روح القدس کی الوہیت کو بھی خداوند عالم کی الوہیت کے ساتھ ماننا خواہ مخواہ اپنے اوپر لازم کرلیا ۔ اس زبردستی کے التزام سے ان کے لیے یہ مسئلہ ایک ناقابل حل چیستان بن گیا کہ عقیدہ توحید کے باوجود عقیدہ تثلیث کو ، اور عقیدہ تثلیث کے باوجود عقیدہ توحید کو کس طرح نباہیں ۔ تقریباً ۱۸ سو برس سے مسیح علماء اسی خود پیدا کردہ مشکل کو حل کرنے میں سر کھپا رہے ہیں ۔ بیسیوں فرقے اسی کی مختلف تعبیرات پر بنے ہیں ۔ اسی پر ایک گروہ نے دوسرے کی تکفیر کی ہے ۔ اسی کے جھگڑوں میں کلیسا پر کلیسا الگ ہوتے چلے گئے ۔ اسی پر ان کے سارے علم کلام کا زور صرف ہوا ہے ۔ حالانکہ یہ مشکل نہ خدا نے پیدا کی تھی ، نہ اس کے بھیجے ہوئے مسیح نے ، اور نہ اس مشکل کا کوئی حل ممکن ہے کہ خدا تین بھی مانے جائیں اور پھر وحدانیت بھی برقرار رہے ۔ اس مشکل کو صرف ان کے غلو نے پیدا کیا ہے اور اس کا بس یہی ایک حل ہے کہ وہ غلو سے باز آجائیں ، مسیح اور روح القدس کی الوہیت کا تخیل چھوڑ دیں ، صرف اللہ کو الٰہ واحد تسلیم کر لیں ، اور مسیح کو صرف اس کا پیغمبر قرار دیں نہ کہ کسی طور پر شریک فی الالوہیت ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :216 یہ عیسائیوں کے چوتھے غلو کی تردید ہے ۔ بائیبل کے عہد جدید کی روایات اگر صحیح بھی ہوں تو ان سے ( خصوصاً پہلی تین انجیلوں سے ) زیادہ سے زیادہ بس اتنا ہی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے خدا اور بندوں کے تعلق کو باپ اور اولاد کے تعلق سے تشبیہ دی تھی اور ”باپ“ کا لفظ خدا کے لیے وہ محض مجاز اور استعارہ کے طور پر استعمال کرتے تھے ۔ یہ تنہا مسیح ہی کی کوئی خصوصیت نہیں ہے ۔ قدیم ترین زمانہ سے بنی اسرائیل خدا کے لیے باپ کا لفظ بولتے چلے آرہے تھے اور اس کی بکثرت مثالیں بائیبل کے پرانے عہد نامہ میں موجود ہیں ۔ مسیح نے یہ لفظ اپنی قوم کے محاورے کے مطابق ہی استعمال کیا تھا اور وہ خدا کو صرف اپنا باپ ہی نہیں بلکہ سب انسانوں کا باپ کہتے تھے ۔ لیکن عیسائیوں نے یہاں پھر غلو سے کام لیا اور مسیح کو خدا کا اکلوتا بیٹا قرار دیا ۔ ان کا عجیب و غریب نظریہ اس باب میں یہ ہے کہ چونکہ مسیح خدا کا مظہر ہے ، اور اس کے کلمے اور اس کی روح کا جسدی ظہور ہے ، اس لیے وہ خدا کا اکلوتا بیٹا ہے ، اور خدا نے اپنے اکلوتے کو زمین پر اس لیے بھیجا کہ انسانوں کے گناہ اپنے سر لے کر صلیب پر چڑھ جائے اور اپنے خون سے انسان کے گناہ کا کفارہ اداکرے ۔ حالانکہ اس کا کوئی ثبوت خود مسیح علیہ السلام کے کسی قول سے وہ نہیں دے سکتے ۔ یہ عقیدہ ان کے اپنے تخیلات کا آفریدہ ہے اور اس غلو کا نتیجہ ہے جس میں وہ اپنے پیغمبر کی عظیم الشان شخصیت سے متأثر ہو کر مبتلا ہوگئے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں کفارہ کے عقیدے کی تردید نہیں کی ہے ، کیونکہ عیسائیوں کے ہاں یہ کوئی مستقل عقیدہ نہیں ہے بلکہ مسیح کو خدا کا بیٹا قرار دینے کا شاخسانہ اور اس سوال کی ایک صوفیانہ و فلسفیانہ توجیہ ہے کہ جب مسیح خدا کا اکلوتا تھا تو وہ صلیب پر چڑھ کر لعنت کی موت کیوں مرا ۔ لہٰذا اس عقیدے کی تردید آپ سے آپ ہو جاتی ہے کہ اگر مسیح کے ابن اللہ ہونے کی تردید کر دی جائے اور اس غلط فہمی کو دور کر دیا جائے کہ مسیح علیہ السلام صلیب پر چڑھائے گئے تھے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :217 یعنی زمین و آسمان کی موجودات میں سے کسی کے ساتھ بھی خدا کا تعلق باپ اور بیٹے کا نہیں ہے بلکہ محض مالک اور مملوک کا تعلق ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :218 یعنی خدا اپنی خدائی کا انتظام کرنے کے لیے خود کافی ہے ، اس کو کسی سے مدد لینے کی حاجت نہیں کہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے ۔
اپنی اوقات میں رہو حد سے تجاوز نہ کرو! اہل کتاب کو زیادتی سے اور حد سے آگے بڑھ جانے سے اللہ تعالیٰ روک رہا ہے ۔ عیسائی حضرت عیسیٰ کے بارے میں حد سے نکل گئے تھے اور نبوت سے بڑھا کر الوہیت تک پہنچا رہے تھے ۔ بجائے ان کی اطاعت کے عبادت کرنے لگے تھے ، بلکہ اور بزرگان دین کی نسبت بھی ان کا عقیدہ خراب ہو چکا تھا ، وہ انہیں بھی جو عیسائی دین کے عالم اور عامل تھے معصوم محض جاننے لگ گئے تھے اور یہ خیال کر لیا تھا کہ جو کچھ یہ ائمہ دین کہہ دیں اس کا ماننا ہمارے لئے ضروری ہے ، سچ و جھوٹ ، حق و باطل ، ہدایت و ضلالت کے پرکھنے کا کوئی حق ہمیں حاصل نہیں ۔ جس کا ذکر قرآن کی اس آیت میں ہے آیت ( اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ ) 9 ۔ التوبہ:31 ) مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے تم ایسا نہ بڑھانا جیسا نصاریٰ نے عیسیٰ بن مریم کو بڑھایا ، میں تو صرف ایک بندہ ہوں پس تم مجھے عبداللہ اور رسول اللہ کہنا ۔ یہ حدیث بخاری وغیرہ میں بھی ہے اسی کی سند ایک حدیث میں ہے کہ کسی شخص نے آپ سے کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اے ہمارے سردار اور سردار کے لڑکے ، اے ہم سب سے بہتر اور بہتر کے لڑکے! تو آپ نے فرمایا لوگو اپنی بات کا خود خیال کر لیا کرو تمہیں شیطان بہکا نہ دے ، میں محمد بن عبداللہ ہوں ، میں اللہ کا غلام اور اس کا رسول ہوں ، قسم اللہ کی میں نہیں چاہتا کہ تم مجھے میرے مرتبے سے بڑھا دو پھر فرماتا ہے اللہ پر افتراء نہ باندھو ، اس سے بیوی اور اولاد کو منسوب نہ کرو ، اللہ اس سے پاک ہے ، اس سے دور ہے ، اس سے بلند و بالا ہے ، اس کی بڑائی اور عزت میں کوئی اس کا شریک نہیں ، اس کے سوا نہ تو کوئی معبود اور نہ رب ہے ۔ مسیح عیسیٰ بن مریم رسول اللہ ہیں ، وہ اللہ کے غلاموں میں سے ایک غلام ہیں اور اس کی مخلوق ہیں ، وہ صرف کلمہ کن کے کہنے سے پیدا ہوئے ہیں ، جس کلمہ کو لے کر حضرت جبرائیل حضرت مریم صدیقہ کے پاس گئے اور اللہ کی اجازت سے اسے ان میں پھونک دیا پس حضرت عیسیٰ پیدا ہوئے ۔ چونکہ محض اسی کلمہ سے بغیر باپ کے آپ پیدا ہوئے ، اس لئے خصوصیت سے کلمتہ اللہ کہا گیا ۔ قرآن کی ایک اور آیت میں ہے آیت ( مَا الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ) 5 ۔ المائدہ:75 ) یعنی مسیح بن مریم صرف رسول اللہ ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گذر چکے ہیں ، ان کی والدہ سچی ہیں ، یہ دونوں کھانا کھایا کرتے تھے اور آیت میں ہے آیت ( اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ ۭخَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ ) 3 ۔ آل عمران:59 ) عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے جسے مٹی سے بنا کر فرمایا ہو جا پس وہ ہو گیا ۔ قرآن کریم اور جگہ فرماتا ہے آیت ( وَالَّتِيْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيْهَا مِنْ رُّوْحِنَا وَجَعَلْنٰهَا وَابْنَهَآ اٰيَةً لِّـلْعٰلَمِيْنَ ) 21 ۔ الانبیآء:91 ) جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی اور ہم نے اپنی روح پھونکی اور خود اسے اور اس کے بچے کو لوگوں کے لئے اپنی قدرت کی علامت بنایا اور جگہ فرمایا آیت ( وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِيْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيْهِ مِنْ رُّوْحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمٰتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهٖ وَكَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِيْنَ ) 66 ۔ التحریم:12 ) سے آخر سورت تک ۔ حضرت عیسیٰ کی بابت ایک اور آیت میں ہے آیت ( اِنْ هُوَ اِلَّا عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَيْهِ وَجَعَلْنٰهُ مَثَلًا لِّبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ) 43 ۔ الزخرف:59 ) ، وہ ہمارا ایک بندہ تھا جس پر ہم نے انعام کیا ۔ پس یہ مطلب نہیں کہ خود کلمتہ الٰہی عیسیٰ بن گیا بلکہ کلمہ الٰہی سے حضرت عیسیٰ پیدا ہوئے ۔ امام ابن جریر نے آیت ( اِذْ قَالَتِ الْمَلٰۗىِٕكَةُ يٰمَرْيَمُ اِنَّ اللّٰهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ ) 3 ۔ آل عمران:45 ) کی تفسیر میں جو کچھ کہا ہے اس سے یہ مراد ٹھیک ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ جو حضرت جبرائیل کی معرفت پھونکا گیا ، اس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے ۔ صحیح بخاری میں ہے جس نے بھی اللہ کے ایک اور لا شریک ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عبد و رسول ہونے کی عیسیٰ کے عبد و رسول ہونے اور یہ کہ آپ اللہ کے کلمہ سے تھے جو مریم کی طرف پھونکا گیا تھا اور الہ کی پھونکی ہوئی روح تھے اور جس نے جنت دوزخ کو برحق مانا وہ خواہ کیسے ہی اعمال پر ہو ، اللہ پر حق ہے کہ اسے جنت میں لے جائے ۔ ایک روایت میں اتنی زیادہ بھی ہے کہ جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس سے چاہے داخل ہو جائے جیسے کہ جناب عیسیٰ کو آیت وحدیث میں ( روح منہ ) کہا ہے ایسے ہی قرآن کی ایک آیت میں ہے آیت ( وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مِّنْهُ ) 45 ۔ الجاثیہ:13 ) اس نے مسخر کیا تمہارے لئے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے ، تمام کا تمام اپنی طرف ہے ۔ یعنی اپنی مخلوق اور اپنے پاس کی روح سے ۔ پس لفظ من تبعیض ( اس کا حصہ ) کے لئے نہیں جیسے ملعون نصرانیوں کا خیال ہے کہ حضرت عیسیٰ اللہ کا ایک جزو تھے بلکہ من ابتداء کے لئے ہے ۔ جیسے کہ دوسری آیت میں ہے ، حضرت مجاہد فرماتے ہیں روح منہ سے مراد رسول منہ ہے اور لوگ کہتے ہیں آیت ( محبتہ منہ ) لیکن زیادہ قوی پہلا قول ہے یعنی آپ پیدا کئے گئے ہیں ، روح سے جو خود اللہ کی مخلوق ہے ۔ پس آپ کو روح اللہ کہنا ایسا ہی ہے جیسے ( ناقتہ اللہ ) اور بت اللہ کہا گیا ہے یعنی صرف اس کی عظمت کے اظہار کے لئے اپنی طرف نسبت کی اور حدیث میں بھی ہے کہ میں اپنے رب کے پاس اس کے گھر میں جاؤں گا ۔ پھر فرماتا ہے تم اس کا یقین کر لو کہ اللہ واحد ہے بیوی بچوں سے پاک ہے اور یقین مان لو کہ جناب عیسیٰ اللہ کا کلام اللہ کی مخلوق اور اس کے برگزیدہ رسول ہیں ۔ تم تین نہ کہو یعنی عیسیٰ اور مریم کو اللہ کا شریک نہ بناؤ اللہ کی الوہیت شرکت سے مبرا ہے ۔ سورہ مائدہ میں فرمایا آیت ( لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةٍ ) 5 ۔ المائدہ:73 ) یعنی جو کہتے ہیں کہتے ہیں کہ اللہ تین میں کا تیسرا ہے وہ کافر ہو گئے ، اللہ تعالیٰ ایک ہی ہے ، اس کے سوا کوئی اور لائق عبادت نہیں ۔ سورہ مائدہ کے آخر میں ہے کہ قیامت کے دن حضرت عیسیٰ سے سوال ہو گا کہ اپنی اور اپنی والدہ کی عبادت کا حکم لوگوں کو تم نے دیا تھا ، آپ صاف طور پر انکار کر دیں گے ۔ نصرانیوں کا اس بارے میں کوئی اصول ہی نہیں ہے ، وہ بری طرح بھٹک رہے ہیں اور اپنے آپ کو برباد کر رہے ہیں ۔ ان میں سے بعض تو حضرت عیسیٰ کو خود اللہ مانتے ہیں ، بعض شریک الہیہ مانتے اور بعض اللہ کا بیٹا کہتے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر دس نصرانی جمع ہوں تو ان کے خیالات گیارہ ہوں گے ۔ سعید بن بطریق اسکندری جو سن 400 ھ کے قریب گذرا ہے اس نے اور بعض ان کے اور بڑے علماء نے ذکر کیا ہے کہ قسطنطین بانی قسطنطنیہ کے زمانے میں اس وقت کے نصرانیوں کا اس بادشاہ کے حکم سے اجتماع ہوا ، جس میں دو ہزار سے زیادہ ان کے مذہبی پیشوا شامل ہوتے تھے ، باہم ان کے اختلاف کا یہ حال تھا کہ کسی بات پر ستر اسی آدمیوں کا اتفاق مفقود تھا ، دس کا ایک عقیدہ ہے ، بیس کا ایک خیال ہے ، چالیس اور ہی کچھ کہتے ہیں ، ساٹھ اور طرف جا رہے ہیں ، غرض ہزار ہا کی تعداد میں سے بہ مشکل تمام تین سو اٹھارہ آدمی ایک قول پر جمع ہوئے ، بادشاہ نے اسی عقیدہ کو لے لیا ، باقی کو چھوڑ دیا اور اسی کی تائید و نصرت کی اور ان کے لئے کلیساء اور گرجے بنا دئے اور کتابیں لکھوا دیں ، قوانین ضبط کر دئے ، یہیں انہوں نے امانت کبریٰ کا مسئلہ گھڑا ، جو دراصل بدترین خیانت ہے ، ان لوگوں کو ملکانیہ کہتے ہیں ۔ پھر دوبارہ ان کا اجتماع ہوا ، اس وقت جو فرقہ بنا اس کا نام یعقوبیہ ہے ۔ پھر تیسری مرتبہ کے اجتماع میں جو فرقہ بنا اس کا نام نسطوریہ ہے ، یہ تینوں فرقے اقانیم ثلثہ کو حضرت عیسیٰ کے لئے ثابت کرتے ہیں ، ان میں بھی باہم دیگر اختلاف ہے اور ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں اور ہمارے نزدیک تو تینوں کافر ہیں ۔ اللہ فرماتا ہے اس شرک سے باز آؤ ، باز رہنا ہی تمہارے لئے اچھا ہے ، اللہ تو ایک ہی ہے ، وہ توحید والا ہے ، اس کی ذات اس سے پاک ہے کہ اس کے ہاں اولاد ہو ۔ تمام چیزیں اس کی مخلوق ہیں اور اس کی ملکیت میں ہیں ، سب اس کی غلامی میں ہیں اور سب اس کے قبضے میں ہیں ، وہ ہر چیز پر وکیل ہے ، پھر مخلوق میں سے کوئی اس کی بیوی اور کوئی اس کا بچہ کیسے ہو سکتا ہے؟ دوسری آیت میں ہے آیت ( بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ اَنّٰى يَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ ) 6 ۔ الانعام:101 ) یعنی وہ تو آسمان و زمین کی ابتدائی آفرنیش کرنے والا ہے ، اس کا لڑکا کیسے ہو سکتا ہے؟ سورہ مریم میں آیت ( وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا 88؀ۭ لَقَدْ جِئْتُمْ شَـيْــــــًٔـا اِدًّا 89؀ۙ تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَــتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا 90۝ۙ اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا 91۝ۚ وَمَا يَنْۢبَغِيْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ يَّـتَّخِذَ وَلَدًا 92۝ۭ اِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِي الرَّحْمٰنِ عَبْدًا 93؀ۭ لَقَدْ اَحْصٰىهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا 94؀ۭ وَكُلُّهُمْ اٰتِيْهِ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فَرْدًا 95؁ ) 19 ۔ مریم:88 تا 95 ) تک بھی اس کا مفصلاً انکار فرمایا ہے ۔