Surah

Information

Surah # 5 | Verses: 120 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 112 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
وَلَقَدۡ اَخَذَ اللّٰهُ مِيۡثَاقَ بَنِىۡۤ اِسۡرآءِيۡلَ‌ۚ وَبَعَثۡنَا مِنۡهُمُ اثۡنَىۡ عَشَرَ نَقِيۡبًا‌ ؕ وَقَالَ اللّٰهُ اِنِّىۡ مَعَكُمۡ‌ؕ لَٮِٕنۡ اَقَمۡتُمُ الصَّلٰوةَ وَاٰتَيۡتُمُ الزَّكٰوةَ وَاٰمَنۡتُمۡ بِرُسُلِىۡ وَعَزَّرۡتُمُوۡهُمۡ وَاَقۡرَضۡتُمُ اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا لَّاُكَفِّرَنَّ عَنۡكُمۡ سَيِّاٰتِكُمۡ وَلَاُدۡخِلَـنَّكُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ‌ۚ فَمَنۡ كَفَرَ بَعۡدَ ذٰ لِكَ مِنۡكُمۡ فَقَدۡ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِيۡلِ‏ ﴿12﴾
اور اللہ تعالٰی نے بنی اسرائیل سے عہد و پیماں لیا اور انہی میں سے بارہ سردار ہم نےمقرر فرمائے اور اللہ تعالٰی نے فرمادیا کہ یقیناً میں تمہارے ساتھ ہوں ، اگر تم نماز قائم رکھو گے اور زکوۃ دیتے رہو گے اور میرے رسولوں کو مانتے رہو گے اور ان کی مدد کرتے رہو گے اور اللہ تعالٰی کو بہتر قرض دیتے رہو گے تو یقیناً میں تمہاری برائیاں تم سے دور رکھوں گا اور تمہیں ان جنتوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے چشمے بہہ رہے ہیں ، اب اس عہد و پیمان کے بعد بھی تم میں سے جو انکاری ہو جائے وہ یقیناً راہ راست سے بھٹک گیا ۔
و لقد اخذ الله ميثاق بني اسراءيل و بعثنا منهم اثني عشر نقيبا و قال الله اني معكم لىن اقمتم الصلوة و اتيتم الزكوة و امنتم برسلي و عزرتموهم و اقرضتم الله قرضا حسنا لاكفرن عنكم سياتكم و لادخلنكم جنت تجري من تحتها الانهر فمن كفر بعد ذلك منكم فقد ضل سواء السبيل
And Allah had already taken a covenant from the Children of Israel, and We delegated from among them twelve leaders. And Allah said, "I am with you. If you establish prayer and give zakah and believe in My messengers and support them and loan Allah a goodly loan, I will surely remove from you your misdeeds and admit you to gardens beneath which rivers flow. But whoever of you disbelieves after that has certainly strayed from the soundness of the way."
Aur Allah Taalaa ney bani israeel say ehad-o-paymaan liya aur unhi mein say baara sardar hum ney muqarrar farmaye aur Allah Taalaa ney farma diya kay yaqeenan mein tumharay sath hun agar tum namaz qaeem rakho gay aur zakat detay raho gay aur meray rasoolon ko maantay raho gay aur unn ki madad kertay raho gay aur Allah Taalaa ko behtar qarz detay raho gay to yaqeenan mein tumhari buraiyan tum say door rakhoon ga aur tumhen unn jannaton mein ley jaon ga jin kay neechay chashmay beh rahey hain abb iss ehas-o-paymaan kay baad bhi tum mein say jo inkari ho jaye woh yaqeenan raah-e-raast say bhatak gaya.
اور یقینا اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا ، اور ہم نے ان میں سے بارہ نگراں مقرر کیے تھے ( ١٣ ) اور اللہ نے کہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں ، اگر تم نے نماز قائم کی ، زکوٰۃ ادا کی ، میرے پیغمبروں پر ایمان لائے ، عزت سے ان کا ساتھ دیا اور اللہ کو اچھا قرض دیا ( ١٤ ) تو یقین جانو کہ میں تمہاری برائیوں کا کفارہ کردوں گا ، اور تمہیں ان باغات میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ، پھر اس کے بعد بھی تم میں سے جو شخص کفر اختیار کرے گا تو درحقیقت وہ سیدھی راہ سے بھٹک جائے گا
اور بیشک اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد کیا ( ف۳۹ ) اور ہم نے ان میں بارہ سردار قائم کیے ( ف٤۰ ) اور اللہ نے فرمایا بیشک میں ( ف٤۱ ) تمہارے ساتھ ہوں ضرور اگر تم نماز قائم رکھو اور زکوٰة دو اور میرے سوالوں پر ایمان لاؤ اور ان کی تعظیم کرو اور اللہ کو قرض حسن دو ( ف٤۲ ) بیشک میں تمہارے گناہ اتار دوں گا اور ضرور تمہیں باغوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے نہریں رواں ، پھر اس کے بعد جو تم میں سے کفر کرے وہ ضرور سیدھی راہ سے بہکا ( ف٤۳ )
اللہ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا اور ان میں بارہ نقیب 31 مقرر کیے تھے اور ان سے کہا تھا کہ “ میں تمہارے ساتھ ہوں ، اگر تم نے نماز قائم رکھی اور زکوٰة دی اور میرے رسولوں کو مانا اور ان کی مدد کی32 اور اپنے خدا کو اچھا قرض دیتے رہے 33 تو یقین رکھو کہ میں تمہاری برائیاں تم سے زائل کر دوں گا 34 اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ، مگر اس کے بعد جس نے تم میں سے کفر کی روش اختیار کی تو درحقیقت اس نے سواء السبیل 35 گم کر دی ۔
اور بیشک اﷲ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا اور ( اس کی تعمیل ، تنفیذ اور نگہبانی کے لئے ) ہم نے ان میں بارہ سردار مقرر کئے ، اور اﷲ نے ( بنی اسرائیل سے ) فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں ( یعنی میری خصوصی مدد و نصرت تمہارے ساتھ رہے گی ) ، اگر تم نے نماز قائم رکھی اور تم زکوٰۃ دیتے رہے اور میرے رسولوں پر ( ہمیشہ ) ایمان لاتے رہے اور ان ( کے پیغمبرانہ مشن ) کی مدد کرتے رہے اور اﷲ کو ( اس کے دین کی حمایت و نصرت میں مال خرچ کرکے ) قرضِ حسن دیتے رہے تو میں تم سے تمہارے گناہوں کو ضرور مٹا دوں گا اور تمہیں یقیناً ایسی جنتوں میں داخل کر دوں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ۔ پھر اس کے بعد تم میں سے جس نے ( بھی ) کفر ( یعنی عہد سے انحراف ) کیا تو بیشک وہ سیدھی راہ سے بھٹک گیا
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :31 نقیب کے معنی نگرانی اور تفتیش کرنے والے کے ہیں ۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ہر قبیلہ پر ایک ایک نقیب خود اسی قبیلہ سے مقرر کرنے کا حکم دیا تھا تاکہ وہ ان کے حالات پر نظر رکھے اور انہیں بے دینی و بد اخلاقی سے بچانے کی کوشش کرتا رہے ۔ بائیبل کی کتاب گنتی میں بارہ ”سرداروں“ کا ذکر موجود ہے ، مگر ان کی وہ حیثیت جو یہاں لفظ ”نقیب“ سے قرآن میں بیان کی گئی ہے ، بائیبل کے بیان سے ظاہر نہیں ہوتی ۔ بائیبل انہیں صرف رئیسوں اور سرداروں کی حیثیت سے پیش کرتی ہے اور قرآن ان کی حیثیت اخلاقی و دینی نگران کار کی قرار دیتا ہے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :32 یعنی جو رسول بھی میری طرف سے آئیں ، ان کی دعوت پر اگر تم لبیک کہتے اور ان کی مدد کرتے رہے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :33 یعنی خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے رہے ۔ چونکہ اللہ تعالیٰ اس ایک ایک پائی کو ، جو انسان اس کی راہ میں خرچ کرے ، کئی گنا زیادہ انعام کے ساتھ واپس کرنے کا وعدہ فرماتا ہے ، اس لیے قرآن میں جگہ جگہ راہ خدا میں مال خرچ کرنے کو ”قرض “ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ بشرطیکہ وہ”اچھا قرض“ ہو ، یعنی جائز ذرائع سے کمائی ہوئی دولت خرچ کی جائے ، خدا کے قانون کے مطابق خرچ کی جائے اور خلوص وحسن نیت کے ساتھ خرچ کی جائے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :34 کسی سے اس کی برائیاں زائل کر دینے کے دو مطلب ہیں: ایک یہ کہ راہ راست کو اختیار کرنے اور خدا کی ہدایت کے مطابق فکر و عمل کے صحیح طریقے پر چلنے کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ انسان کا نفس بہت سی برائیوں سے ، اور اس کا طرز زندگی بہت سی خرابیوں سے پاک ہوتا چلا جائے ۔ دوسرے یہ کہ اس اصلاح کے باوجود اگر کوئی شخص بحیثیت مجموعی کمال کے مرتبے کو نہ پہنچ سکے اور کچھ نہ کچھ برائیاں اس کے اندر باقی رہ جائیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان پر مواخذہ نہ فرمائے گا اور ان کو اس کے حساب سے ساقط کر دے گا ، کیونکہ جس نے اساسی ہدایت اور بنیادی اصلاح قبول کرلی ہو اس کی جزئی اور ضمنی برائیوں کا حساب لینے میں اللہ تعالیٰ سخت گیر نہیں ہے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :35 یعنی اس نے”سَوَاء السّبیل“ کو پا کر پھر کھو دیا اور وہ تباہی کے راستوں میں بھٹک نکلا ۔ ”سَوَاء السّبیل“ کا ترجمہ ”توسط و اعتدال کی شاہراہ“ کیا جا سکتا ہے مگر اس سے پورا مفہوم ادا نہیں ہوتا ۔ اسی لیے ہم نے ترجمہ میں اصل لفظ ہی کو جوں کا توں لے لیا ہے ۔ اس لفظ کی معنویت کو سمجھنے کے لیے پہلے یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ انسان بجائے خود اپنی ذات میں ایک عالم اصغر ہے جس کے اندر بے شمار مختلف قوتیں اور قابلیتیں ہیں ، خواہشیں ہیں ، جذبات اور رحجانات ہیں ، نفس اور جسم کے مختلف مطالبے ہیں ، روح اور طبیعت کے مختلف تقاضے ہیں ۔ پھر ان افراد کے ملنے سے جو اجتماعی زندگی بنتی ہے وہ بھی بے حد و حساب پیچیدہ تعلقات سے مرکب ہوتی ہے اور تمدن و تہذیب کے نشو و نما کے ساتھ ساتھ اس کی پیچیدگیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں ۔ پھر دنیا میں جو سامان زندگی انسان کے چاروں طرف پھیلا ہوا ہے اس سے کام لینے اور اس کو انسانی تمدن میں استعمال کرنے کا سوال بھی انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے بکثرت شاخ در شاخ مسائل پیدا کرتا ہے ۔ انسان اپنی کمزوری کی وجہ سے اس پورے عرصہ حیات پر بیک وقت ایک متوازن نظر نہیں ڈال سکتا ۔ اس بنا پر انسان اپنے لیے خود زندگی کا کوئی ایسا راستہ بھی نہیں بنا سکتا جس میں اس کی ساری قوتوں کے ساتھ انصاف ہو ، اس کی تمام خواہشوں کا ٹھیک ٹھیک حق ادا ہو جائے ، اس کے سارے جذبات و رحجانات میں توازن قائم رہے ، اس کے سب اندرونی و بیرونی تقاضے تناسب کے ساتھ پورے ہوں ، اس کی اجتماعی زندگی کے تمام مسائل کی مناسب رعایت ملحوظ ہو اور ان سب کا ایک ہموار اور متناسب حل نکل آئے ، اور مادی اشیاء کو بھی شخصی اور تمدنی زندگی میں عدل ، انصاف اور حق شناسی کے ساتھ استعمال کیا جا تا رہے ۔ جب انسان خود اپنا رہنما اور اپنا شارع بنتا ہے تو حقیقت کے مختلف پہلوؤں میں سے کوئی ایک پہلو ، زندگی کی ضرورتوں میں سے کوئی ایک ضرورت ، حل طلب مسئلوں میں سے کوئی ایک مسئلہ اس کے دماغ پر اس طرح مسلط ہو جاتا ہے کہ دوسرے پہلوؤں اور ضرورتوں اور مسئلوں کے ساتھ وہ بالارادہ یا بلا ارادہ بے انصافی کرنے لگتا ہے ۔ اور اس کی اس رائے کے زبردستی نافذ کیے جانے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زندگی کا توازن بگڑ جاتا ہے اور وہ بے اعتدالی کی کسی ایک انتہا کی طرف ٹیڑھی چلنے لگتی ہے ۔ پھر جب یہ ٹیڑھی چال اپنے آخری حدود پر پہنچتے پہنچتے انسان کے لیے ناقابل برداشت ہو جاتی ہے تو وہ پہلو اور وہ ضروریات اور وہ مسائل جن کے ساتھ بے انصافی ہوئی تھی ، بغاوت شروع کر دیتے ہیں اور زور لگانا شروع کر تے ہیں کہ ان کے ساتھ انصاف ہو ۔ مگر انصاف پھر بھی نہیں ہو تا ۔ کیونکہ پھر وہی عمل رونما ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی ایک ، جو سابق بے اعتدالی کی بدولت سب سے زیادہ دبا دیا گیا تھا ، انسانی دماغ پر حاوی ہو جاتا ہے اور اسے اپنے مخصوص مقتضاء کے مطابق ایک خاص رخ پر بہا لے جاتا ہے جس میں پھر دوسرے پہلوؤں اور ضرورتوں اور مسئلوں کے ساتھ بے انصافی ہونے لگتی ہے ۔ اس طرح زندگی کو کبھی سیدھا چلنا نصیب نہیں ہوتا ۔ ہمیشہ وہ ہچکولے ہی کھاتی رہتی ہے اور تباہی کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے کی طرف ڈھلکتی چلی جاتی ہے ۔ تمام وہ راستے جو خود انسان نے اپنی زندگی کے لیے بنائے ہیں ، خط منحنی کی شکل میں واقع ہیں ، غلط سمت سے چلتے ہیں اور غلط سمت پر ختم ہو کر پھر کسی دوسری غلط سمت کی طرف مڑ جاتے ہیں ۔ ان بہت سے ٹیڑھے اور غلط راستوں کے درمیان ایک ایسی راہ جو بالکل وسط میں واقع ہو ، جس میں انسان کی تمام قوتوں اور خواہشوں کے ساتھ ، اس کے تمام جذبات و رحجانات کے ساتھ ، اور اس کی روح اور جسم کے تمام مطالبوں اور تقاضوں کے ساتھ ، اور اس کی زندگی کے تمام مسائل کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا گیا ہو ، جس کے اندر کوئی ٹیڑھ ، کوئی کجی ، کسی پہلو کی بے جا رعایت اور کسی دوسرے پہلو کے ساتھ ظلم اور بے انصافی نہ ہو ، انسانی زندگی کے صحیح ارتقاء اور اس کی کامیابی و بامرادی کے لیے سخت ضرورت ہے ۔ انسان کی عین فطرت اس راہ کی طالب ہے ، اور مختلف ٹیڑھے راستوں سے بار بار اس کے بغاوت کرنے کی اصل وجہ یہی ہے کہ وہ اس سیدھی شاہراہ کو ڈھونڈتی ہے ۔ مگر انسان خود اس شاہراہ کو معلوم کرنے پر قادر نہیں ہے ۔ اس کی طرف صرف خدا ہ راہنمائی کر سکتا ہے اور خدا نے اپنے رسول اسی لیے بھیجے ہیں کہ اس راہ راست کی طرف انسان کی راہنمائی کریں ۔ قرآن اسی راہ کو سَوَاء السّبیل اور صراط مستقیم کہتا ہے ۔ یہ شاہراہ دنیا کی اس زندگی سے لے کر آخرت کی دوسری زندگی تک بے شمار ٹیڑھے راستوں کے درمیان سے سیدھی گزرتی چلی جاتی ہے ۔ جو اس پر چلا ، وہ یہاں راست رو اور آخرت میں کامیاب و بامراد ہے ، اور جس نے اس راہ کو گم کر دیا ، وہ یہاں غلط ہیں ، غلط رو اور غلط کار ہے ، اور آخرت میں لامحالہ اسے دوزخ میں جانا ہے ، کیونکہ زندگی کے تمام ٹیڑھے راستے دوزخ ہی کی طرف جاتے ہیں ۔ موجودہ زمانہ کے بعض نادان فلسفیوں نے یہ دیکھ کر کہ انسانی زندگی پے در پے ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف دھکے کھاتی چلی جا رہی ہے ، یہ غلط نتیجہ نکال لیا کہ ”جَدَلی عمل“ ( Dialectical Process ) انسانی زندگی کے ارتقاء کا فطری طریق ہے ۔ وہ اپنی حماقت سے یہ سمجھ بیٹھے کہ انسان کے ارتقاء کا راستہ یہی ہے کہ پہلے ایک انتہا پسندانہ دعویٰ ( Thesis ) اسے ایک رخ پر بہا لے جائے ، پھر اس کے جواب میں دوسرا ویسا ہی انتہا پسندانہ دعویٰ ( Antithesis ) اسے دوسری انتہا کی طرف کھینچے ، اور پھر دونوں کے امتزاج ( Synthesis ) سے ارتقاء حیات کا راستہ بنے ۔ حالانکہ دراصل یہ ارتقاء کی راہ نہیں ہے بلکہ بد نصیبی کے دھکے ہیں جو انسانی زندگی کے صحیح ارتقاء میں بار بار مانع ہو رہے ہیں ۔ ہر انتہا پسندانہ دعویٰ زندگی کو اس کے کسی ایک پہلو کی طرف موڑتا ہے اور اسے کھینچے لیے چلا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ جب وہ سَوَاء السّبیل سے بہت دور جا پڑتی ہے تو خود زندگی ہی کی بعض دوسری حقیقتیں ، جن کے ساتھ بے انصافی ہو رہی تھی ، اس کے خلاف بغاوت شروع کر دیتی ہیں اور یہ بغاوت ایک جوابی دعوے کی شکل اختیار کر کے اسے مخالف سمت میں کھینچنا شروع کر تی ہے ۔ جوں جوں سَوَاءالسّبیل قریب آتی ہے ان متصادم دعوؤں کے درمیان مصالحت ہونے لگتی ہے اور ان کے امتزاج سے وہ چیزیں وجود میں آتی ہیں جو انسانی زندگی میں نافع ہیں ۔ لیکن جب وہاں نہ سَوَاء السّبیل کے نشانات دکھانے والی روشنی موجود ہوتی ہے اور نہ اس پر ثابت قدم رکھنے والا ایمان ، تو وہ جوابی دعویٰ زندگی کو اس مقام پر ٹھیرنے نہیں دیتا بلکہ اپنے زور میں اسے دوسری جانب انتہا تک کھینچتا چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ پھر زندگی کی کچھ دوسری حقیقتوں کی نفی شروع ہو جاتی ہے اور نتیجہ میں ایک دوسری بغاوت اٹھ کھڑی ہوتی ہے ۔ اگر ان کم نظر فلسفیوں تک قرآن کی روشنی پہنچ گئی ہوتی اور انہوں نے سَوَاء السّبیل کو دیکھ لیا ہوتا تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ انسان کے لیے ارتقاء کا صحیح راستہ یہی سواء السّبیل ہے کہ خط منحنی پر ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف دھکے کھاتے پھرنا ۔
عہد شکن لوگ؟ اور امام مہدی کون؟ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو عہد و پیمانے کی وفاداری ، حق پر مستقیم رہنے اور عدل کی شہادت دینے کا حکم دیا تھا ۔ ساتھ ہی اپنی ظاہری و باطنی نعمتوں کو یاد دلایا تھا ۔ تو اب ان آیتوں میں ان سے پہلے کے اہل کتاب سے جو عہد و میثاق لیا تھا ، اس کی حقیقت و کیفیت کو بیان فرما رہا ہے ، پھر جبکہ انہوں نے اللہ سے کئے ہوئے عہد و پیمان توڑ ڈالے تو ان کا کیا حشر ہوا ، اسے بیان فرما کر گویا مسلمانوں کو عہد شکنی سے روکتا ہے ۔ ان کے بارہ سردار تھے ۔ یعنی بارہ قبیلوں کے بارہ چودھری تھے جو ان سے ان کی بیعت کو پورا کراتے تھے کہ یہ اللہ اور رسول کے تابع فرمان رہیں اور کتاب اللہ کی اتباع کرتے رہیں ۔ حضرت موسیٰ جب سرکشوں سے لڑنے کیلئے گئے تب ہر قبیلہ میں سے ایک ایک سردار منتخب کر گئے تھے ۔ اوبیل قبیلے کا سردار شامون بن اکون تھا ، شمعونیوں کا چودھری شافاط بن جدی ، یہودا کا کالب بن یوحنا ، فیخائیل کا ابن یوسف اور افرایم کا یوشع بن نون اور بنیامین کے قبیلے کا چودھری قنطمی بن وفون ، زبولون کا جدی بن شوری ، منشاء کاجدی بن سوسی ، دان حملاسل کا ابن حمل ، اشار کا ساطور ، تفتای کا بحر اور یاسخر کالابل ۔ توراۃ کے چوتھے جز میں بنو اسرائیل کے قبیلوں کے سرداروں کے نام مذکور ہیں ۔ جو ان ناموں سے قدرے مختلف ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ موجودہ تورات کے نام یہ ہیں ۔ بنو ادبیل پر صونی بن سادون ، بنی شمعون پر شموال بن صور ، بنو یہود پر حشون بن عمیاذب ، بنو یساخر پر شال بن صاعون ، بنو زبولوں پر الیاب بن حالوب ، بنو افرایم پر منشا بن عنہور ، بنو منشاء پر حمائیل بنو بیبا میں پر ابیدن ، بنودان پر جعیذ ربنو اشاذ نحایل ۔ بون کان پر سیف بن دعوابیل ، بنو نفعالی پر اجذع ۔ یاد رہے کہ لیلتہ العقبہ میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے بیعت لی اس وقت ان کے سردار بھی بارہ ہی تھے ۔ تین قبیلہ اوس کے ۔ حضرت اسید بن حضیر ، حضرت سعد بنی خیشمہ اور حضرت رفاعہ بن عبد المنذر اور نو سردار قبیلہ خزرج تھے ۔ ابو امامہ ، اسعد بن زرارہ ، سعد بن ربیع ، عبداللہ بن رواحہ ، رافع بن مالک بن عجلان براء بن معرور عبادہ بن صامت ، سعد بن عبادہ ، عبداللہ بن عمرو بن حرام ، منذربن عمرو بن حنیش اجمعین ۔ انہی سرداروں نے اپنی اپنی قوم کی طرف سے پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم سے فرامین سننے اور ماننے کی بیعت کی ، حضرت مسروق فرماتے ہیں ہم لوگ حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس بیٹھے تھے ، آپ ہمیں اس وقت قرآن پڑھا رہے تھے تو ایک شخص نے سوال کیا کہ آپ لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی پوچھا ہے کہ اس امت کے کتنے خلیفہ ہوں گے؟ حضرت عبداللہ نے فرمایا میں جب سے عراق آیا ہوں ، اس سوال کو بجز تیرے کسی نے نہیں پوچھا ، ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں دریافت کیا تھا تو آپ نے فرمایا ، بارہ ہوں گے ، جتنی گنتی بنو اسرائیل کے نقیبوں کی تھی ۔ یہ روایت سنداً غریب ہے ، لیکن مضمون حدیث بخاری اور مسلم کی روایت سے بھی ثابت ہے ، جابر بن سمرہ فرماتے ہیں میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ، لوگوں کا کام چلتا رہے گا ، جب تک ان کے والی بارہ شخص نہ ہو لیں ، پھر ایک لفظ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن میں نہ سن سکا تو میں نے دوسروں سے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اب کونسا لفظ فرمایا ، انہوں نے جواب دیا یہ فرمایا کہ یہ سب قریش ہوں گے ۔ صحیح مسلم میں یہی لفظ ہیں ۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بارہ خلیفہ صالح نیک بخت ہونگے ۔ جو حق کو قائم کریں گے اور لوگوں میں عدل کرینگے ۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ سب پے درپے یکے بعد دیگرے ہی ہوں ۔ پس چار خلفاء تو پے درپے حضرت ابو بکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان ، حضرت جن کی خلافت بطریق نبوت رہی ۔ انہی بارہ میں سے پانچویں حضرت عمر بن عبد العزیز ہیں ۔ بنو عباس میں سے بھی بعض اسی طرح کے خلیفہ ہوئے ہیں اور قیامت سے پہلے پہلے ان بارہ کی تعداد پوری ہونی ضروری ہے اور انہی میں سے حضرت امام مہدی ہیں ، جن کی بشارت احادیث میں آ چکی ہے ان کا نام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ہوگا اور ان کے والد کا نام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کا ہوگا ، زمین کو عدل و انصاف سے بھر دینگے حالانکہ اس سے پہلے وہ ظلم و جبر سے پُر ہوگی لیکن اس سے شیعوں کا امام منتظر مراد نہیں ، اس کی تو دراصل کوئی حقیقت ہی نہیں ، نہ سرے سے اس کا کوئی وجود ہے ، بلکہ یہ تو صرف شیعہ کی وہم پرستی اور ان کا تخیل ہے ، نہ اس حدیث سے شیعوں کے فرقے اثنا عشریہ کے ائمہ مراد ہیں ۔ اس حدیث کو ان ائمہ پر محمول کرنا بھی شیعوں کے اس فرقہ کی بناوٹ ہے جو ان کی کم عقلی اور جہالت کا کرشمہ ہے ۔ توراۃ میں حضرت اسمعیل کی بشارت کے ساتھ ہی مرقوم ہے کہ ان کی نسل میں سے بارہ بڑے شخص ہونگے ، اسے مراد بھی یہی مسلمانوں کے بارہ قریشی بادشاہ ہیں لیکن جو یہودی مسلمان ہوئے تھے ، وہ اپنے اسلام میں کچے اور جاہل بھی تھے ، انہوں نے شیعوں کے کان میں کہیں یہ صور پھونک دیا اور وہ سمجھ بیٹھے کہ اس سے مراد ان کے بارہ امام ہیں ، ورنہ حدیثیں اس کے واضح خلاف موجود ہیں ۔ اب اس عہد و پیمان کا ذکر ہو رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے یہودیوں سے لیا تھا کہ وہ نمازیں پڑھتے رہیں ، زکوٰۃ دیتے رہیں ، اللہ کے رسولوں کی تصدیق کریں ، ان کی نصرت و اعانت کریں اور اللہ کی مرضی کے کاموں میں اپنا مال خرچ کریں ۔ جب وہ ایسا کریں گے تو اللہ کی مدد و نصرت ان کے ساتھ رہے گی ، ان کے گناہ معاف ہونگے اور یہ جنتوں میں داخل کئے جائیں گے ، مقصود حاصل ہوگا اور خوف زائل ہوگا ، لیکن اگر وہ اس عہد و پیما کے بعد پھر گئے اور اسے غیر معروف کر دیا تو یقینا وہ حق سے دور ہو جائیں گے ، بھٹک اور بہک جائیں گے ۔ چنانچہ یہی ہوا کہ انہوں نے میثاق توڑ دیا ، وعدہ خلافی کی تو ان پر اللہ کی لعنت نازل ہوئی ، ہدایت سے دور ہو گئے ، ان کے دل سخت ہو گئے اور وعظ و پند سے مستفید نہ ہو سکے ، سمجھ بگڑ گئی ، اللہ کی باتوں میں ہیر پھیر کرنے لگے ، باطل تاویلیں گھڑنے لگے ، جو مراد حقیقی تھی ، اس سے کلام اللہ کو پھیر کر اور ہی مطلب سمجھنے سمجھانے لگے ، اللہ کا نام لے کر وہ مسائل بیان کرنے لگے ، جو مراد حقیقی تھی ، اس سے کلام اللہ کو پھیر کر اور ہی مطلب سمجھنے سمجھانے لگے ، اللہ کا نام لے کر وہ مسائل بیان کرنے لگے جو اللہ کے بتائے ہوئے نہ تھے ، یہاں تک کہ اللہ کی کتاب ان کے ہاتھوں سے چھوٹ گئی ، وہ اس سے بےعمل چھوٹ جانے کی توجہ سے نہ تو دل ٹھیک رہے ، نہ فطرت اچھی رہی ۔ نہ خلوص و اخلاص رہا ، غداری اور مکاری کو اپنا شیوہ بنا لیا ۔ نت نئے جال نبی صلی اللہ علیہ وسلم اصحاب نبی کے خلاف بنتے رہے ۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوتا ہے کہ آپ ان سے چشم پوشی کیجئے ، یہی معاملہ ان کے ساتھ اچھا ہے ، جیسے حضرت عمر فاروق سے مروی ہے کہ جو تجھ سے اللہ کے فرمان کے خلاف سلوک کرے تو اس سے حکم الٰہی کی بجا آوری کے ماتحت سلوک کر ۔ اس میں ایک بڑی مصلحت یہ بھی ہے کہ ممکن ہے ان کے دل کھچ آئیں ، ہدایت نصیب ہو جائے اور حق کی طرف آ جائیں ۔ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔ یعنی دوسروں کی بدسلوکی سے چشم پوشی کر کے خود نیا سلوک کرنے والے اللہ کے محبوب ہیں ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں درگزر کرنے کا حکم جہاد کی آیت سے منسوب ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ان نصرانیوں سے بھی ہم نے وعدہ لیا تھا کہ جو رسول آئے گا ، یہ اس پر ایمان لائیں گے ، اس کی مدد کرینگے اور اس کی باتیں مانیں گے ۔ لیکن انہوں نے بھی یہودیوں کی طرح بد عہدی کی ، جس کی سزا میں ہم نے ان میں آپس میں عداوت ڈال دی جو قیامت تک جاری رہے گی ۔ ان میں فرقے فرقے بن گئے جو ایک دوسرے کو کافر و ملعون کہتے ہیں اور اپنے عبادت خانوں میں بھی نہیں آنے دیتے ملکیہ فرقہ یعقوبیہ فرقے کو ، یعقوبیہ ملکیہ کو کھلے بندوں کافر کہتے ہیں ، اسی طرح دوسرے تمام فرقے بھی ، انہیں ان کے اعمال کی پوری تنبیہہ عنقریب ہوگی ۔ انہوں نے بھی اللہ کی نصیحتوں کو بھلا دیا ہے اور اللہ پر تہمتیں لگائی ہیں اس پر بیوی اور اولاد والا ہونے کا بہتان باندھا ہے ، یہ قیامت کے دن بری طرح پکڑے جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ واحد واحد فرد و صمد لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوا احد ہے ۔