Surah

Information

Surah # 5 | Verses: 120 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 112 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
يٰۤـاَيُّهَا الرَّسُوۡلُ لَا يَحۡزُنۡكَ الَّذِيۡنَ يُسَارِعُوۡنَ فِى الۡكُفۡرِ مِنَ الَّذِيۡنَ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِاَ فۡوَاهِهِمۡ وَلَمۡ تُؤۡمِنۡ قُلُوۡبُهُمۡ‌ ‌ۛۚ وَمِنَ الَّذِيۡنَ هَادُوۡا ‌ ۛۚ سَمّٰعُوۡنَ لِلۡكَذِبِ سَمّٰعُوۡنَ لِقَوۡمٍ اٰخَرِيۡنَۙ لَمۡ يَاۡتُوۡكَ‌ؕ يُحَرِّفُوۡنَ الۡـكَلِمَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَوَاضِعِهٖ‌ۚ يَقُوۡلُوۡنَ اِنۡ اُوۡتِيۡتُمۡ هٰذَا فَخُذُوۡهُ وَاِنۡ لَّمۡ تُؤۡتَوۡهُ فَاحۡذَرُوۡا‌ ؕ وَمَنۡ يُّرِدِ اللّٰهُ فِتۡنَـتَهٗ فَلَنۡ تَمۡلِكَ لَهٗ مِنَ اللّٰهِ شَيۡــًٔـا‌ؕ اُولٰٓٮِٕكَ الَّذِيۡنَ لَمۡ يُرِدِ اللّٰهُ اَنۡ يُّطَهِّرَ قُلُوۡبَهُمۡ‌ ؕ لَهُمۡ فِىۡ الدُّنۡيَا خِزۡىٌ ۚۖ وَّلَهُمۡ فِىۡ الۡاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيۡمٌ‏ ﴿41﴾
اے رسول! آپ ان لوگوں کے پیچھے نہ کڑھئے جو کفر میں سبقت کر رہے ہیں خواہ وہ ان ( منافقوں ) میں سے ہوں جو زبانی تو ایمان کا دعوی کرتے ہیں لیکن حقیقتاً ان کے دل با ایمان نہیں اور یہودیوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو غلط باتیں سننے کے عادی ہیں اور ان لوگوں کے جاسوس ہیں جو اب تک آپ کے پاس نہیں آئے وہ کلمات کے اصلی موقعہ کو چھوڑ کر انہیں متغیر کر دیا کرتے ہیں کہتے ہیں کہ اگر تم یہی حکم دیئے جاؤ تو قبول کر لینا اور اگر یہ حکم نہ دیئے جاؤ تو الگ تھلگ رہنا اور جس کا خراب کرنا اللہ کو منظور ہو تو آپ اس کے لئے خدائی ہدایت میں سے کسی چیز کے مختار نہیں ۔ اللہ تعالٰی کا ارادہ ان کے دلوں کو پاک کرنے کا نہیں ان کے لئے دنیا میں بھی بڑی ذلت اور رسوائی ہے اور آخرت میں بھی ان کے لئے بڑی سخت سزا ہے ۔
يايها الرسول لا يحزنك الذين يسارعون في الكفر من الذين قالوا امنا بافواههم و لم تؤمن قلوبهم و من الذين هادوا سمعون للكذب سمعون لقوم اخرين لم ياتوك يحرفون الكلم من بعد مواضعه يقولون ان اوتيتم هذا فخذوه و ان لم تؤتوه فاحذروا و من يرد الله فتنته فلن تملك له من الله شيا اولىك الذين لم يرد الله ان يطهر قلوبهم لهم في الدنيا خزي و لهم في الاخرة عذاب عظيم
O Messenger, let them not grieve you who hasten into disbelief of those who say, "We believe" with their mouths, but their hearts believe not, and from among the Jews. [They are] avid listeners to falsehood, listening to another people who have not come to you. They distort words beyond their [proper] usages, saying "If you are given this, take it; but if you are not given it, then beware." But he for whom Allah intends fitnah - never will you possess [power to do] for him a thing against Allah . Those are the ones for whom Allah does not intend to purify their hearts. For them in this world is disgrace, and for them in the Hereafter is a great punishment.
Aey rasool! Aap inn logon kay peechay na kurhiye jo kufur mein sabqat ker rahey hain khuwa woh inn ( munfiqon ) mein say hon jo zabani to eman ka dawa kertay hain lekin haqeeqatan unn kay dil ba eman nahi aur yahundiyon mein say kuch log aisay hain jo ghalat baaten sunnay kay aadi hain aur inn logon kay jasoos hain jo abb tak aap kay pass nahi aaye woh kalmaat kay asli moqay ko chor ker enhen mutaghayyur ker diya kertay hain kehtay hain kay agar tum yehi hukum diye jao to qabool ker lena aur agar yeh hukum na diye jao to alag thalag rehna aur jiss ka kharab kerna Allah ko manzoor ho to aap uss kay liye khudaee hidayat mein kissi cheez kay mukhtaar nahi. Allah Taalaa ka irada inn kay dilon ko pak kerney ka nahi inn kay liye duniya mein bhi bari zillat aur ruswaee hai aur aakhirat mein bhi inn kay liye bari sakht saza hai.
اے پیغمبر ! جو لوگ کفر میں بڑی تیزی دکھا رہے ہیں وہ تمہیں غم میں مبتلا نہ کریں ( ٣٢ ) یعنی ایک تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے زبان سے تو کہہ دیا ہے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں ، مگر ان کے دل ایمان نہیں لائے ، اور دوسرے وہ لوگ ہیں جنہوں نے ( کھلے بندوں ) یہودیت کا دین اختیار کرلیا ہے ۔ یہ لوگ جھوٹی باتیں کان لگا لگا کر سننے والے ہیں ( ٣٣ ) ( اور تمہاری باتیں ) ان لوگوں کی خاطر سنتے ہیں جو تمہارے پاس نہیں آئے ( ٣٤ ) جو ( اللہ کی کتاب کے ) الفاظ کا موقع محل طے ہوجانے کے بعد بھی ان میں تحریف کرتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ اگر تمہیں یہ حکم دیا جائے تو اس کو قبول کرلینا اور اگر یہ حکم نہ دیا جائے تو بچ کر رہنا ۔ اور جس شخص کو اللہ فتنے میں ڈالنے کا ارادہ کرلے تو اسے اللہ سے بچانے کے لیے تمہارا کوئی زور ہرگز نہیں چل سکتا ۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ ( ان کی نافرمانی کی وجہ سے ) اللہ نے ان کے دلوں کو پاک کرنے کا ارادہ نہیں کیا ۔ ( ٣٥ ) ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور انہی کے لیے آخرت میں زبردست عذاب ہے ۔
اے رسول! تمہیں غمگین نہ کریں وہ جو کفر پڑ دوڑتے ہیں ( ف۱۰۲ ) جو کچھ وہ اپنے منہ سے کہتے ہیں ہم ایمان لائے اور ان کے دل مسلمان نہیں ( ف۱۰۳ ) اور کچھ یہودی جھوٹ خوب سنتے ہیں ( ف۱۰٤ ) اور لوگوں کی خوب سنتے ہیں ( ف۱۰۵ ) جو تمہارے پاس حاضر نہ ہوئے اللہ کی باتوں کو ان کے ٹھکانوں کے بعد بدل دیتے ہیں ، کہتے ہیں یہ حکم تمہیں ملے تو مانو اور یہ نہ ملے تو بچو ( ف۱۰٦ ) اور جسے اللہ گمراہ کرنا چاہے تو ہرگز تو اللہ سے اس کا کچھ بنا نہ سکے گا ، وہ ہیں کہ اللہ نے ان کا دل پاک کرنا نہ چاہا ، انہیں دنیا میں رسوائی ہے ، اور انہیں آخرت میں بڑا عذاب ،
اے پیغمبر ! تمہارے لیے باعث رنج نہ ہوں وہ لوگ جو کفر کی راہ میں بڑی تیزگامی دکھا رہے ہیں ۔ 62 خواہ وہ ان میں سے ہوں جو منّہ سے کہتے ہیں ، ہم ایمان لائے مگر دل ان کے ایمان نہیں لائے ، یا ان میں سے ہوں جو یہودی بن گئے ہیں ، جن کا حال یہ ہے کہ جھوٹ کے لیے کان لگاتے ہیں ، 63 اور دوسرے لوگوں کی خاطر ، جو تمہارے پاس کبھی نہیں آئے ، سن گن لیتے پھرتے ہیں ، 64 کتاب اللہ کے الفاظ کو ان کا صحیح محل متعیّن ہونے کے باوجود اصل معنی سے پھیرتے ہیں ، 65 اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ اگر تمہیں یہ حکم دیا جائے تو مانو ، نہیں تو نہ مانو ۔ 66 جسے اللہ ہی نے فتنہ میں ڈالنے کا ارادہ کر لیا ہو اس کو اللہ کی گرفت سے بچانے کے لیے تم کچھ نہیں کر سکتے ، 67 یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پاک کرنا نہ چاہا ، 68 ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں سخت سزا ۔
اے رسول! وہ لوگ آپ کور نجیدہ خاطر نہ کریں جو کفر میں تیزی ( سے پیش قدمی ) کرتے ہیں ان میں ( ایک ) وہ ( منافق ) ہیں جو اپنے منہ سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے حالانکہ ان کے دل ایمان نہیں لائے ، اور ان میں ( دوسرے ) یہودی ہیں ، ( یہ ) جھوٹی باتیں بنانے کے لئے ( آپ کو ) خوب سنتے ہیں ( یہ حقیقت میں ) دوسرے لوگوں کے لئے ( جاسوسی کی خاطر ) سننے والے ہیں جو ( ابھی تک ) آپ کے پاس نہیں آئے ، ( یہ وہ لوگ ہیں ) جو ( اﷲ کے ) کلمات کوان کے مواقع ( مقرر ہونے ) کے بعد ( بھی ) بدل دیتے ہیں ( اور ) کہتے ہیں: اگر تمہیں یہ ( حکم جو ان کی پسند کا ہو ) دیا جائے تو اسے اختیار کرلو اور اگر تمہیں یہ ( حکم ) نہ دیا جائے تو ( اس سے ) احتراز کرو ، اور اﷲ جس شخص کی گمراہی کا ارادہ فرمالے تو تم اس کے لئے اﷲ ( کے حکم کو روکنے ) کا ہرگز کوئی اختیار نہیں رکھتے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو پاک کرنے کااﷲ نے ارادہ ( ہی ) نہیں فرمایا ۔ ان کے لئے دنیا میں ( کفر کی ) ذلّت ہے اور ان کے لئے آخرت میں بڑا عذاب ہے
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :62 یعنی جن کی ذہانتیں اور سرگرمیاں ساری کی ساری اس کوشش میں صرف ہو رہی ہیں کہ جاہلیت کی جو حالت پہلے سے چلی آرہی ہے وہی برقرار رہے اور اسلام کی یہ اصلاحی دعوت اس بگاڑ کو درست کرنے میں کامیاب نہ ہونے پائے ۔ یہ لوگ تمام اخلاقی بندشوں سے آزاد ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہر قسم کی رکیک سے رکیک چالیں چل رہے تھے ۔ جان بوجھ کر حق نگل رہے تھے ۔ نہایت بے باکی و جسارت کے ساتھ جھوٹ ، فریب ، دغا اور مکر کے ہتھیاروں سے اس پاک انسان کے کام کو شکست دینے کی کوشش کر رہے تھے جو کام بے غرضی کے ساتھ سراسر خیر خواہی کی بنا پر عام انسانوں کی اور خود ان کی فلاح و بہبود کے لیے شب و روز محنت کر رہا تھا ۔ ان کی ان حرکات کو دیکھ دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دل کڑھتا تھا ، اور یہ کڑھنا بالکل فطری امر تھا ۔ جب کسی پاکیزہ انسان کو پست اخلاق لوگوں سے سابقہ پیش آتا ہے اور وہ محض اپنی جہالت اور خود غرضی و تنگ نظری کی بنا پر اس کی خیر خواہانہ مساعی کو روکنے کے لیے گھٹیا درجہ کی چال بازیوں سے کام لیتے ہیں تو فطرۃً اس کا دل دکھتا ہی ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا منشا یہ نہیں ہے کہ ان حرکات پر جو فطری رنج آپ کو ہوتا ہے وہ نہ ہونا چاہیے ۔ بلکہ منشاء دراصل یہ ہے کہ اس سے آپ دل شکستہ نہ ہوں ، ہمت نہ ہاریں ، صبر کے ساتھ بندگان خدا کی اصلاح کے لیے کام کیے چلے جائیں ۔ رہے یہ لوگ ، تو جس قسم کے ذلیل اخلاق انہوں نے اپنے اندر پرورش کیے ہیں ان کی بنا پر یہ روش ان سے عین متوقع ہے ، کوئی چیز ان کی اس روش میں خلاف توقع نہیں ہے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :63 اس کے دو مطلب ہیں: ایک یہ کہ یہ لوگ چونکہ خواہشات کے بندے بن گئے ہیں اس لیےسچائی سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ جھوٹ ہی انہیں پسند آتا ہے اور اسی کو یہ جی لگا کر سنتے ہیں ، کیونکہ ان کے نفس کی پیاس اسی سے بجھتی ہے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی مجلسوں میں یہ جھوٹ کی غرض سے آکر بیٹھتے ہیں تاکہ یہاں جو کچھ دیکھیں اور جو باتیں سنیں ان کو الٹے معنی پہنا کر یا ان کے ساتھ اپنی طرف سے غلط باتوں کی آمیزش کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے لوگوں میں پھیلائیں ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :64 اس کے بھی دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ جاسوس بن کر آتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی مجلسوں میں اس لیے گشت لگاتے پھرتے ہیں کہ کوئی راز کی بات کان میں پڑے تو اسے آپ کے دشمنوں تک پہنچائیں ۔ دوسرے یہ کہ جھوٹے الزامات عائد کرنے اور افترا پردازیاں کرنے کے لیے مواد فراہم کرتے پھرتے ہیں تاکہ ان لوگوں میں بدگمانیاں اور غلط فہمیاں پھیلائیں جن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں سے براہ راست تعلقات پیدا کرنے کا موقع نہیں ملا ہے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :65 یعنی توراۃ کے جو احکام ان کی خواہشات کے مطابق نہیں ہیں ۔ ان کے اندر جان بوجھ کر رد و بدل کرتے ہیں اور الفاظ کے معنی بدل کر من مانے احکام ان سے نکالتے ہیں ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :66 یعنی جاہل عوام سے کہتے ہیں کہ جو حکم ہم بتا رہے ہیں ، اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہی حکم تمہیں بتائیں تو اسے قبول کرنا ورنہ رد کر دینا ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :67 “اللہ کی طرف سے کسی کے فتنہ میں ڈالے جانے کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے اندر اللہ تعالیٰ کسی قسم کے برے میلانات پرورش پاتے دیکھتا ہے اس کے سامنے پے در پے ایسے مواقع لاتا ہے جن میں اس کی سخت آزمائش ہوتی ہے ۔ اگر وہ شخص ابھی برائی کی طرف پوری طرح نہیں جھکا ہے تو ان آزمائشوں سے سنبھل جاتا ہے اور اس کے اندر بدی کا مقابلہ کرنے کے لیے نیکی کی جو قوتیں موجود ہوتی ہیں وہ ابھر آتی ہیں ۔ لیکن اگر وہ برائی کی طرف پوری طرح جھک چکا ہوتا ہے اور اس کی نیکی اس کی بدی سے اندر ہی شکست کھا چکی ہوتی ہے تو ہر ایسی آزمائش کے موقع پر وہ اور زیادہ بدی کے پھندے میں پھنستا چلا جاتا ہے ۔ یہی اللہ تعالیٰ کا وہ فتنہ ہے جس سے کسی بگڑتے ہوئے انسان کو بچا لینا اس کے کسی خیر خواہ کے بس میں نہیں ہوتا ۔ اور اس فتنہ میں صرف افراد ہی نہیں ڈالے جاتے بلکہ قومیں بھی ڈالی جاتی ہیں ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :68 اس لیے کہ انہوں نے خود پاک ہونا نہ چاہا ۔ جو خود پاکیزگی کا خواہش مند ہوتا ہے اور اس کے لیے کوشش کرتا ہے اسے پاکیزگی سے محروم کرنا اللہ کا دستور نہیں ہے ۔ اللہ پاک کرنا اسی کو نہیں چاہتا جو خود پاک ہونا نہ چاہے ۔
جھوٹ سننے اور کہنے کے عادی لوگ ان آیتوں میں ان لوگوں کی مذمت بیان ہو رہی ہے ، جو رائے ، قیاس اور خواہش نفسانی کو اللہ کی شریعت پر مقدم رکھتے ہیں ۔ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے نکل کر کفر کی طرف دوڑتے بھاگتے رہتے ہیں ۔ گویہ لوگ زبانی ایمان کے دعوے کریں لیکن ان کا دل ایمان سے خالی ہے ۔ منافقوں کی یہی حالت ہے کہ زبان کے کھرے ، دل کے کھوٹے اور یہی خصلت یہودیوں کی ہے جو اسلام اور اہل اسلام کے دشمن ہیں ۔ یہ جھوٹ کو مزے مزے سے سنتے ہیں اور دل کھول کر قبول کرتے ہیں ۔ لیکن سچ سے بھاگتے ہیں ، بلکہ نفرت کرتے ہیں اور جو لوگ آپ کی مجلس میں نہیں آتے یہ یہاں کی وہاں پہنچاتے ہیں ۔ ان کی طرف سے جاسوسی کرنے کو آتے ہیں ۔ پھر نالائقی یہ کرتے ہیں کہ یہ بات کو بدل ڈالا کرتے ہیں مطلب کچھ ہو ، لے کر کچھ اڑتے ہیں ، ارادے یہی ہیں کہ اگر تمہاری خواہش کے مطابق کہے تو مان لو ، طبیعت کے خلاف ہو تو دور رہو ۔ کہا کیا گیا ہے کہ یہ آیت ان یہودیوں کے بارے میں اتری تھی جن میں ایک کو دوسرے نے قتل کر دیا تھا ، اب کہنے لگے چلو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلیں اگر آپ دیت جرمانے کا حکم دیں تو منظور کرلیں گے اور اگر قصاص بدلے کو فرمائیں تو نہیں مانیں گے ۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ وہ ایک زنا کار کو لے کر آئے تھے ۔ ان کی کتاب توراۃ میں دراصل حکم تو یہ تھا کہ شادی شدہ زانی کو سنگسار کیا جائے ۔ لیکن انہوں نے اسے بدل ڈالا تھا اور سو کوڑے مار کر ، منہ کالا کر کے ، الٹا گدھا سوار کر کے رسوائی کر کے چھوڑ دیتے تھے ۔ جب ہجرت کے بعد ان میں سے کوئی زنا کاری کے جرم میں پکڑا گیا تو یہ کہنے لگے آؤ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلیں اور آپ سے اس کے بارے میں سوال کریں ، اگر آپ بھی وہی فرمائیں جو ہم کرتے ہیں تو اسے قبول کریں گے اور اللہ کے ہاں بھی یہ ہماری سند ہو جائے گی اور اگر رجم کو فرمائیں گے تو نہیں مانیں گے ۔ چنانچہ یہ آئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا کہ ہمارے ایک مرد عورت نے بدکاری کی ہے ، ان کے بارے میں آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا تمہارے ہاں توراۃ میں کیا حکم ہے؟ انہوں نے کہا ہم تو اسے رسوا کرتے ہیں اور کوڑے مار کر چھوڑ دیتے ہیں ۔ یہ سن کر حضرت عبداللہ بن سلام نے فرمایا ، جھوٹ کہتے ہیں ، تورات میں سنگسار کا حکم ہے ۔ لاؤ تورات پیش کرو ، انہوں نے تورات کھولی لیکن آیت رجم پر ہاتھ رکھ کر آگے پیچھے کی سب عبارت پڑھ سنائی ۔ حضرت عبداللہ سمجھ گئے اور آپ نے فرمایا اپنے ہاتھ کو تو ہٹا ، ہاتھ ہٹایا تو سنگسار کرنے کی آیت موجود تھی ، اب تو انہیں بھی اقرار کرنا پڑا ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے زانیوں کو سنگسار کر دیا گیا ، حضرت عبداللہ فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ وہ زانی اس عورت کو پتھروں سے بچانے کیلئے اس کے آڑے آ جاتا تھا ( بخاری مسلم ) اور سند سے مروی ہے کہ یہودیوں نے کہا ہم تو اسے کالا منہ کر کے کچھ مار پیٹ کر چھوڑ دیتے ہیں ۔ اور آیت کے ظاہر ہونے کے بعد انہوں نے کہا ، ہے تو یہی حکم لیکن ہم نے تو اسے چھپایا تھا ، جو پڑھ رہا تھا اسی نے رجم کی آیت پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا ، جب اس کا ہاتھ اٹھوایا تو آیت پر اچٹتی ہوئی نظر پڑ گئی ۔ ان دونوں کے رجم کرنے والوں میں حضرت عبداللہ بن عمر بھی موجود تھے ، ایک اور روایت میں ہے کہ ان لوگوں نے اپنے آدمی بھیج کر آپ کو بلوایا تھا ، اپنے مدرسے میں گدی پر آپ کو بٹھایا تھا اور جو اب تورات آپ کے سامنے پڑھ رہا تھا ، وہ ان کا بہت بڑا عالم تھا ۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے ان سے قسم دے کر پوچھا تھا کہ تم تورات میں شادی شدہ زانی کی کیا سزا پاتے ہو؟ تو انہوں نے یہی جواب دیا تھا لیکن ایک نوجوان کچھ نہ بولا ، خاموش ہی کھڑا رہا ، آپ نے اس کی طرف دیکھ کر خاص اسے دوبارہ قسم دی اور جواب مانگا ، اس نے کہا جب آپ ایسی قسمیں دے رہے ہیں تو میں جھوٹ نہ بولوں گا ، واقعی تورات میں ان لوگوں کی سزا سنگساری ہے ۔ آپ نے فرمایا اچھا پھر یہ بھی سچ سچ بتاؤ کہ پہلے پہل اس رجم کو تم نے کیوں اور کس پر سے اڑایا ؟ اس نے کہا حضرت ہمارے کسی بادشاہ کے رشتے دار ، بڑے آدمی نے زنا کاری کی ۔ اس کی عظمت اور بادشاہ کی ہیبت کے مارے اسے رجم کرو ورنہ اسے بھی چھوڑو ۔ آخر ہم نے مل ملا کر یہ طے کیا کہ بجائے رجم کے اس قسم کی کوئی سزا مقرر کر دی جائے ۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے توراۃ کے حکم کو جاری کیا اور اسی بارے میں آیت ( انا انزلنا ) الخ ، اتری ۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان احکام کے جاری کرنے والوں میں سے ہیں ( احمد ابو داؤد ) مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص کو یہودی کالا منہ کئے لے جا رہے تھے اور اسے کوڑے بھی مار رکھے تھے ، تو آپ نے بلا کر ان سے ماجرا پوچھا انہوں نے کہا کہ اس نے زنا کیا ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ کیا زانی کی یہی سزا تمہارے ہاں ہے؟ کہا ہاں ۔ آپ نے ان کے ایک عالم کو بلا کر اسے سخت قسم دے کر پوچھا تو اس نے کہا کہ اگر آپ ایسی قسم نہ دیتے تو میں ہرگز نہ بتاتا ، بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں دراصل زنا کاری کی سزا سنگساری ہے لیکن چونکہ امیر امراء اور شرفاء لوگوں میں یہ بدکاری بڑھ گئی تھی اور انہیں اس قسم کی سزا دینی ہم نے مناسب نہ جانی ، اس لئے انہیں تو چھوڑ دیتے تھے اور اللہ کا حکم مارا نہ جائے اس لئے غریب غرباء ، کم حیثیت لوگوں کو رجم کرا دیتے تھے پھر ہم نے رائے زنی کی کہ آؤ کوئی ایسی سزا تجویز کرو کہ شریف و غیر شریف ، امیر غریب پر سب پر یکساں جاری ہو سکے چنانچہ ہمارا سب کا اس بات پر اتفاق ہوا کہ منہ کالے کر دیں اور کوڑے لگائیں ۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ان دونوں کو سنگسار کرو چنانچہ انہیں رجم کر دیا گیا اور آپ نے فرمایا اے اللہ میں پہلا وہ شخص ہوں جس نے تیرے ایک مردہ حکم کو زندہ کیا ۔ اس پر آیت ( يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ لَا يَحْزُنْكَ الَّذِيْنَ يُسَارِعُوْنَ فِي الْكُفْرِ مِنَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُهُمْ ) 5 ۔ المائدہ:41 ) سے ( ۭوَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ ) 5 ۔ المائدہ:44 ) تک نازل ہوئی ۔ انہی یہودیوں کے بارے میں ۔ اور آیت میں ہے کہ اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والے ظالم ہیں اور آیت میں ہے ( فاسق ہیں ( مسلم وغیرہ اور روایت میں ہے واقعہ زنا فدک میں ہوا تھا اور وہاں کے یہودیوں نے مدینے شریف کے یہودیوں کو لکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پچھوایا تھا جو عالم ان کا آیا اس کا نام ابن صوریا تھا ، یہ آنکھ کا بھینگا تھا ، اور اس کے ساتھ دوسرا عالم بھی تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں قسم دی تو دونوں نے قول دیا تھا ، آپ نے انہیں کہا تھا ، تمہیں اس اللہ کی قسم جس نے بنو اسرائیل کیلئے پانی میں راہ کر دی تھی اور ابر کا سایہ ان پر کیا تھا اور فرعونیوں سے بچا لیا تھا اور من و سلویٰ اتارا تھا ۔ اس قسم سے وہ چونک گئے اور آپس میں کہنے لگے بڑی زبردست قسم ہے ، اس موقع پر جھوٹ بولنا ٹھیک نہیں تو کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم تورات میں یہ ہے کہ بری نظر سے دیکھنا بھی مثل زنا کے ہے اور گلے لگانا بھی اور بوسہ لینا بھی ، پھر اگر چار گواہ اس بات کے ہوں کہ انہوں نے دخول خروج دیکھا ہے جیسا کہ سلائی سرمہ دانی میں جاتی آتی ہے تو رجم واجب ہو جاتا ہے ۔ آپ نے فرمایا یہی مسئلہ ہے پھر حکم دیا اور انہیں رجم کرا دیا گیا ۔ اس پر آیت ( فَاِنْ جَاۗءُوْكَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْهُمْ ۚ وَاِنْ تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَنْ يَّضُرُّوْكَ شَـيْـــًٔـا ۭوَاِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ ۭاِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ ) 5 ۔ المائدہ:42 ) ، اتری ( ابو داؤد وغیرہ ) ایک روایت میں جو دو عالم سامنے لائے گئے تھے ، یہ دونوں صوریا کے لڑکے تھے ۔ ترک حد کا سبب اس روایت میں یہودیوں کی طرف سے یہ بیان ہوا ہے کہ جب ہم میں سلطنت نہ رہی تو ہم نے اپنے آدمیوں کی جان لینی مناسب نہ سمجھی پھر آپ نے گواہوں کو بلوا کر گواہی لی جنہوں نے بیان دیا کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے انہیں اس برائی میں دیکھا ہے ، جس طرح سرمہ دانی میں سلائی ہوتی ہے ۔ دراصل توراۃ وغیرہ کا منگوانا ان کے عالموں کو بلوانا ، یہ سب انہیں الزام دینے کیلئے نہ تھا ، نہ اس لئے تھا کہ وہ اسی کے ماننے کے مکلف ہیں ، نہیں بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان واجب العمل ہے ، اس سے مقصد ایک تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کا اظہار تھا کہ اللہ کی وحی سے آپ نے یہ معلوم کر لیا کہ ان کی تورات میں بھی حکم رجم موجود ہے اور یہی نکلا ، دوسرے ان کی رسوائی کہ انہیں پہلے کے انکار کے بعد اقرار کرنا پڑا اور دنیا پر ظاہر ہو گیا کہ یہ لوگ فرمان الٰہی کو چھپا لینے والے اور اپنی رائے قیاس پر عمل کرنے والے ہیں اور اس لئے بھی کہ یہ لوگ سچے دل سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس لئے نہیں آئے تھے کہ آپ کی فرماں برداری کریں بلکہ محض اس لئے آئے تھے کہ اگر آپ کو بھی اپنے اجماع کے موافق پائیں گے تو اتحاد کرلیں گے ورنہ ہرگز قبول نہ کریں گے ، اسی لئے فرمان ہے کہ جنہیں اللہ گمراہ کر دے تو ان کو کسی قسم سے راہ راست آنے کا اختیار نہیں ہے ان کے گندے دلوں کو پاک کرنے کا اللہ کا ارادہ نہیں ، یہ دنیا میں ذلیل و خواہ ہوں گے اور آخرت میں داخل نار ہوں گے ۔ یہ باطل کو کان لگا کر مزے لے کر سننے والے ہیں اور رشوت جیسی حرام چیز کو دن دہاڑے کھانے والے ہیں ، بھلا ان کے نجس دل کیسے پاک ہوں گے؟ اور ان کی دعائیں اللہ کیسے سنے گا ؟ اگر یہ تیرے پاس آئیں تو تجھے اختیار ہے کہ ان کے فیصلے کر یا نہ کر اگر تو ان سے منہ پھیر لے جب بھی یہ تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ ان کا قصد اتباع حق نہیں بلکہ اپنی خواہشوں کی پیروی ہے ۔ بعض بزرگ کہتے ہیں یہ آیت منسوخ ہے اس آیت سے ( وَاَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاۗءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ اَنْ يَّفْتِنُوْكَ عَنْۢ بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَيْكَ ) 5 ۔ المائدہ:49 ) پھر فرمایا اگر تو ان میں فیصلے کرے تو عدل و انصاف کے ساتھ کر ، گویہ خود ظالم ہیں اور عدل سے ہٹے ہوئے ہیں اور مان لو کہ اللہ تعالیٰ عادل لوگوں سے محبت رکھتا ہے ۔ پھر انی کی خباثت بدباطنی اور سرکشی بیان ہو رہی ہے کہ ایک طرف تو اس کتاب اللہ کو چھوڑ رکھا ہے ، جس کی تابعداری اور حقانیت کے خود قائل ہیں ، دوسری طرف اس جانب جھک رہے ہیں ، جسے نہیں مانتے اور جسے جھوٹ مشہور کر رکھا ہے ، پھر اس میں بھی نیت بد ہے کہ اگر وہاں سے ہماری خواہش ہے مطابق حکم ملے گا تو لے لیں گے ، ورنہ چھوڑ چھاڑ دیں گے ۔ یہ فرمایا کہ یہ کیسے تیری فرماں برداری کریں گے؟ انہوں نے تو تورات کو بھی چھوڑ رکھا ہے ، جس میں اللہ کے احکامات ہونے کا اقرار نہیں بھی ہے لیکن پھر بھی بے ایمانی کر کے اس سے پھر جاتے ہیں ۔ پھر اس تورات کی مدحت و تعریف بیان فرمائی جو اس نے اپنے برگزیدہ رسول حضرت موسیٰ بن عمران پر نازل فرمائی تھی کہ اس میں ہدایت و نورانیت تھی ۔ انبیاء جو اللہ کے زیر فرمان تھے ، اسی پر فیصلے کرتے رہے ، یہودیوں میں اسی کے احکام جاری کرتے رہے ، تبدیلی اور تحریف سے بچے رہے ، ربانی یعنی عابد ، علماء اور احبار یعنی ذی علم لوگ بھی اسی روش پر رہے ۔ کیونکہ انہیں یہ پاک کتاب سونپی گئی تھی اور اس کے اظہار کا اور اس پر عمل کرنے کا انہیں حکم دیا گیا تھا اور وہ اس پر گواہ و شاہد تھے ۔ اب تمہیں چاہئے کہ بجز اللہ کے کسی اور سے نہ ڈرو ۔ ہاں قدم قدم اور لمحہ لمحہ پر خوف رکھو اور میری آیتوں کو تھوڑے تھوڑے مول فروخت نہ کیا کرو ۔ جان لو کہ اللہ کی وحی کا حکم جو نہ مانے وہ کافر ہے ۔ اس میں دو قول ہیں جو ابھی بیان ہوں گے انشاء اللہ ۔ ان آیتوں کا ایک شان نزول بھی سن لیجئے ۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ ایسے لوگوں کو اس آیت میں تو کافر کہا دوسری میں ظالم تیسری میں فاسق ۔ بات یہ ہے کہ یہودیوں کے دو گروہ تھے ، ایک غالب تھا ، دوسرا مغلوب ۔ ان کی آپس میں اس بات پر صلح ہوئی تھی کہ غالب ، ذی عزت فرقے کا کوئی شخص اگر مغلوب ذلیل فرقے کے کسی شخص کو قتل کر ڈالے تو پچاس وسق دیت دے اور ذلیل لوگوں میں سے کوئی عزیز کو قتل کر دے تو ایک سو وسق دیت دے ۔ یہی رواج ان میں چلا آ رہا تھا ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں آئے ، اس کے بعد ایک واقعہ ایسا ہوا کہ ان نیچے والے یہودیوں میں سے کسی نے کسی اونچے یہودی کو مار ڈالا ۔ یہاں سے آدمی گیا کہ لاؤ سو وسق دلاؤ دلواؤ ، وہاں سے جواب ملا کہ یہ صریح ناانصافی ہے کہ ہم دونوں ایک ہی قبیلے کے ، ایک ہی دین کے ، ایک ہی نسب کے ، ایک ہی شہر کے پھر ہماری دیت کم اور تمہارا زیادہ؟ ہم چونکہ اب تک تمہارے دبے ہوئے تھے ، اس ناانصافی کو بادل ناخواستہ برداشت کرتے رہے لیکن اب جب کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسے عادل بادشاہ یہاں آ گئے ہیں ہم تمہیں اتنی ہی دیت دیں گے جتنی تم ہمیں دو ۔ اس بات پر ادھر ادھر سے آستینیں چڑھ گئیں ، پھر آپس میں یہ بات طے ہوئی کہ اچھا اس جھگڑے کا فیصلہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کریں گے ۔ لیکن اونچی قوم کے لوگوں نے آپس میں جب مشورہ کیا تو ان کے سمجھداروں نے کہا دیکھو اس سے ہاتھ دھو رکھو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوئی ناانصافی پہ مبنی حکم کریں ۔ یہ تو صریح زیادتی ہے کہ ہم آدھی دیں اور پوری لیں اور فی الواقع ان لوگوں نے دب کر اسے منظور کیا تھا جو تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم اور ثالث مقرر کیا ہے تو یقینا تمہارا یہ حق مارا جائے گا کسی نے رائے دی کہ اچھا یوں کرو ، کسی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چپکے سے بھیج دو ، وہ معلوم کر آئے کہ آپ فیصلہ کیا کریں گے؟ اگر ہماری حمایت میں ہوا تب تو بہت اچھا چلو اور ان سے حق حاصل کر آؤ اور اگر خلاف ہوا تو پھر الگ تھلگ ہی اچھے ہیں ۔ چنانچہ مدینہ کے چند منافقوں کو انہوں نے جاسوس بنا کر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا ۔ اس سے پہلے کہ وہ یہاں پہنچیں اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں اتار کر اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دونوں فرقوں کے بد ارادوں سے مطلوع فرما دیا ( ابو داؤد ) ایک روایت میں ہے کہ یہ دونوں قبیلے بنو نضیر اور بنو قریظہ تھے ۔ بنو نضیر کی پوری دیت تھی اور بنو قریظہ کی آدھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کی دیت یکساں دینے کا فیصلہ صادر فرمایا ۔ ایک روایت ہے کہ قرظی اگر کسی نضری کو قتل کر ڈالے تو اس سے قصاص لیتے تھے لیکن اس کے خلاف میں قصاص تھا ہی نہیں سو وسق دیت تھی ۔ یہ بہت ممکن ہے کہ ادھر یہ واقعہ ہوا ، ادھر زنا کا قصہ واقع ہوا ، جس کا تفصیلی بیان گزر چکا ہے ان دونوں پر یہ آیتیں نازل ہوئیں واللہ اعلم ۔ ہاں ایک بات اور ہے جس سے اس دوسری شان نزول کی تقویت ہوتی ہے وہ یہ کہ اس کے بعد ہی فرمایا ہے آیت ( وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيْهَآ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ ۙوَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ ۙ وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ ۭ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهٖ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهٗ ۭ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ) 5 ۔ المائدہ:45 ) یعنی ہم نے یہودیوں پر تورات میں یہ حکم فرض کر دیا تھا کہ جان کے عوض جان ، آنکھ کے عوض آنکھ ۔ واللہ اعلم ۔ پھر انہیں کافی کہا گیا جو اللہ کی شریعت اور اس کی اتاری ہوئی وحی کے مطابق فیصلے اور حکم نہ کریں گو یہ آیت شان نزول کے اعتبار سے بقول مفسرین اہل کتاب کے بارے میں ہے لیکن حکم کے اعتبار سے ہر شخص کو شامل ہے ۔ بنو اسرائیل کے بارے میں اتری اور اس امت کا بھی یہی حکم ہے ۔ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ رشوت حرام ہے اور رشوت ستانی کے بعد کسی شرعی مسئلہ کے خلاف فتویٰ دینا کفر ہے ۔ سدی فرماتے ہیں جس نے وحی الٰہی کے خلاف عمداً فتویٰ دیا جاننے کے باوجود اس کے خلاف کیا وہ کافر ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں جس نے اللہ کے فرمان سے انکار کیا ، اس کا یہ حکم ہے اور جس نے انکار تو نہ کیا لیکن اس کے مطابق نہ کہا وہ ظالم اور فاسق ہے ۔ خواہ اہل کتاب ہو خواہ کوئی اور شعبی فرماتے ہیں مسلمانوں میں جس نے کتاب کے خلاف فتویٰ دیا وہ کافر ہے اور یہودیوں میں دیا ہو تو ظالم ہے اور نصرانیوں میں دیا ہو تو فاسق ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں اس کا کفر اس آیت کے ساتھ ہے ۔ طاؤس فرماتے ہیں اس کا کفر اس کے کفر جیسا نہیں جو سرے سے اللہ کے رسول قرآن اور فرشتوں کا منکر ہو ۔ عطا فرماتے ہیں کتم ( چھپانا ) کفر سے کم ہے اسی طرح ظلم و فسق کے بھی ادنیٰ اعلیٰ درجے ہیں ۔ اس کفر سے وہ ملت اسلام سے پھر جانے والا جاتا ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں اس سے مراد وہ کفر نہیں جس کی طرف تم جا رہے ہو ۔