Surah

Information

Surah # 5 | Verses: 120 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 112 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
سَمّٰعُوۡنَ لِلۡكَذِبِ اَ كّٰلُوۡنَ لِلسُّحۡتِ‌ؕ فَاِنۡ جَآءُوۡكَ فَاحۡكُمۡ بَيۡنَهُمۡ اَوۡ اَعۡرِضۡ عَنۡهُمۡ‌ ۚ وَاِنۡ تُعۡرِضۡ عَنۡهُمۡ فَلَنۡ يَّضُرُّوۡكَ شَيۡــًٔـا‌ ؕ وَاِنۡ حَكَمۡتَ فَاحۡكُمۡ بَيۡنَهُمۡ بِالۡقِسۡطِ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُقۡسِطِيۡنَ‏ ﴿42﴾
یہ کان لگا لگاکر جھوٹ کے سننے والے اور جی بھر بھر کر حرام کے کھانے والے ہیں اگر یہ تمہارے پاس آئیں تو تمہیں اختیار ہے خواہ ان کے آپس کا فیصلہ کرو خواہ ان کو ٹال دو اگر تم ان سے منہ بھی پھیرو گے تو بھی یہ تم کو ہرگز کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتے اور اگر تم فیصلہ کرو تو ان میں عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو ، یقیناً عدل والوں کے ساتھ اللہ محبت رکھتا ہے ۔
سمعون للكذب اكلون للسحت فان جاءوك فاحكم بينهم او اعرض عنهم و ان تعرض عنهم فلن يضروك شيا و ان حكمت فاحكم بينهم بالقسط ان الله يحب المقسطين
[They are] avid listeners to falsehood, devourers of [what is] unlawful. So if they come to you, [O Muhammad], judge between them or turn away from them. And if you turn away from them - never will they harm you at all. And if you judge, judge between them with justice. Indeed, Allah loves those who act justly.
Yeh kaan laga laga ker jhoot kay sunnay walay aur ji bhar bhar ker haram kay khaney walay hain agar yeh tumharay pass aayen to tumhen ikhtiyar hai khuwa inn kay aapas ka faisla kero khuwa inn ko taal do agar tum inn say mun bhi phero gay to bhi yeh tum ko hergiz zarar nahi phoncha saktay aur agar tum faisla kero to inn mein adal-o-insaf kay sath faisla kero yaqeenan adal walon kay sath Allah mohabbat rakhta hai.
یہ کان لگا لگا کر جھوٹی باتیں سننے والے ، جی بھر بھر کر حرام کھانے والے ہیں ۔ ( ٣٦ ) چنانچہ اگر یہ تمہارے پاس آئیں تو چاہے ان کے د رمیان فیصلہ کردو ، اور چاہے ان سے منہ موڑ لو ( ٣٧ ) اگر تم ان سے منہ موڑ لو گے تو یہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے ، اور اگر فیصلہ کرنا ہو تو انصاف سے فیصلہ کرو ۔ یقینا اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔
بڑے جھوٹ سننے والے بڑے حرام خور ( ف۱۰۷ ) تو اگر تمہارے حضور حاضر ہوں ( ف۱۰۸ ) تو ان میں فیصلہ فرماؤ یا ان سے منہ پھیرلو ( ف۱۰۹ ) اور اگر تم ان سے منہ پھیرلو گے تو وہ تمہارا کچھ نہ بگاڑیں گے ( ف۱۱۰ ) اور اگر ان میں فیصلہ فرماؤ تو انصاف سے فیصلہ کرو ، بیشک انصاف والے اللہ کو پسند ہیں ،
یہ جھوٹ سننے والے اور حرام کے مال کھانے والے ہیں ، 69 لہٰذا اگر یہ تمہارے پاس ﴿اپنے مقدمات لے کر﴾ آئیں تو تمہیں اختیار دیا جاتا ہے کہ چاہو ان کا فیصلہ کرو ورنہ انکار کر دو ۔ انکار کر دو تو یہ تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے ، اور فیصلہ کرو تو پھر ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ 70
۔ ( یہ لوگ ) جھوٹی باتیں بنانے کے لئے جاسوسی کرنے والے ہیں ( مزید یہ کہ ) حرام مال خوب کھانے والے ہیں ۔ سو اگر ( یہ لوگ ) آپ کے پاس ( کوئی نزاعی معاملہ لے کر ) آئیں تو آپ ( کو اختیار ہے کہ ) ان کے درمیان فیصلہ فرمادیں یا ان سے گریز فرما لیں ، اور اگر آپ ان سے گریز ( بھی ) فرمالیں تو ( تب بھی ) یہ آپ کو ہرگز کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتے ، اور اگر آپ فیصلہ فرمائیں تو ان کے درمیان ( بھی ) عدل سے ( ہی ) فیصلہ فرمائیں ( یعنی ان کی دشمنی عادلانہ فیصلے میں رکاوٹ نہ بنے ) ، بیشک اﷲ عدل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :69 یہاں خاص طور پر ان کے مفتیوں اور قاضیوں کی طرف اشارہ ہے جو جھوٹی شہادتیں لے کر اور جھوٹی رودادیں سن کر ان لوگوں کے حق میں انصاف کے خلاف فیصلے کیا کرتے تھے جن سے انہیں رشوت پہنچ جاتی تھی یا جن کے ساتھ ان کے ناجائز مفاد وابستہ ہوتے تھے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :70 یہودی اس وقت تک اسلامی حکومت کی باقاعدہ رعایا نہیں بنے تھے بلکہ اسلامی حکوت کے ساتھ ان کے تعلقات معاہدات پر مبنی تھے ۔ ان معاہدات کی رو سے یہودیوں کو اپنے اندرونی معاملات میں آزادی حاصل تھی اور ان کے مقدمات کے فیصلے انہی کے قوانین کے مطابق ان کے اپنے جج کرتے تھے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یا آپ کے مقرر کردہ قاضیوں کے پاس اپنے مقدمات لانے کے لیے وہ ازروئے قانون مجبور نہ تھے ۔ لیکن یہ لوگ جن معاملات میں خود اپنے مذہبی قانون کے مطابق فیصلہ کرنا نہ چاہتے تھے ان کا فیصلہ کرانے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس امید پر آجاتے تھے کہ شاید آپ کی شریعت میں ان کے لیے کوئی دوسرا حکم ہو اور اس طرح وہ اپنے مذہبی قانون کی پیروی سے بچ جائیں ۔ یہاں خاص طور پر جس مقدمہ کی طرف اشارہ ہے وہ یہ تھا کہ خیبر کے معزز یہودی خاندانوں میں سے ایک عورت اور ایک مرد کے درمیان ناجائز تعلق پایا گیا ۔ توراۃ کی رو سے ان کی سزا رجم تھی ، یعنی یہ کہ دونوں کو سنگسار کیا جائے ( استثناء – باب ۲۲ – آیت ۲۳ - ۲٤ ) لیکن یہودی اس سزا کو نافذ کرنا نہیں چاہتے تھے ۔ اس لیے انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس مقدمہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پنچ بنایا جائے ۔ اگر وہ رجم کے سوا کوئی اور حکم دیں تو قبول کر لیا جائے اور رجم ہی کا حکم دیں تو نہ قبول کیا جائے ۔ چنانچہ مقدمہ آپ کے سامنے لایا گیا ۔ آپ نے رجم کا حکم دیا ۔ انہوں نے اس حکم کو ماننے سے انکار کیا ۔ اس پر آپ نے پوچھا تمہارے مذہب میں اس کی کیا سزا ہے؟ انہوں نے کہا کوڑے مارنا اور منہ کالا کر کے گدھے پر سوار کرنا ۔ آپ نے ان کے علماء کو قسم دے کر ان سے پوچھا ، کیا توراۃ میں شادی شدہ زانی اور زانیہ کی یہی سزا ہے؟ انہوں نے پھر وہ جھوٹا جواب دیا ۔ لیکن ان میں سے ایک شخص ابن صوریا ، جو خود یہودیوں کے بیان کے مطابق اپنے وقت میں توارۃ کا سب سے بڑا عالم تھا ، خاموش رہا ۔ آپ نے اس سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں تجھے اس خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے تم لوگوں کو فرعون سے بچایا اور طور پر تمہیں شریعت عطا کی ، کیا واقعی توراۃ میں زنا کی یہی سزا لکھی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ”اگر آپ مجھے ایسی بھاری قسم نہ دیتے تو میں نہ بتاتا ۔ واقعہ یہ ہے کہ زنا کی سزا تو رجم ہی ہے مگر ہمارے ہاں جب زنا کی کثرت ہوئی تو ہمارے حکام نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ بڑے لوگ زنا کرتے تو انہیں چھوڑ دیا جاتا اور چھوٹے لوگوں سے یہی حرکت سرزد ہوتی تو انہیں رجم کر دیا جاتا ۔ پھر جب اس سے عوام میں ناراضی پیدا ہونے لگی تو ہم نے توراۃ کے قانون کو بدل کر یہ قاعدہ بنا لیا کہ زانی اور زانیہ کو کوڑے لگائے جائیں اور انہیں منہ کالا کر کے گدھے پر الٹے منہ سوار کیا جائے ۔ “ اس کے بعد یہودیوں کے لیے کچھ بولنے کی گنجائش نہ رہی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے زانی اور زانیہ کو سنگسار کر دیا گیا ۔