Surah

Information

Surah # 5 | Verses: 120 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 112 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
وَكَيۡفَ يُحَكِّمُوۡنَكَ وَعِنۡدَهُمُ التَّوۡرٰٮةُ فِيۡهَا حُكۡمُ اللّٰهِ ثُمَّ يَتَوَلَّوۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰ لِكَ‌ ؕ وَمَاۤ اُولٰٓٮِٕكَ بِالۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿43﴾
۔ ( تعجب کی بات ہے کہ ) وہ کیسے اپنے پاس تورات ہوتے ہوئے جس میں احکام الٰہی ہیں تم کو منصف بناتے ہیں پھر اس کے بعد بھی پھر جاتے ہیں ، دراصل یہ ایمان و یقین والے ہیں ہی نہیں ۔
و كيف يحكمونك و عندهم التورىة فيها حكم الله ثم يتولون من بعد ذلك و ما اولىك بالمؤمنين
But how is it that they come to you for judgement while they have the Torah, in which is the judgement of Allah ? Then they turn away, [even] after that; but those are not [in fact] believers.
( tajjub ki baat hai kay ) woh kaisay apney pass toraat hotay huye jiss mein ehkaam-e-elahee hain tum ko munsif banatay hain phir iss kay baad bhi phir jatay hain dar asal yeh eman-o-yaqeen walay hain hi nahi.
اور یہ کیسے تم سے فیصلہ لینا چاہتے ہیں جبکہ ان کے پاس تورات موجود ہے جس میں اللہ کا فیصلہ درج ہے؟ پھر اس کے بعد ( فیصلے سے ) منہ بھی پھیر لیتے ہیں ( ٣٨ ) دراصل یہ ایمان والے نہیں ہیں ۔
اور وہ تم سے کیونکر فیصلہ چاہیں گے ، حالانکہ ان کے پاس توریت ہے جس میں اللہ کا حکم موجود ہے ( ف۱۱۱ ) بایں ہمہ اسی سے منہ پھیرتے ہیں ( ف۱۱۲ ) اور وہ ایمان لانے والے نہیں ،
اور یہ تمہیں کیسے حَکم بناتے ہیں جبکہ ان کے پاس تورات موجود ہے جس میں اللہ کا حکم لکھا ہوا ہے اور پھر یہ اس سے منہ موڑ رہے ہیں؟ 71 اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ ایمان ہی نہیں رکھتے ۔ ؏٦
اور یہ لوگ آپ کو کیوں کر حاکم مان سکتے ہیں در آنحالیکہ ان کے پاس تورات ( موجود ) ہے جس میں اللہ کا حکم ( مذکور ) ہے ، پھر یہ اس کے بعد ( بھی حق سے ) رُوگردانی کرتے ہیں ، اور وہ لوگ ( بالکل ) ایمان لانے والے نہیں ہیں
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :71 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی بددیانتی کو بالکل بے نقاب کر دیا ہے ۔ یہ”مذہبی لوگ“ جنہوں نے تمام عرب پر اپنی دینداری اور اپنے علم کتاب کا سکہ جما رکھا تھا ، ان کی حالت یہ تھی کہ جس کتاب کو خود کتاب اللہ مانتے تھے اور جس پر ایمان رکھنے کے مدعی تھے اس کے حکم کو چھوڑ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا مقدمہ لائے تھے جن کے پیغمبر ہونے سے ان کو بشدت انکار تھا ۔ اس سے یہ راز بالکل فاش ہوگیا کہ یہ کسی چیز پر بھی صداقت کے ساتھ ایمان نہیں رکھتے ، دراصل ان کا ایمان اپنے نفس اور اس کی خواہشات پر ہے ، جسے کتاب اللہ مانتے ہیں اس سے صرف اس لیے منہ موڑتے ہیں کہ اس کا حکم ان کے نفس کو ناگوار ہے ، اور جسے معاذاللہ جھوٹا مدعی نبوت کہتے ہیں اس کے پاس صرف اس امید پر جاتے ہیں کہ شاید وہاں سے کوئی ایسا فیصلہ حاصل ہو جائے جو ان کے منشاء کے مطابق ہو ۔