Surah

Information

Surah # 5 | Verses: 120 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 112 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
وَكَتَبۡنَا عَلَيۡهِمۡ فِيۡهَاۤ اَنَّ النَّفۡسَ بِالنَّفۡسِۙ وَالۡعَيۡنَ بِالۡعَيۡنِ وَالۡاَنۡفَ بِالۡاَنۡفِ وَالۡاُذُنَ بِالۡاُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّۙ وَالۡجُرُوۡحَ قِصَاصٌ‌ؕ فَمَنۡ تَصَدَّقَ بِهٖ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهٗ ‌ؕ وَمَنۡ لَّمۡ يَحۡكُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ‏ ﴿45﴾
اور ہم نے یہودیوں کے ذمہ تورات میں یہ بات مقرر کر دی تھی کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے پھر جو شخص اس کو معاف کر دے تو وہ اس کے لئے کفارہ ہے اور جو لوگ اللہ کے نازل کئے ہوئے کے مطابق حکم نہ کریں ، و ہی لوگ ظالم ہیں ۔
و كتبنا عليهم فيها ان النفس بالنفس و العين بالعين و الانف بالانف و الاذن بالاذن و السن بالسن و الجروح قصاص فمن تصدق به فهو كفارة له و من لم يحكم بما انزل الله فاولىك هم الظلمون
And We ordained for them therein a life for a life, an eye for an eye, a nose for a nose, an ear for an ear, a tooth for a tooth, and for wounds is legal retribution. But whoever gives [up his right as] charity, it is an expiation for him. And whoever does not judge by what Allah has revealed - then it is those who are the wrongdoers.
Aur hum ney yahudiyon kay zimmay toraat mein yeh baat muqarrar ker di thi kay jaan kay badlay jaan aur aankh kay badlay aankh aur naak kay badlay naak aur kaan kay badlay kaan aur daant kay badlay daant aur khaas zakhmon ka bhi badla hai phri jo shaks iss ko moaf ker dey to woh iss kay liye kuffara hai aur jo log Allah kay nazil kiye huye kay mutabiq hukum na keren wohi log zalim hain.
اور ہم نے اس ( تورات میں ) ان کے لیے یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان ، آنکھ کے بدلے آنکھ ، ناک کے بدلے ناک ، کان کے بدلے کان ، دانت کے بدلے دانت ۔ اور زخموں کا بھی ( اسی طرح ) بدلہ لیا جائے ۔ ہاں جو شخص اس ( بدلے ) کو معاف کردے تو یہ اس کے لیے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا ۔ اور جو لوگ اللہ کے نازل کیے ہوئے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں ، وہ لوگ ظالم ہیں ۔ ( ٣٩ )
اور ہم نے توریت میں ان پر واجب کیا ( ف۱۱۷ ) کہ جان کے بدلے جان ( ف۱۱۸ ) اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں میں بدلہ ہے ( ف۱۱۹ ) پھر جو دل کی خوشی سے بدلہ کراوے تو وہ اس کا گناہ اتار دے گا ( ف۱۲۰ ) اور جو اللہ کے اتارے پر حکم نہ کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں ،
تورات میں ہم نے یہودیوں پر یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان ، آنکھ کے بدلے آنکھ ، ناک کے بدلے ناک ، کان کے بدلے کان ، دانت کے بدلے دانت ، اور تمام زخموں کے لیے برابر کا بدلہ ۔ 74 پھر جو قصاص کا صدقہ کر دے تو وہ اس کے لیے کَفّارہ ہے ، 75 اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں ۔
اور ہم نے اس ( تورات ) میں ان پر فرض کردیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے عوض آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے عوض کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں میں ( بھی ) بدلہ ہے ، تو جو شخص اس ( قصاص ) کو صدقہ ( یعنی معاف ) کر دے تو یہ اس ( کے گناہوں ) کے لئے کفارہ ہوگا ، اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ ( و حکومت ) نہ کرے سو وہی لوگ ظالم ہیں
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :74 تقابل کے لیے ملاحظہ ہو توراۃ کی کتاب خروج ، باب ۲۱- آیت ۲۳-۲۵ ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :75 یعنی جو شخص صدقہ کی نیت سے قصاص معاف کر دے اس کے حق میں یہ نیکی اس کے بہت سے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا ۔ اسی معنی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ من جرح فی جسدہ جراحۃ فتصدق بھا کفر عنہ ذنوبہ بمثل ما تصدق بہ ۔ یعنی جس کے جسم میں کوئی زخم لگایا گیا اور اس نے معاف کر دیا تو جس درجہ کی یہ معافی ہوگی اسی کے بقدر اس کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے ۔
قتل کے بدلے تقاضائے عدل ہے یہودیوں کو اور سرزنش کی جا رہی ہے کہ ان کی کتاب میں صاف لفظوں میں جو حکم تھا یہ کھلم کھلا اس کا بھی خلاف کر رہے ہیں اور سرکشی اور بےپرواہی سے اسے بھی چھوڑ رہے ہیں ۔ نضری یہودیوں کو تو قرظی یہودیوں کے بدلے قتل کرتے ہیں لیکن قریظہ کے یہود کو بنو نضیر کے یہود کے عوض قتل نہیں کرتے بلکہ دیت لے کر چھوڑ دیتے ہیں ۔ اسی طرح انہوں نے شادی شدہ زانی کی سنگساری کے حکم کو بدل دیا ہے اور صرف کالا منہ کر کے رسوا کر کے مار پیٹ کر چھوڑ دیتے ہیں ۔ اسی لئے وہاں تو انہیں کافر کہا یہاں انصاف نہ کرنے کی وجہ سے انہیں ظالم کہا ۔ ایک حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ( والعین ) پڑھنا بھی مروی ہے ( ابو داؤد وغیرہ ) علماء کرام کا قول ہے کہ اگلی شریعت چاہے ہمارے سامنے بطور تقرر بیان کی جائے اور منسوخ نہ ہو تو وہ ہمارے لئے بھی شریعت ہے ۔ جیسے یہ احکام سب کے سب ہماری شریعت میں بھی اسی طرح ہیں ۔ امام نووی فرماتے ہیں اس مسئلے میں تین مسلک ہیں ایک تو وہی جو بیان ہوا ، ایک اس کے بالکل برعکس ایک یہ کہ صرف ابراہیمی شریعت جاری اور باقی ہے اور کوئی نہیں ۔ اس آیت کے عموم سے یہ بھی استدلال کیا گیا ہے کہ مرد عورت کے بدلے بھی قتل کیا جائے گا کیونکہ یہاں لفظ نفس ہے جو مرد عورت دونوں کو شامل ہے ۔ چنانچہ حدیث شریف میں بھی ہے کہ مرد عورت کے خون کے بدلے قتل کیا جائے گا اور حدیث میں ہے کہ مسلمانوں کے خون آپس میں مساوی ہیں ۔ بعض بزرگوں سے مروی ہے کہ مرد جب کسی عورت کو قتل کر دے تو اسے اس کے بدلے قتل نہ کیا جائے گا بلکہ صرف دیت لی جائے گی لیکن یہ قول جمہور کے خلاف ہے ۔ امام ابو حنیفہ تو فرماتے ہیں کہ ذمی کافر کے قتل کے بدلے بھی مسلمان قتل کر دیا جائے گا اور غلام کے قتل کے بدلے آزاد بھی قتل کر دیا جائے گا ۔ لیکن یہ مذہب جمہور کے خلاف ہے ۔ بخاری مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مسلمان کافر کے بدلے قتل کیا نہ کیا جائے گا اور سلف کے بہت سے آثار اس بارے میں موجود ہیں کہ وہ غلام کا قصاص آزاد سے نہیں لیتے تھے اور آزاد غلام کے بدلے قتل نہ کیا جائے گا ۔ حدیثیں بھی اس بارے میں مروی ہیں لیکن صحت کو نہیں پہنچیں ۔ امام شافعی تو فرماتے ہیں اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہ کے خلاف اجماع ہے لیکن ان باتوں سے اس قول کا بطلان لازم نہیں آتا تاوقتیکہ آیت کے عموم کو خاص کرنے والی کوئی زبردست صاف ثابت دلیل نہ ہو ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت انس بن نضر کی پھوپھی ربیع نے ایک لونڈی کے دانت توڑ دیئے ، اب لوگوں نے اس سے معافی چاہی لیکن وہ نہ مانی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس معاملہ آیا آپ نے بدلہ لینے کا حکم دے دیا ، اس پر حضرت انس بن نضر نے فرمایا کیا اس عورت کے سامنے کے دانت توڑ دیئے جائیں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں اے انس اللہ کی کتاب میں قصاص کا حکم موجود ہے ۔ یہ سن کر فرمایا نہیں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قسم ہے اس اللہ کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ، اس کے دانت ہرگز نہ توڑے جائیں گے ، چنانچہ ہوا بھی یہی کہ لوگ راضی رضامند ہو گئے اور قصاص چھوڑ دیا بلکہ معاف کر دیا ۔ اس وقت آپ نے فرمایا بعض بندگان رب ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ اللہ پر کوئی قسم کھا لیں تو اللہ تعالیٰ اسے پوری ہی کر دے ۔ دوسری روایت میں ہے کہ پہلے انہوں نے نہ تو معافی دی نہ دیت لینی منظور کی ۔ نسائی وغیرہ میں ہے ، ایک غریب جماعت کے غلام نے کسی مالدار جماعت کے غلام کے کان کاٹ دیئے ، ان لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر عرض کیا کہ ہم لوگ فقیر مسکین ہیں ، مال ہمارے پاس نہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر کوئی جرمانہ نہ رکھا ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ غلام بالغ نہ ہو اور ہو سکتا ہے کہ آپ نے دیت اپنے پاس سے دے دی ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان سے سفارش کر کے معاف کرا لیا ہو ۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ جان جان کے بدلے ماری جائے گی ، آنکھ پھوڑ دینے والے کی آنکھ پھوڑ دی جائے گی ، ناک کاٹنے والے کا ناک کاٹ دیا جائے گا ، دانت توڑنے والے کا دانت توڑ دیا جائے گا اور زخم کا بھی بدلہ لیا جائے گا ۔ اس میں آزاد مسلمان سب کے سب برابر ہیں ۔ مرد عورت ایک ہی حکم میں ۔ جبکہ یہ کام قصداً کئے گئے ہوں ۔ اس میں غلام بھی آپس میں برابر ہیں ، ان کے مرد بھی اور عورتیں بھی ۔ قاعدہ اعضا کا کٹنا تو جوڑ سے ہوتا ہے اس میں تو قصاص واجب ہے ۔ جیسے ہاتھ ، پیر ، قدم ، ہتھیلی وغیرہ ۔ لیکن جو زخم جوڑ پر نہ ہوں بلکہ ہڈی پر آئے ہوں ، ان کی بابت حضرت امام مالک فرماتے ہیں کہ ان میں بھی قصاص ہے مگر ران میں اور اس جیسے اعضاء میں اس لئے کہ وہ خوف و خطر کی جگہ ہے ۔ ان کے برخلاف ابو حنیفہ اور ان کے دونوں ساتھیوں کا مذہب ہے کہ کسی ہڈی میں قصاص نہیں ، بجز دانت کے اور امام شافعی کے نزدیک مطلق کسی ہڈی کا قصاص نہیں ۔ یہی مروی ہے حضرت عمر بن خطاب اور حضرت ابن عباس سے بھی اور یہی کہتے ہیں عطاء ، شبعی ، حسن بصری ، زہری ، ابراہیم ، نخعی اور عمر بن عبد العزیز بھی اور اسی کی طرف گئے ہیں سفیان ثوری اور لیث بن سعد بھی ۔ امام احمد سے بھی یہی قول زیادہ مشہور ہے ۔ امام ابو حنیفہ کی دلیل وہی حضرت انس والی روایت ہے جس میں ربیع سے دانت کا قصاص دلوانے کا حکم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمودہ ہے ۔ لیکن دراصل اس روایت سے یہ مذہب ثابت نہیں ہوتا ۔ کیونکہ اس میں یہ لفظ ہیں کہ اس کے سامنے کے دانت اس نے توڑ دیئے تھے اور ہو سکتا ہے کہ بغیر ٹوٹنے کے جھڑ گئے ہوں ۔ اس حالت میں قصاص اجماع سے واجب ہے ۔ ان کی دلیل کا پورا حصہ وہ ہے جو ابن ماجہ میں ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کے بازو کو کہنی سے نیچے نیچے ایک تلوار مار دی ، جس سے اس کی کلائی کٹ گئی ، حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مقدمہ آیا ، آپ نے حکم دیا کہ دیت ادا کرو اس نے کہا میں قصاص چاہتا ہوں ، آپ نے فرمایا اسی کو لے لے اللہ تجھے اسی میں برکت دے گا اور آپ نے قصاص کو نہیں فرمایا ۔ لیکن یہ حدیث بالکل ضعیف اور گری ہوئی ہے ، اس کے ایک راوی ہشم بن عکلی اعرابی ضعیف ہیں ، ان کی حدیث سے حجت نہیں پکڑی جاتی ، دوسرے راوی غران بن جاریہ اعرابی بھی ضعیف ہیں ۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ زخموں کا قصاص ان کے درست ہو جانے اور بھر جانے سے پہلے لینا جائز نہیں اور اگر پہلے لے لیا گیا پھر زخم بڑھ گیا تو کوئی بدلہ دلوایا نہ جائے گا ۔ اس کی دلیل مسند احمد کی یہ حدیث ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کے گھٹنے میں چوٹ مار دی ، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا مجھے بدلہ دلوایئے ، آپ نے دلوا دیا ، اس کے بعد وہ پھر آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تو لنگڑا ہو گیا ، آپ نے فرمایا میں نے تجھے منع کیا تھا لیکن تو نہ مانا ، اب تیرے اس لنگڑے پن کا بدلہ کچھ نہیں ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زخموں کے بھر جانے سے پہلے بدلہ لینے کو منع فرما دیا ۔ مسئلہ اگر کسی نے دوسرے کو زخمی کیا اور بدلہ اس سے لے لیا گیا ، اس میں یہ مر گیا تو اس پر کچھ نہیں ۔ مالک ، شافعی ، احمد اور جمہوری صحابہ و تابعین کا یہی قول ہے ۔ ابو حنیفہ کا قول ہے کہ اس پر دیت واجب ہے ، اسی کے مال میں سے ۔ بعض اور بزرگ فرماتے ہیں اس کے ماں باپ کی طرف کے رشتہ داروں کے مال پر وہ دیت واجب ہے ۔ بعض اور حضرات کہتے ہیں بقدر اس کے بدلے کے تو ساقط ہے باقی اسی کے مال میں سے واجب ہے ۔ پھر فرماتا ہے جو شخص قصاص سے درگزر کرے اور بطور صدقے کے اپنے بدلے کو معاف کر دے تو زخمی کرنے والے کا کفارہ ہو گیا اور جو زخمی ہوا ہے ، اسے ثواب ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے ۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ زخمی کیلئے کفارہ ہے یعنی اس کے گناہ اسی زخم کی مقدار سے اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے ۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ زخمی کیلئے کفارہ ہے یعنی اس کے گناہ اسی زخم کی مقدار سے اللہ تعالیٰ بخش دیتا ہے ۔ ایک مرفوع حدیث میں یہ آیا ہے کہ اگر چوتھائی دیت کے برابر کی چیز ہے اور اس نے درگزر کر لیا تو اس کے چوتھائی گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ ثلث ہے تو تہائی گناہ ، آدھی ہے تو آدھے گناہ اور پوری ہے تو پورے گناہ ۔ ایک قریشی نے ایک انصاری کو زور سے دھکا دے دیا جس سے اس کے آگے کے دانت ٹوٹ گئے ۔ حضرت معاویہ کے پاس مقدمہ گیا اور جب وہ بہت سر ہو گیا تو آپ نے فرمایا ، اچھا جا تجھے اختیار ہے ۔ حضرت ابو درداء وہیں تھے فرمانے لگے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جس مسلمان کے جسم میں کوئی ایذاء پہنچائی جائے اور وہ صبر کر لے ، بدلہ نہ لے تو اللہ اس کے درجے بڑھاتا ہے اور اس کی خطائیں معاف فرماتا ہے ، اس انصاری نے یہ سن کر کہا ، کیا سچ مچ آپ نے خود ہی اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں میرے ان کانوں نے سنا ہے اور میرے دل نے یاد کیا ہے ، اس نے کہا پھر گواہ رہو کہ میں نے اپنے مجرم کو معاف کر دیا ۔ حضرت معاویہ یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور اسے انعام دیا ( ابن جریر ) ترمذی میں بھی یہ روایت ہے لیکن امام ترمذی کہتے ہیں یہ حدیث غریب ہے ۔ ابو سفر راوی کا ابو درداء سے سننا ثابت نہیں اور روایت میں ہے کہ تین گنی دیت وہ دینا چاہتا تھا لیکن یہ راضی نہیں ہوا تھا ، اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ جو شخص خون یا اس سے کم کو معاف کر دے ، وہ اس کی پیدائش سے لے کر موت تک کا کفارہ ہے ۔ مسند میں ہے کہ جس کے جسم میں کوئی زخم لگے اور وہ معاف کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کے اتنے ہی گناہ معاف فرما دیتا ہے ۔ مسند میں یہ بھی حدیث ہے اللہ کے حکم کے مطابق حکم نہ کرنے والے ظالم ہیں ۔ پہلے گزر چکا ہے کہ کفر کفر سے کم ہے ، ظلم میں بھی تفاوت ہے اور فسق بھی درجے ہیں ۔