Surah

Information

Surah # 5 | Verses: 120 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 112 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَـتَّخِذُوا الَّذِيۡنَ اتَّخَذُوۡا دِيۡنَكُمۡ هُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡكِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ وَالۡـكُفَّارَ اَوۡلِيَآءَ‌ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿57﴾
مسلمانو! ان لوگوں کو دوست نہ بناؤ جو تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنائے ہوئے ہیں ( خواہ ) وہ ان میں سے ہوں جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے یا کفار ہوں اگر تم مومن ہو تو اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہو ۔
يايها الذين امنوا لا تتخذوا الذين اتخذوا دينكم هزوا و لعبا من الذين اوتوا الكتب من قبلكم و الكفار اولياء و اتقوا الله ان كنتم مؤمنين
O you who have believed, take not those who have taken your religion in ridicule and amusement among the ones who were given the Scripture before you nor the disbelievers as allies. And fear Allah , if you should [truly] be believers.
Musalmano! Unn logon ko dost na banao jo tumharay deen ko hansi khel banaye huye hain ( khuwa ) woh unn mein say hon jo tum say pehlay kitab diye gaye ya kuffaar hon agar tum momin hoto Allah Taalaa say dartay raho.
اے ایمان والو ! جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی ان میں سے ایسے لوگوں جو جنہوں نے تمہارے دین کو مذاق اور کھیل بنا رکھا ہے اور کافروں کو یارومددگار نہ بناؤ ، اور اگر تم واقعی صاحب ایمان ہو تو اللہ سے ڈرتے رہو ۔
اے ایمان والو! جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنالیا ہے ( ف۱٤۷ ) وہ جو تم سے پہلے کتاب دیے گئے اور کافر ( ف۱٤۸ ) ان میں کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو اگر ایمان رکھتے ہو ( ف۱٤۹ )
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تمہارے پیش رَو اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے تمہارے دین کو مذاق اور تفریح کا سامان بنا لیا ہے ، انہیں اور دوسرے کافروں کو اپنا دوست اور رفیق نہ بناؤ ۔ اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو ۔
اے ایمان والو! ایسے لوگوں میں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی ، ان کو جو تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل بنائے ہوئے ہیں اور کافروں کو دوست مت بناؤ ، اور اﷲ سے ڈرتے رہو بشرطیکہ تم ( واقعی ) صاحبِ ایمان ہو
اذان اور دشمنان دین اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو غیر مسلموں کی محبت سے نفرت دلاتا ہے اور فرماتا ہے کہ کیا تم ان سے دوستیاں کرو گے جو تمہارے طاہر و مطہر دین کی ہنسی اڑاتے ہیں اور اسے ایک بازیچہ اطفال بنائے ہوئے ہیں ۔ من بیان جنس کیلئے جیسے ( من الاوثان ) میں ۔ بعض نے ( والکفار ) پڑھا ہے اور عطف ڈالا ہے اور بعض نے ( والکفار ) پڑھا ہے اور ( لاتتخذوا ) کا نیا معمول بنایا ہے تو تقدیر عبارت ( والا الکفار اولیاء ) ہو گی ، کفار سے مراد مشرکین ہیں ، ابن مسعود کی قرأت میں ( و من الذین اشرکوا ) ہے ۔ اللہ سے ڈرو اور ان سے دوستیاں نہ کرو اگر تم سچے مومن ہو ۔ یہ تو تمہارے دین کے ، اللہ کی شریعت کے دشمن ہیں ۔ جیسے فرمایا آیت ( لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ) 3 ۔ آل عمران:28 ) مومن مومنوں کو چھوڑ کر کفار سے دوستیاں نہ کریں اور جو ایسا کرے وہ اللہ کے ہاں کسی بھلائی میں نہیں ہاں ان سے بچاؤ مقصود ہو تو اور بات ہے ، اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے ۔ اسی طرح یہ کفار اہل کتاب اور مشرک اس وقت بھی مذاق اڑاتے ہیں جب تم نمازوں کیلئے لوگوں کو پکارتے ہو حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی سب سے پیاری عبادت ہے ، لیکن یہ بیوقوف اتنا بھی نہیں جانتے ، اس لئے کہ یہ متبع شیطان ہیں ، اس کی یہ حالت ہے کہ اذان سنتے ہی بدبو چھوڑ کر دم دبائے بھاگتا ہے اور وہاں جا کر ٹھہرتا ہے ، جہاں اذان کی آواز نہ سن پائے ۔ اس کے بعد آ جاتا ہے پھر تکبیر سن کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور اس کے ختم ہوتے ہی آکر اپنے بہکاوے میں لگ جاتا ہے ، انسان کو ادھر ادھر کی بھولی بسری باتیں یاد دلاتا ہے یہاں تک کہ اسے یہ بھی خبر نہیں رہتی کہ نماز کی کتنی رکعت پڑھیں؟ جب ایسا ہو تو وہ سجدہ سہو کر لے ۔ ( متفق علیہ ) امام زہری فرماتے ہیں اذان کا ذکر قرآن کریم میں بھی ہے پھر یہی آیت تلاوت کی ۔ ایک نصرانی مدینے میں تھا ، اذان میں جب اشہد ان محمدا رسول اللہ سنتا تو کہتا کذاب جل جائے ۔ ایک مرتبہ رات کو اس کی خادمہ گھر میں آگ لائی ، کوئی پتنگا اڑا جس سے گھر میں آگ لگ گئی ، وہ شخص اس کا گھر بار سب جل کر ختم ہو گیا ۔ فتح مکہ والے سال حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال کو کعبے میں اذان کہنے کا حکم دیا ، قریب ہی ابو سفیان بن حرب ، عتاب بن اسید ، حارث بن ہشام بیٹھے ہوئے تھے ، عتاب نے تو اذان سن کر کہا میرے باپ پر تو اللہ کا فضل ہوا کہ وہ اس غصہ دلانے والی آواز کے سننے سے پہلے ہی دنیا سے چل بسا ۔ حارث کہنے لگا اگر میں اسے سچا جانتا تو مان ہی نہ لیتا ۔ ابو سفیان نے کہا بھئی میں تو کچھ بھی زبان سے نہیں نکالتا ، ڈر ہے کہ کہیں یہ کنکریاں اسے خبر نہ کر دیں انہوں نے باتیں ختم کی ہی تھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے اور فرمانے لگے اس وقت تم نے یہ یہ باتیں کیں ہیں ، یہ سنتے ہی عتاب اور حارث تو بول پڑے کہ ہماری گواہی ہے کہ آپ اللہ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، یہاں تو کوئی چوتھا تھا ہی نہیں ، ورنہ گمان کر سکتے تھے کہ اس نے جا کر آپ سے کہدیا ہوگا ( سیرۃ محمد بن اسحاق ) حضرت عبداللہ بن جبیر جب شام کے سفر کو جانے لگے تو حضرت محذورہ سے جن کی گود میں انہوں نے ایام یتیمی بسر کئے تھے ، کہا آپ کی اذان کے بارے میں مجھ سے وہاں کے لوگ ضرور سوال کریں گے تو آپ اپنے واقعات تو مجھے بتا دیجئے ۔ فرمایا ہاں سنو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حنین سے واپس آ رہے تھے ، راستے میں ہم لوگ ایک جگہ رکے ، تو نماز کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن نے اذان کہی ، ہم نے اس کا مذاق اڑانا شروع کیا ، کہیں آپ کے کان میں بھی آوازیں پڑ گئیں ۔ سپاہی آیا اور ہمیں آپ کے پاس لے گیا ۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ تم سب میں زیادہ اونچی آواز کس کی تھی؟ سب نے میری طرف اشارہ کیا تو آپ نے اور سب کو چھوڑ دیا اور مجھے روک لیا اور فرمایا اٹھو اذان کہو واللہ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے اور آپ کی فرماں برداری سے زیادہ بری چیز میرے نزدیک کوئی نہ تھی لیکن بےبس تھا ، کھڑا ہو گیا ، اب خود آپ نے مجھے اذان سکھائی اور جو سکھاتے رہے ، میں کہتا رہا ، پھر اذان پوری بیان کی ، جب میں اذان سے فارغ ہوا تو آپ نے مجھے ایک تھیلی دے ، جس میں چاندی تھی ، پھر اپنا دست مبارک میرے سر پر رکھا اور پیٹھ تک لائے ، پھر فرمایا اللہ تجھ میں اور تجھ پر اپنی برکت نازل کرے ۔ اب تو اللہ کی قسم میرے دل سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت بالکل جاتی رہی ، ایسی محبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دل میں پیدا ہو گئی ، میں نے آرزو کی کہ مکے کا مؤذن حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو بنا دیں ۔ آپ نے میری یہ درخواست منظور فرما لی اور میں مکے میں چلا گیا اور وہاں کے گورنر حضرت عتاب بن اسید سے مل کر اذان پر مامور ہو گیا ۔ حضرت ابو مخدورہ کا نام سمرہ بن مغیرہ بن لوذان تھا ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چار مؤذنوں میں سے ایک آپ تھے اور لمبی مدت تک آپ اہل مکہ کے مؤذن رہے ۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ ۔