Surah

Information

Surah # 5 | Verses: 120 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 112 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنۡۢ بَحِيۡرَةٍ وَّلَا سَآٮِٕبَةٍ وَّلَا وَصِيۡلَةٍ وَّلَا حَامٍ‌ ۙ وَّلٰـكِنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا يَفۡتَرُوۡنَ عَلَى اللّٰهِ الۡـكَذِبَ‌ ؕ وَاَكۡثَرُهُمۡ لَا يَعۡقِلُوۡنَ‏ ﴿103﴾
اللہ تعالٰی نے نہ بحیرہ کو مشروع کیا ہے اور نہ سائبہ کو اور نہ وصیلہ کو اور نہ حام کو لیکن جو لوگ کافر ہیں وہ اللہ تعالٰی پر جھوٹ لگاتے ہیں اور اکثر کافر عقل نہیں رکھتے ۔
ما جعل الله من بحيرة و لا ساىبة و لا وصيلة و لا حام و لكن الذين كفروا يفترون على الله الكذب و اكثرهم لا يعقلون
Allah has not appointed [such innovations as] bahirah or sa'ibah or wasilah or ham. But those who disbelieve invent falsehood about Allah , and most of them do not reason.
Allah Taalaa ney na bahiyyra ko mashroo kiya hai aur na saaeeba ko na waseela ko aur na haam ko lekin jo log kafir hain woh Allah Taalaa per jhoot lagatay hain aur kasay kafir aqal nahi rakhtay.
اللہ نے کسی جانور کو نہ بحیرہ بنانا طے کیا ہے ، نہ سائبہ ، نہ وصیلہ اور نہ حامی ( ٧١ ) لیکن جن لوگوں نے کفر اپنایا ہوا ہے وہ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں ، اور ان میں سے اکثر لوگوں کو صحیح سمجھ نہیں ہے ۔
اللہ نے مقرر نہیں کیا ہے کان چِرا ہوا اور نہ بجار اور نہ وصیلہ اور نہ حامی ( ف۲٤٦ ) ہاں کافر لوگ اللہ پر جھوٹا افترا باندھتے ہیں ( ف۲٤۷ ) اور ان میں اکثر نرے بےعقل ہیں ( ف۲٤۸ )
اللہ نے نہ کوئی بَحِیرہ مقرر کیا ہے نہ سائبَہ اور نہ وَصیْلہ اور نہ حام ۔ 118 مگر یہ کافر اللہ پر جھوٹی تہمت لگاتے ہیں اور ان میں سے اکثر بے عقل ہیں ﴿کہ ایسے وہمیّات کو مان رہے ہیں﴾ ۔
اللہ نے نہ تو بحیرہ کو ( اَمرِ شرعی ) مقرر کیا ہے اور نہ سائبہ کو اور نہ وصیلہ کو اور نہ حام کو ، لیکن کافر لوگ اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں ، اور ان میں سے اکثر عقل نہیں رکھتے
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :118 جس طرح ہمارے ملک میں گائے ، بیل اور بکرے خدا کے نام پر یا کسی بت یا قبر یا دیوتا یا پیر کے نام پر چھوڑ دیے جاتے ہیں ، اور ان سے کوئی خدمت لینا یا انہیں ذبح کرنا یا کسی طور پر ان سے فائدہ اٹھانا حرام سمجھا جاتا ہے ، اسی طرح زمانہ جاہلیت میں اہل عرب بھی مختلف طریقوں سے جانوروں کو ین کرکے چھوڑ دیا کرتے تھے اور ان طریقوں سے چھوڑے ہوئے جانوروں کے الگ الگ نام رکھتے تھے ۔ بحیرہ: اس اونٹنی کو کہتے تھے جو پانچ دفعہ بچے جن چکی ہو اور آخری بار اس کے ہاں نر بچہ ہوا ہو ۔ اس کا کان چیر کر اسے آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا ۔ پھر نہ کوئی اس پر سوار ہوتا ، نہ اس کا دودھ پیا جاتا ، نہ اسے ذبح کیا جاتا ، نہ اس کا اون اتارا جاتا ۔ اسے حق تھا کہ جس کھیت اور جس چراگاہ میں چاہے چرے اور جس گھاٹ سے چاہے پانی پیے ۔ سائبہ: اس اونٹ یا اونٹنی کو کہتے تھے جسے کسی منت کے پورا ہو نے یا کسی بیماری سے شفا پانے یا کسی خطرے سے بچ جانے پر بطور شکرانہ کے پن کر دیا گیا ہو ۔ نیز جس اونٹنی نے دس مرتبہ بچے دیے ہوں اور ہر بار مادہ ہی جنی ہو اسے بھی آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا ۔ وصیلہ: اگر بکری کا پہلا بچہ نر ہوتا تو وہ خداؤں کے نام پر ذبح کر دیا جاتا ، اور اگر وہ پہلی بار مادہ جنتی تو اسے اپنے لیے رکھ لیا جاتا تھا ۔ لیکن اگر نر اور مادہ ایک ساتھ پیدا ہوتے تو نر کو ذبح کر نے کے بجائے یونہی خداؤں کے نام پر چھوڑ دیا جاتا تھا اور اس کا نام وصیلہ تھا ۔ حام : اگر کسی اونٹ کا پوتا سواری دینے کے قابل ہو جاتا تو اس بوڑھے اونٹ کو آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا ۔ نیز اگر کسی اونٹ کے نطفہ سے دس بچے پیدا ہو جاتے تو اسے بھی آزادی مل جاتی ۔
بتوں کے نام کٹے ہوئے جانوروں کے نام؟ صحیح بخاری شریف میں حضرت سعید بن مسیب رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ بحیرہ اس جانور کو کہتے ہیں جس کے بطن کا دودھ وہ لوگ اپنے بتوں کے نام کر دیتے تھے اسے کوئی دو ہتا نہ تھا سائبہ ان جانوروں کو کہتے تھے جنہیں وہ اپنے معبود باطل کے نام پر چھوڑ دیتے تھے سواری اور بوجھ سے آزاد کر دیتے تھے ، حضرت ابو ہریرہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے عمرو بن عامر خزاعی کو دیکھا کہ وہ جہنم میں اپنی آنتیں گھسیٹ رہا ہے اس نے سب سے پہلے یہ رسم ایجاد کی تھی ۔ وصیلہ وہ اونٹنی ہے جس کے پلوٹھے دو بچے اوپر تلے کے مادہ ہوں ان دونوں کے درمیان کوئی نر اونٹ پیدا نہ ہوا ہو اسے بھی وہ اپنے بتوں کے نام وقف کر دیتے تھے ۔ حام اس نر اونٹ کا نام تھا جس کی نسل سے کئی بچے ہو گئے ہوں پھر اسے بھی اپنے بزرگوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے اور کسی کام میں نہ لیتے تھے ، ایک حدیث میں ہے کہ میں نے جہنم کو دیکھا اس کا ایک حصہ دوسرے کو گویا کھائے جا رہا تھا اس میں میں نے عمرو کو دیکھا کہ اپنی آنتیں گھسیٹا پھرتا ہے اسی نے سائبہ کا رواج سب سے پہلے نکالا تھا ایک حدیث میں ہے حضور نے عمورو کا یہ ذکر حصرت اکتم بن جون رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کر کے فرمایا وہ صورت و شکل میں بالکل تیرے جسیا ہے اس پر حضرت اکتم نے فرمایا یا رسول اللہ کہیں یہ مشابہت مجھے نقصان نہ پہنچائے؟ آپ نے فرمایا نہیں بےفکر رہو وہ کافر تھا تم مسلمان ہو ۔ اسی نے حضرت ابراہیم کے دین کو سب سے پہلے بدلا اسی نے بحیرہ ، سائبہ اور حام کی رسم نکالی ، اسی نے بت پرستی دین ابراہیمی میں ایجاد کی ، ایک روایت میں ہے یہ بنو کعب میں سے ہے ، جہنم میں اس کے جلنے کی بد بو سے دوسرے جہنمیوں کو بھی تکلیف پہنچتی ہے ، بحیرہ کی رسم کو ایجاد کرنے والا بنو مدلج کا ایک شخص تھا اس کی دو انٹنیاں تھیں جن کے کان کاٹ دیئے اور دودھ حرام کر دیا پھر کچھ عرصہ کے بعد پینا شروع کر دیا ، میں نے اسے بھی دوزخ میں دیکھا دونوں اونٹنیاں اسے کاٹ رہی تھیں اور روند رہی تھیں یاد رہے کہ یہ عمر ولحی بن قمعہ کا لڑکا ہے جو خزاعہ کے سرداروں میں سے ایک تھا قبیلہ جرہم کے بعد بیت اللہ شریف کی تولیت انہی کے پاس تھی یہی شخص عرب میں بت لایا اور سفلے لوگوں میں ان کی عبادت جاری کی اور بہت سی بدعتیں ایجاد کیں جن میں سے چوپایوں کو الگ الگ طریقے سے بتوں کے نام کرنے کی رسم بھی تھی ۔ جس کی طرف اشارہ آیت آیت ( وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْاَنْعَامِ نَصِيْبًا فَقَالُوْا ھٰذَا لِلّٰهِ بِزَعْمِهِمْ وَھٰذَا لِشُرَكَاۗىِٕنَا ۚ فَمَا كَانَ لِشُرَكَاۗىِٕهِمْ فَلَا يَصِلُ اِلَى اللّٰهِ ۚ وَمَا كَانَ لِلّٰهِ فَهُوَ يَصِلُ اِلٰي شُرَكَاۗىِٕهِمْ ۭسَاۗءَ مَا يَحْكُمُوْنَ ) 6 ۔ الانعام:136 ) میں ہے ۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ اونٹنی کے جب پانچ بچے ہوتے تو پانچواں اگر نر ہوتا تو اسے ذبح کر ڈالتے اور اس کا گوشت صرف مرد کھاتے عورتوں پر حرام جانتے اور اگر مادہ ہوتی تو اس کے کان کاٹ کر اس کا نام بحیرہ رکھتے ۔ سائبہ کی تفسیر میں مجاہد سے اسی کے قریب قریب بکریوں میں مروی ہے ۔ محمد بن اسحاق کا قول ہے کہ جس اونٹنی کے پے در پے دس اونٹنیاں پیدا ہوتیں اسے چھوڑ دیتے نہ سواری لیتے نہ بال کاٹتے نہ دودھ دوہتے اور اسی کا نام سائبہ ہے ۔ صرف مہمان کے لئے تو دودھ نکال لیتے ورنہ اس کا دودھ یونہی رکا رہتا ، ابو روق کہتے ہیں یہ نذر کا جانور ہوتا تھا جب کسی کی کوئی حاجت پوری ہو جاتی تو وہ اپنے بت اور بزرگ کے نام کوئی جانور آزاد کر دیتا پھر اس کی نسل بھی آزاد سمجھی جاتی ، سدی کہتے ہیں اگر کوئی شخص اس جانور کی بےحرمتی کرتا تو اسے یہ لوگ سزا دیتے ، ابن عباس سے مروی ہے کہ وصیلہ اس جانور کو کہتے ہیں کہ مثلاً ایک بکری کا ساتواں بچہ ہے اب اگر وہ نر ہے اور ہے مردہ تو اسے مرد عورت کھاتے اور اگر وہ مادہ ہے تو اسے زندہ باقی رہنے دیتے اور اگر نر مادہ دونوں ایک ساتھ ہوئے ہیں تو اس نر کو بھی زندہ رکھتے اور کہتے کہ اس کے ساتھ اس کی بہن ہے اس نے اسے ہم پر حرام کر دیا ۔ حضرت سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ جس اونٹنی کے مادہ پیدا ہو پھر دوسرا بچہ بھی مادہ ہو تو اسے وصیلہ کہتے تھے ، محمد بن اسحاق فرماتے ہیں جو بکری پانچ دفعہ دو دو مادہ بکریاں بچے دے اس کا نام وصیلہ تھا پھر اسے چھوڑ دیا جاتا تھا اس کے بعد اس کا جو بچہ ہوتا اسے ذبح کر کے صرف مرد کھا لیتے اور اگر مردہ پیدا ہوتا تو مرد عورت سب کا حصہ سمجھا جاتا ، ابن عباس فرماتے ہیں حام اس نر اونٹ کو کہتے ہیں جس کی نسل سے دس بچے پیدا ہو جائیں یہ بھی مردوی ہے کہ جس کے بچے سے کوئی بچہ ہو جائے اسے وہ آزاد کر دیتے نہ اس پر سواری لیتے نہ اس پر بوجھ لادتے ، نہ اس کے بال کام میں لیتے نہ کسی کھیتی یا چارے یا حوض سے اسے روکتے ، اور اقوال بھی ہیں ، حضرت مالک بن نفلہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت میں پھٹے پرانے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے تھا آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا تیرے پاس کچھ مال بھی ہے؟ میں نے کہا ہاں ، فرمایا کس قسم کا کہا ہر قسم کا اونٹ بکریاں گھوڑے غلام وغیرہ آپ نے فرمایا پھر تو اللہ نے تجھے بہت کچھ دے رکھا ہے سن اونٹ کے جب بچہ ہوتا ہے تو صحیح سالم کان والا ہی ہوتا ہے؟ میں نے کہا ہاں آپ نے فرمایا پھر تو استرالے کر ان کے کان کاٹ دیتا ہے اور ان کا نام بحیرہ رکھ دیتا ہے؟ اور بعض کے کان چیر کر انہیں حرام سمجھنے لگتا ہے؟ میں نے کہا جی ہاں ۔ فرمایا خبردار ایسا نہ کرنا اللہ نے تجھے جتنے جانور دے رکھے ہیں سب حلال ہیں ۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی ، بحیرہ وہ ہے جس کے کان کاٹ دیئے جاتے تھے پھر گھر والوں میں سے کوئی بھی اس سے کسی قسم کا فائدہ نہیں اٹھا سکتا تھا ہاں جب وہ مر جاتا تو سب بیٹھ کر اس کا گوشت کھا جاتے ، سائبہ اس جانور کو کہتے ہیں جسے اپنے معبودوں کے پاس لے جا کر ان کے نام کا کر دیتے تھے ۔ وصیلہ اس بکری کو کہتے تھے جس کے ہاں ساتویں دفعہ بچہ ہو اس کے کان اور سینگ کاٹ کر آزاد کر دیتے ، اس روایت کے مطابق تو حدیث ہی میں ان جانورون کی تفصیل ملی جلی ہے ایک روایت میں یہ بقول حضرت عوف بن مالک مروی ہے اور یہی زیادہ ٹھیک ہے پھر فرمان قرآن ہے کہ یہ نام اور چیزیں اللہ کی مقرر کردہ نہیں نہ اس کی شریعت میں داخل ہیں نہ ذریعہ ثواب ہیں یہ لوگ اللہ کی پاک صاف شریعت کی طرف دعوت دیئے جاتے ہیں تو اپنے باب دادوں کے طریقوں کو اس کے مقابلے میں پیش کرتے ہیں حالانکہ ان کے بڑے محض ناواقف اور بےراہ تھے ان کی تابعداری تو وہ کرے گا جو ان سے بھی زیادہ بہکا ہوا اور بےعقل ہو ۔