Surah

Information

Surah # 6 | Verses: 165 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 55 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
وَيَوۡمَ نَحۡشُرُهُمۡ جَمِيۡعًا ثُمَّ نَقُوۡلُ لِلَّذِيۡنَ اَشۡرَكُوۡۤا اَيۡنَ شُرَكَآؤُكُمُ الَّذِيۡنَ كُنۡتُمۡ تَزۡعُمُوۡنَ‏ ﴿22﴾
اور وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جس روز ہم ان تمام خلائق کو جمع کریں گے ، پھر ہم مشرکین سے کہیں گے کہ تمہارے وہ شرکا ، جن کے معبود ہونے کا تم دعویٰ کرتے تھے کہاں گئے ۔
و يوم نحشرهم جميعا ثم نقول للذين اشركوا اين شركاؤكم الذين كنتم تزعمون
And [mention, O Muhammad], the Day We will gather them all together; then We will say to those who associated others with Allah , "Where are your 'partners' that you used to claim [with Him]?"
Aur woh waqt bhi yaad kerney kay qabil hai jiss roz hum unn tamam khaleeq ko jama keren gay phir hum mushrikeen say kahen gay kay tumharay woh shurka jin kay mabood honey ka tum dawa kertay thay kahan gaye?
اس دن ( کو یاد رکھو ) جب ہم ان سب کو اکٹھا کریں گے ، پھر جن لوگوں نے شرک کیا ہوگا ان سے پوچھیں گے کہ : کہاں ہیں تمہارے وہ معبود جن کے بارے میں تم یہ دعوی کرتے تھے کہ وہ خدائی میں اللہ کے شریک ہیں؟
اور جس دن ہم سب کو اٹھائیں گے پھر مشرکوں سے فرمائیں گے کہاں ہیں تمہارے وہ شریک جن کا تم دعویٰ کرتے تھے ،
جس روز ہم ان سب کو اکٹھا کریں گے اور مشرکوں سے پوچھیں گے کہ اب وہ تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریک کہاں ہیں جن کو تم اپنا خدا سمجھتے تھے تو وہ اس کے سوا کوئی فتنہ نہ اٹھا سکیں گے ۔
اور جس دن ہم سب کو جمع کریں گے پھر ہم ان لوگوں سے کہیں گے جو شرک کرتے تھے: تمہارے وہ شریک کہاں ہیں جنہیں تم ( معبود ) خیال کرتے تھے
قیامت کے دن مشرکوں کا حشر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کا حشر اپنے سامنے کرے گا پھر جو لوگ اللہ کے سوا اوروں کی پرستش کرتے تھے انہیں لا جواب شرمندہ اور بےدلیل کرنے کے لئے ان سے فرمائے گا کہ جن جن کو تم میرا شریک ٹھہراتے رہے آج وہ کہاں ہیں؟ سورۃ قصص کی آیت ( وَيَوْمَ يُنَادِيْهِمْ فَيَقُوْلُ اَيْنَ شُرَكَاۗءِيَ الَّذِيْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ ) 28 ۔ القصص:62 ) میں بھی یہ موجود ہے ۔ اس کے بعد کی آیت میں جو لفظ فتنتھم ہے اس کا مطلب فتنہ سے مراد حجت و دلیل ، عذرو معذرت ، ابتلا اور جواب ہے ۔ حضرت ابن عباس سے کسی نے مشرکین کے اس انکار شرک کی بابت سوال کیا تو آپ نے جواب دیا کہ ایک وقت یہ ہو گا کہ اور ایک اور وقت ہو گا کہ اللہ سے کوئی بات چھپائیں گے نہیں ۔ پس ان دونوں آیتوں میں کوئی تعارض و اختلاف نہیں جب مشرکین دیکھیں گے کہ موحد نمازی جنت میں جانے لگے تو کہیں گے آؤ ہم بھی اپنے مشرک ہونے کا انکار کر دیں ، اس انکار کے بعد ان کی زبانیں بند کر دی جائیں گی اور ان کے ہاتھ پاؤں گواہیاں دینے لگیں گے تو اب کوئی بات اللہ سے نہ چھپائیں گے ۔ یہ توجہ بیان فرما کر حضرت عبداللہ نے فرمایا اب تو تیرے دل میں کوئی شک نہیں رہا ؟ سنو بات یہ ہے کہ قرآن میں ایسی چیزوں کا دوسری جگہ بیان و توجیہ موجود ہے لیکن بےعلمی کی وجہ سے لوگوں کی نگاہیں وہاں تک نہیں پہنچتیں ۔ یہ بھی مروی ہے کہ یہ آیت منافقوں کے بارے میں ہے ۔ لیکن یہ کچھ ٹھیک نہیں ۔ اس لئے کہ آیت مکی ہے اور منافقوں کا وجود مکہ شریف میں تھا ہی نہیں ۔ ہاں منافقوں کے بارے میں آیت ( يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ جَمِيْعًا فَيَحْلِفُوْنَ لَهٗ كَمَا يَحْلِفُوْنَ لَكُمْ وَيَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ عَلٰي شَيْءٍ ۭ اَلَآ اِنَّهُمْ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ ) 58 ۔ المجادلہ:18 ) ہے ۔ دیکھ لو کہ کس طرح انہوں نے خود اپنے اوپر جھوٹ بولا ؟ اور جن جھوٹے معبودوں کا افترا انہوں نے کر رکھا تھا کیسے ان سے خالی ہاتھ ہو گئے؟ چنانچہ دوسری جگہ ہے کہ جب ان سے یہ سوال ہو گا خود یہ کہیں گے ضلو عنا وہ سب آج ہم سے دور ہو گئے ، پھر فرماتا ہے بعض ان میں وہ بھی ہیں جو قرآن سننے کو تیرے پاس آتے ہیں لیکن اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے ۔ ان کے دلوں پر پردے ہیں وہ سمجھتے ہی نہیں ان کے کان انہیں یہ مبارک آوازیں اس طرح سناتے ہی نہیں کہ یہ اس سے فائدہ اٹھا سکیں اور احکام قرآنی کو قبول کریں ، جیسے اور جگہ ان کی مثال ان چوپائے جانوروں سے دی گئی جو اپنے چروا ہے کی آواز تو سنتے ہیں لیکن مطلب خاک نہیں سمجھتے ، یہ وہ لوگ ہیں جو بکثرت دلائل و براہن اور معجزات اور نشانیاں دیکھتے ہوئے بھی ایمان قبول نہیں کرتے ، ان ازلی بد قسمتوں کے نصیب میں ایمان ہے ہی نہیں ، یہ بے انصاف ہونے کے ساتھ ہی بےسمجھ بھی ہیں ، اگر اب ان میں بھلائی دیکھتا تو ضرور انہیں سننے کی توفیق کے ساتھ ہی توفیق عمل و قبول بھی مرحمت فرماتا ، ہاں انہیں اگر سوجھتی ہے تو یہ کہ اپنے باطل کے ساتھ تیرے حق کو دبا دیں تجھ سے جھگڑتے ہیں اور صاف کہہ جاتے ہیں کہ یہ تو اگلوں کے فسانے ہیں جو پہلی کتابوں سے نقل کر لئے گئے ہیں اس کے بعد کی آیت کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ یہ کفار خود بھی ایمان نہیں لاتے ہیں اور دوسروں کو بھی ایمان لانے سے روکتے ہیں حضور کی حمایت کرتے ہیں آپ کو برحق جانتے ہیں اور خود حق کو قبول نہیں کرتے ، جیسے کہ ابو طالب کہ حضور کا بڑا ہی حمایتی تھا لیکن ایمان نصیب نہیں ہوا ۔ آپ کے دس چچا تھے جو علانیہ تو آپ کے ساتھی تھے لیکن خفیہ مخالف تھے ۔ لوگوں کو آپ کے قتل وغیرہ سے روکتے تھے لیکن خود آپ سے اور آپ کے دین سے دور ہوتے جاتے تھے ۔ افسوس اس اپنے فعل سے خود اپنے ہی تئیں غارت کرتے تھے لیکن جانتے ہی نہ تھے کہ اس کرتوت کا وبال ہمیں ہی یڑ رہا ہے ۔