Surah

Information

Surah # 6 | Verses: 165 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 55 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ يَّسۡتَمِعُ اِلَيۡكَ‌‌ ۚ وَجَعَلۡنَا عَلٰى قُلُوۡبِهِمۡ اَكِنَّةً اَنۡ يَّفۡقَهُوۡهُ وَفِىۡۤ اٰذَانِهِمۡ وَقۡرًا ‌ؕ وَاِنۡ يَّرَوۡا كُلَّ اٰيَةٍ لَّا يُؤۡمِنُوۡا بِهَا‌ ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوۡكَ يُجَادِلُوۡنَكَ يَقُوۡلُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اِنۡ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِيۡرُ الۡاَوَّلِيۡنَ‏ ﴿25﴾
اور ان میں بعض ایسے ہیں کہ آپ کی طرف کان لگاتے ہیں اور ہم نے ان کے دلوں پر پردہ ڈال رکھا ہے اس سے کہ وہ اس کو سمجھیں اور ان کے کانوں میں ڈاٹ دے رکھی ہے اور اگر وہ لوگ تمام دلائل کو دیکھ لیں تو بھی ان پر کبھی ایمان نہ لائیں یہاں تک کہ جب یہ لوگ آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ سے خواہ مخواہ جھگڑتے ہیں یہ لوگ جو کافر ہیں یوں کہتے ہیں کہ یہ تو کچھ بھی نہیں صرف بے سند باتیں ہیں جو پہلوں سے چلی آرہی ہیں ۔
و منهم من يستمع اليك و جعلنا على قلوبهم اكنة ان يفقهوه و في اذانهم وقرا و ان يروا كل اية لا يؤمنوا بها حتى اذا جاءوك يجادلونك يقول الذين كفروا ان هذا الا اساطير الاولين
And among them are those who listen to you, but We have placed over their hearts coverings, lest they understand it, and in their ears deafness. And if they should see every sign, they will not believe in it. Even when they come to you arguing with you, those who disbelieve say, "This is not but legends of the former peoples."
Aur inn mein baaz aisay hain kay aap ki taraf kaan lagatay hain aur hum ney inn kay dilon per parda daal rakha hai iss say kay woh iss ko samjhen aur inn kay kanon mein daat dey rakhi hai aur agar woh log tamam dalaeel ko dekh len to bhi inn per kabhi eman na layen yahan tak kay jab yeh log aap kay pass aatay hain to aap say khuwa ma-khuwa jhagartay hain yeh log jo kafir hain yun kehtay hain kay yeh to kuch bhi nahi sirf bey sanad baaten hain jo pehlon say chali aarahi hain.
اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو تمہاری بات کان لگا کر سنتے ہیں ، مگر ( چونکہ یہ سننا طلب حق کے بجائے ضد پر اڑے رہنے کے لیے ہوتا ہے ، اس لیے ) ہم نے ان کے دلوں پر ایسے پردے ڈال دیے ہیں کہ وہ اس کو سمجھتے نہیں ہیں ، اور ان کے کانوں میں بہرا پن پیدا کردیا ہے ۔ اور اگر وہ ایک ایک کر کے ساری نشانیاں دیکھ لیں تب بھی وہ ان پر ایمان نہیں لائیں گے ۔ انتہا یہ ہے کہ جب تمہارے پاس جھگڑا کرنے کے لیے آتے ہیں تو یہ کافر لوگ یوں کہتے ہیں کہ یہ ( قرآن ) پچھلے لوگوں کی داستانوں کے سوا کچھ نہیں ۔
اور ان میں کوئی وہ ہے جو تمہاری طرف کان لگاتا ہے ( ف۵۹ ) اور ہم نے ان کے دلوں پر غلاف کردیے ہیں کہ اسے نہ سمجھیں اور ان کے کانٹ میں ٹینٹ ( روئی ) اور اگر ساری نشانیاں دیکھیں تو ان پر ایمان نہ لائیں گے یہاں تک کہ جب تمہارے حضور تم سے جھگڑتے حاضر ہوں تو کافر کہیں یہ تو نہیں مگر اگلوں کی داستانیں ( ف٦۰ )
ان میں سے بعض لوگ ایسے ہیں جو کان لگا کر تمہاری بات سنتے ہیں مگر حال یہ ہے کہ ہم نے ان کے دلوں پر پر دے ڈال رکھے ہیں جن کی وجہ سے وہ اس کو کچھ نہیں سمجھتے اور ان کے کانوں میں گرانی ڈال دی ہے ﴿کہ سب کچھ سننے پر بھی کچھ نہیں سنتے﴾17 ۔ وہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں ، اس پر ایمان لاکر نہ دیں گے ۔ حد یہ ہے کہ جب وہ تمہارے پاس آکر تم سے جھگڑتے ہیں تو ان میں سے جن لوگوں نے انکار کا فیصلہ کر لیا ہے وہ ﴿ساری باتیں سننے کے بعد﴾ یہی کہتے ہیں کہ یہ ایک داستانِ پارینہ کے سوا کچھ نہیں ۔ 18
اور ان میں کچھ وہ ( بھی ) ہیں جو آپ کی طرف کان لگائے رہتے ہیں اور ہم نے ان کے دلوں پر ( ان کی اپنی بدنیتی کے باعث ) پردے ڈال دیئے ہیں ( سو اب ان کے لئے ممکن نہیں ) کہ وہ اس ( قرآن ) کو سمجھ سکیں اور ( ہم نے ) ان کے کانوں میں ڈاٹ دے دی ہے ، اور اگر وہ تمام نشانیوں کو ( کھلا بھی ) دیکھ لیں تو ( بھی ) اس پر ایمان نہیں لائیں گے ۔ حتیٰ کہ جب آپ کے پاس آتے ہیں ، آپ سے جھگڑا کرتے ہیں ( اس وقت ) کافر لوگ کہتے ہیں کہ یہ ( قرآن ) پہلے لوگوں کی جھوٹی کہانیوں کے سوا ( کچھ ) نہیں
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :17 یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ قانون فطرت کے تحت جو کچھ دنیا میں واقع ہوتا ہے اسے اللہ تعالیٰ اپنی طرف منسوب فرماتا ہے ، کیونکہ دراصل اس قانون کا بنانے والا اللہ ہی ہے اور جو نتائج اس قانون کے تحت رونما ہوتے ہیں وہ سب حقیقت میں اللہ کے اذن و ارادہ کے تحت ہی رونما ہوا کرتے ہیں ۔ ہٹ دھرم منکرین حق کا سب کچھ سننے پر بھی کچھ نہ سننا اور داعی حق کی کسی بات کا ان کےدل میں نہ اترنا ان کی ہٹ دھرمی اور تعصب اور جمود کا فطری نتیجہ ہے ۔ قانون فطرت یہی ہے کہ جو شخص ضد پر اتر آتا ہے اور بے تعصبی کے ساتھ صداقت پسند انسان کا سا رویہ اختیار کرنے پر تیار نہیں ہوتا ، اس کے دل کے دروازے ہر اس صداقت کے لیے بند ہوجاتے ہیں جو اس کی خواہشات کے خلاف ہو ۔ اس بات کو جب ہم بیان کریں گے تو یوں کہیں گے کہ فلاں شخص کے دل کے دروازے بند ہیں ۔ اور اسی بات کو جب اللہ بیان فرمائے گا تو یوں فرمائے گا کہ اس کے دل کے دروازے ہم نے بند کر دیے ہیں ۔ کیونکہ ہم صرف واقعہ بیان کرتے ہیں اور اللہ حقیقت واقعہ کا اظہار فرماتا ہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :18 نادان لوگوں کا عموماً یہ قاعدہ ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص انہیں حق کی طرف دعوت دیتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ تم نے نئی بات کیا کہی ، یہ تو سب وہی پرانی باتیں ہیں جو ہم پہلے سے سنتے چلے آرہے ہیں ۔ گویا ان احمقوں کا نظریہ یہ ہے کہ کسی بات کے حق ہونے کے لیے اس کا نیا ہونا بھی ضروری ہے اور جو بات پرانی ہے وہ حق نہیں ہے ۔ حالانکہ حق ہر زمانے میں ایک ہی رہا ہے اور ہمیشہ ایک ہی رہے گا ۔ خدا کے دیے ہوئے علم کی بنا پر جو لوگ انسانوں کی رہنمائی کے لیے آگے بڑھے ہیں وہ سب قدیم ترین زمانہ سے ایک ہی امر حق کر پیش کرتے آئے ہیں اور آئندہ بھی جو اس منبع علم سے فائدہ اٹھا کر کچھ پیش کرے گا وہ اسی پرانی بات کو دہرائے گا ۔ البتہ نئی بات صرف وہی لوگ نکال سکتے ہیں جو خدا کی روشنی سے محروم ہو کر ازلی و ابدی حقیقت کو نہیں دیکھ سکتے اور اپنے ذہن کی اپچ سے کچھ نظریات گھڑ کر انہیں حق کے نام سے پیش کرتے ہیں ۔ اس قسم کے لوگ بلاشبہ ایسے نادرہ کار ہو سکتے ہیں کہ وہ بات کہیں جو ان سے پہلے کبھی دنیا میں کسی نے نہ کہی ہو ۔