Surah

Information

Surah # 6 | Verses: 165 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 55 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
وَلَوۡ تَرٰٓى اِذۡ وُقِفُوۡا عَلَى النَّارِ فَقَالُوۡا يٰلَيۡتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰيٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿27﴾
اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ دوزخ کے پاس کھڑے کئے جائیں تو کہیں گے ہائے کیا اچھی بات ہو کہ ہم پھر واپس بھیج دیئے جائیں اور اگر ایسا ہو جائے تو ہم اپنے رب کی آیات کو جھوٹا نہ بتلائیں اور ہم ایمان والوں میں سے ہوجائیں ۔
و لو ترى اذ وقفوا على النار فقالوا يليتنا نرد و لا نكذب بايت ربنا و نكون من المؤمنين
If you could but see when they are made to stand before the Fire and will say, "Oh, would that we could be returned [to life on earth] and not deny the signs of our Lord and be among the believers."
Aur agar aap uss waqt dekhen jab yeh dozakh kay pass kharay kiye jayen to kahen gay haaye kiya achi baat ho kay hum phir wapis bhej diye jayen aur agar aisa hojaye to hum apney rab ki aayaat ko jhoota na batlayen aur hum eman walon mein say hojayen.
اور ( بڑا ہولناک نظارہ ہوگا ) اگر تم وہ وقت دیکھو جب ان کو دوزخ پر کھڑا کیا جائے گا ، اور یہ کہیں گے : اے کاش ! ہمیں واپس ( دنیا میں ) بھیج دیا جائے ، تاکہ اس بار ہم اپنے پروردگار کی نشانیوں کو نہ جھٹلائیں اور ہمارا شمار مومنوں میں ہوجائے ۔
اور کبھی تم دیکھو جب وہ آگ پر کھڑے کئے جائیں گے تو کہیں گے کاش کسی طرح ہم واپس بھیجے جائیں ( ف٦۳ ) اور اپنے رب کی آیتیں نہ جھٹلائیں اور مسلمان ہوجائیں ،
کاش تم اس وقت کی حالت دیکھ سکتے جب وہ دوزخ کے کنارے کھڑے کیے جائیں گے ۔ اس وقت وہ کہیں گے کہ کاش کوئی صورت ایسی ہو کہ ہم دنیا میں پھر واپس بھیجے جائیں اور اپنے رب کی نشانیوں کو نہ جھٹلائیں اور ایمان لانے والوں میں شامل ہوں ۔
اگر آپ ( انہیں اس وقت ) دیکھیں جب وہ آگ ( کے کنارے ) پر کھڑے کئے جائیں گے تو کہیں گے: اے کاش! ہم ( دنیا میں ) پلٹا دیئے جائیں تو ( اب ) ہم اپنے رب کی آیتوں کو ( کبھی ) نہیں جھٹلائیں گے اور ایمان والوں میں سے ہو جائیں گے
کفار کا واویلا مگر سب بےسود کفار کا حال اور ان کا برا انجام بیان ہو رہا ہے کہ جب یہ جہنم کو وہاں کے طرح طرح کے عذابوں وہاں کی بدترین سزاؤں طوق و زنجیر کو دیکھ لیں گے اس وقت ہائے وائے مچائیں گے اور تمنا کریں گے کہ کیا اچھا ہو کہ دنیا کی طرف لوٹائے جائیں تاکہ وہاں جا کر نیکیاں کریں اللہ کی باتوں کو نہ جھٹلائیں اور پکے سچے موحد بن جائیں ، حقیقت یہ ہے کہ جس کفر و تکذیب کو اور سختی و بے ایمانی کو یہ چھپا رہے تھے وہ ان کے سامنے کھل گئی ، جیسے اس سے اوپر کی آیتوں میں گزرا کہ اپنے کفر کا تھوڑی دیر پہلے انکار تھا اب یہ تمنا گویا اس انکار کے بعد کا اقرار ہے اور اپنے جھوٹ کا خود اعتراف ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس سچائی کو دنیا میں چھپاتے رہے اسے آج کھول دیں گے ، چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے کہا تھا کہ تو بخوبی جانتا ہے کہ یہ تمام نشانیاں آسمان و زمین کے رب کی اتاری ہوئی ہیں ۔ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت ( وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ۭ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ ) 17 ۔ النمل:14 ) یعنی فرعونیوں کے دلوں میں تو کامل یقین تھا لیکن صرف اپنی بڑائی اور سنگدلی کی وجہ سے بہ بظاہر منکر تھے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد منافق ہوں جو ظاہرا مومن تھے اور دراصل کافر تھے اور یہ خبر جماعت کفار سے متعلق ہو ۔ اگرچہ منافقوں کا وجود مدینے میں پیدا ہوا لیکن اس عادت کے موجود ہونے کی خبر مکی سورتوں میں بھی ہے ۔ ملاحظہ ہو سورۃ عنکبوت جہاں صاف فرمان ہے آیت ( وَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَيَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ ) 29 ۔ العنکبوت:11 ) پس یہ منافقین دار آخرت میں عذابوں کو دیکھ لیں گے اور جو کفر و نفاق چھپا رہے تھے وہ آج ان پر ظاہر ہو جائیں گے ، واللہ اعلم ، اب ان کی تمنا ہو گی کاش کہ ہم دنیا کی طرف لوٹائے جائیں یہ بھی دراصل طمع ایمانی کی وجہ سے نہیں ہو گی بلکہ عذابوں سے چھوٹ جانے کے لئے ہو گی ، چنانچہ عالم الغیب اللہ فرماتا ہے کہ اگر یہ لوٹا دیئے جائیں جب بھی ان ہی نافرمانیوں میں پھر سے مشغول ہو جائیں گے ۔ ان کا یہ قول کہ وہ رغبت ایمان کر رہے ہیں اب بھی غلط ہے ۔ نہ یہ ایمان لائیں گے نہ جھٹلانے سے باز رہیں گے بلکہ لوٹنے کے بعد بھی وہی پہلا سبق رٹنے لگیں گے کہ بس اب تو یہی دنیا ہی زندگانی ہے ، دوسری زندگی اور آخرت کوئی چیز نہیں ۔ نہ مرنے کے بعد ہم اٹھائے جائیں گے ، پھر ایک اور حال بیان ہو رہا ہے کہ یہ اللہ عزوجل کے سامنے کھڑے ہو نگے ۔ اس وقت جناب باری ان سے فرمائے گا کہو اب تو اس کا سچا ہونا تم پر ثابت ہو گیا ؟ اب تو مان گئے کہ یہ غلط اور باطل نہیں؟ اس وقت سرنگوں ہو کر کہیں گے کہ ہاں اللہ کی قسم یہ بالکل سچ اور سراسر حق ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اب اپنے جھٹلانے اور نہ ماننے اور کفر و انکار کا خمیازہ بھگتو اور عذابوں کا مزہ چکھو ۔ بتاؤ جادو ہے یا تم اندھے ہو ۔