Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
ثُمَّ قَسَتۡ قُلُوۡبُكُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِكَ فَهِىَ كَالۡحِجَارَةِ اَوۡ اَشَدُّ قَسۡوَةً ‌ ؕ وَاِنَّ مِنَ الۡحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنۡهُ الۡاَنۡهٰرُ‌ؕ وَاِنَّ مِنۡهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخۡرُجُ مِنۡهُ الۡمَآءُ‌ؕ وَاِنَّ مِنۡهَا لَمَا يَهۡبِطُ مِنۡ خَشۡيَةِ اللّٰهِ‌ؕ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿74﴾
پھر اس کے بعد تمہارے دل پتھر جیسے بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہوگئے بعض پتھروں سے تو نہریں بہہ نکلتی ہیں ، اور بعض پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے ، اور بعض اللہ تعالیٰ کے ڈر سے گر گر پڑتے ہیں اور تم اللہ تعالٰی کو اپنے اعمال سے غافل نہ جانو ۔
ثم قست قلوبكم من بعد ذلك فهي كالحجارة او اشد قسوة و ان من الحجارة لما يتفجر منه الانهر و ان منها لما يشقق فيخرج منه الماء و ان منها لما يهبط من خشية الله و ما الله بغافل عما تعملون
Then your hearts became hardened after that, being like stones or even harder. For indeed, there are stones from which rivers burst forth, and there are some of them that split open and water comes out, and there are some of them that fall down for fear of Allah . And Allah is not unaware of what you do.
Phir iss kay baad tumharay dil pathar jaisay bulkay iss bhi ziyada sakhta hogaye baaz patharon say to nehren beh nikalti hain aur baaz phat jatay hain aur baaz Allah Taalaa kay darr say gir gir partay hain aur tum Allah Taalaa ko apney aemaal say ghafil na jano.
اس سب کے بعد تمہارے دل پھر سخت ہوگئے ، یہاں تک کہ وہ ایسے ہوگئے جیسے پتھر ! بلکہ سختی میں کچھ ان سے بھی زیادہ ۔ ( کیونکہ ) پتھروں میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے نہریں پھوٹ بہتی ہیں ، اور انہی میں سے کچھ وہ ہوتے ہیں جو خود پھٹ پڑتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے ، اور انہی میں وہ ( پتھر ) بھی ہیں جو اللہ کے خوف سے لڑھک جاتے ہیں ۔ ( ٥٤ ) ۔ اور ( اس کے برخلاف ) جو کچھ تم کر رہے ہو ، اللہ اس سے بے خبر نہیں ہے ۔
پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہوگئے ( ف۱۲٤ ) تو وہ پتھروں کی مثل ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ کرّے اور پتھروں میں تو کچھ وہ ہیں جن سے ندیاں بہہ نکلتی ہیں اور کچھ وہ ہیں جو پھٹ جاتے ہیں تو ان سے پانی نکلتا ہے اور کچھ وہ ہیں جو اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں ( ف۱۲۵ ) اور اللہ تمہارے کوتکوں سے بےخبر نہیں
مگر ایسی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی آخر کار تمھارے دل سخت ہو گئے ، پتھروں کی طرح سخت ، بلکہ سختی میں کچھ ان سے بھی بڑھے ہوئے ، کیونکہ پتھروں میں سےتو کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جس میں سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں ، کوئی پھٹتا ہے اور اس میں سے پانی نِکل آتا ہے ، اور کوئی خدا کے خوف سے لرز کر گر بھی پڑتا ہے ۔ اللہ تمھارے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے ۔
پھر اس کے بعد ( بھی ) تمہارے دل سخت ہوگئے چنانچہ وہ ( سختی میں ) پتھروں جیسے ( ہوگئے ) ہیں یا ان سے بھی زیادہ سخت ( ہو چکے ہیں ، اس لئے کہ ) بیشک پتھروں میں ( تو ) بعض ایسے بھی ہیں جن سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں ، اور یقیناً ان میں سے بعض وہ ( پتھر ) بھی ہیں جو پھٹ جاتے ہیں تو ان سے پانی ابل پڑتا ہے ، اور بیشک ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں ، ( افسوس! تمہارے دلوں میں اس قدر نرمی ، خستگی اور شکستگی بھی نہیں رہی ، ) اور اللہ تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں
پتھر دل لوگ اس آیت میں بنی اسرائیل کو زجر و توبیخ کی گئی ہے کہ اس قدر زبردست معجزے اور قدرت کی نشانیاں دیکھ کر پھر بھی بہت جلد تمہارے دل سخت پتھر بن گئے ۔ اسی لئے ایمان والوں کو اس طرح کی سختی سے روکا گیا اور کہا گیا آیت ( اَلَمْ يَاْنِ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ ۙ وَلَا يَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ ۭ وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ ) 57 ۔ الحدید:16 ) یعنی کیا اب تک وہ وقت نہیں آیا کہ ایمان والوں کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اللہ کے نازل کردہ حق سے کانپ اٹھیں؟ اور اگلے اہل کتاب کی طرح نہ ہو جائیں جن کے دل لمبا زمانہ گزرنے کے بعد سخت ہو گئے اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں ۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ اس مقتول کے بھتیجے نے اپنے چچا کے دوبارہ زندہ ہونے اور بیان دینے کے بعد جب مر گیا تو کہا کہ اس نے جھوٹ کہا اور پھر کچھ وقت گزر جانے کے بعد بنی اسرائیل کے دل پھر پتھر سے بھی زیادہ سخت ہو گئے کیونکہ پتھروں سے تو نہریں نکلتی اور بہنے لگتی ہیں بعض پتھر پھٹ جاتے ہیں ان سے چاہے وہ بہنے کے قابل نہ ہوں بعض پتھر خوف اللہ سے گر پڑتے ہیں لیکن ان کے دل کسی وعظ و نصیحت سے کسی پند و موعظت سے نرم ہی نہیں ہوتے ۔ یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پتھروں میں ادراک اور سمجھ ہے اور جگہ ہے آیت ( تُـسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ ۭ وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّايُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِيْحَهُمْ ۭ اِنَّهٗ كَانَ حَلِــيْمًا غَفُوْرًا ) 17 ۔ الاسرآء:44 ) یعنی ساتوں آسمان اور زمینیں اور ان کی تمام مخلوق اور ہر ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے لیکن تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو ۔ اللہ تعالیٰ حلم و بردباری والا اور بخشش و عفو والا ہے ۔ ابو علی جبانی نے پتھر کے خوف سے گر پڑنے کی تاویل اولوں کے برسنے سے کی ہے لیکن یہ ٹھیک نہیں رازی بھی غیر درست بتلاتے ہیں اور فی الواقع یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ اس میں لفظی معنی بےدلیل کو چھوڑنا لازم آیا ہے واللہ اعلم ۔ نہریں بہہ نکلنا زیادہ رونا ہے ۔ پھٹ جانا اور پانی کا نکلنا اس سے کم رونا ہے گر پڑنا دل سے ڈرنا بعض کہتے ہیں یہ مجازاً کہا گیا جیسے اور جگہ ہے یریدان ینقض یعنی دیوار گر پڑنا چاہ رہی تھی ۔ ظاہر ہے کہ یہ مجاز ہے ۔ حقیقتاً دیوار کا اردہ ہی نہیں ہوتا ۔ رازی قرطبی وغیرہ کہتے ہیں ایسی تاویلوں کی کوئی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ جو صفت جس چیز میں چاہے پیدا کر سکتا ہے دیکھئے اس کا فرمان ہے آیت ( اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْاِنْسَانُ ) 33 ۔ الاحزاب:72 ) یعنی ہم نے امانت کو آسمانوں زمینوں اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا انہوں نے اس کے اٹھانے سے مجبوری ظاہر کی اور ڈر گئے اور آیت گزر چکی کہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے اور جگہ ہے آیت ( والنجم والشجر یسجدان یعنی اکاس بیل اور درخت اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں اور فرمایا یتقیاظلالہ الخ اور فرمایا آیت ( قَالَتَآ اَتَيْنَا طَاۗىِٕعِيْنَ ) 41 ۔ فصلت:11 ) زمین و آسمان نے کہا ہم خوشی خوشی حاضر ہیں اور جگہ ہے کہ پہاڑ بھی قرآن سے متاثر ہو کر ڈر کے مارے پھٹ پھٹ جاتے اور جگہ فرمان ہے آیت ( وقالوا لجلودھم ) یعنی گناہ گار لوگ اپنے جسموں سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف شہادت کیوں دی؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم سے اس اللہ نے بات کرائی جو ہر چیز کو بولنے کی طاقت عطا فرماتا ہے ایک صحیح حدیث میں ہے کہ احد پہاڑ کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت رکھتے ہیں ایک اور حدیث میں ہے کہ جس کھجور کے تنے پر ٹیک لگا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ پڑھا کرتے تھے جب منبر بنا اور وہ تنا ہٹا دیا گیا تو وہ تنا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں مکہ کے اس پتھر کو پہچانتا ہوں جو میری نبوت سے پہلے مجھے سلام کیا کرتا تھا حجر اسود کے بارے میں ہے کہ جس نے اسے حق کے ساتھ بوسہ دیا ہو گا یہ اس کے ایمان کی گواہی قیامت والے دن دے گا اور اس طرح کی بہت سی آیات اور حدیثیں ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان چیزوں میں ادراک و حس ہے اور یہ تمام باتیں حقیقت پر محمول ہیں نہ کہ مجاز پر ۔ آیت میں لفظ او جو ہے اس کی بابت قرطبی اور رازی تو کہتے ہیں کہ یہ تبخیر کے لئے ہے یعنی ان کے دلوں کو خواہ جیسے پتھر سمجھ لو یا اس سے بھی زیادہ سخت ۔ رازی نے ایک وجہ یہ بھی بیان کی ہے کہ یہ ابہام کے لئے ہے گویا مخاطب کے سامنے باوجود ایک بات کا پختہ علم ہونے کے دو چیزیں بطور ابہام پیش کی جا رہی ہیں ۔ بعض کا قول ہے کہ مطلب یہ ہے کہ بعض دل پتھر جیسے اور بعض اس سے زیادہ سخت ہیں واللہ اعلم ۔ اس لفظ کے جو معنی یہاں پر ہیں وہ بھی سن لیجئے اس پر تو اجماع ہے کہ آؤ شک کے لئے نہیں یا تو یہ معنی میں واو کے ہے یعنی اس کے دل پتھر جیسے اور اس سے بھی زیادہ سخت ہو گئے جیسے آیت ( وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ اٰثِمًا اَوْ كَفُوْرًا ) 76 ۔ الانسان:24 ) میں اور آیت ( عذرا اور نذرا ) میں شاعروں کے اشعار میں اور واؤ کے معنی میں جمع کے لئے آیا ہے یا او یہاں پر معنی میں بل یعنی بلکہ کے ہے جیسے آیت ( كَخَشْيَةِ اللّٰهِ اَوْ اَشَدَّ خَشْـيَةً ) 4 ۔ النسآء:77 ) میں اور آیت ( وَاَرْسَلْنٰهُ اِلٰى مِائَةِ اَلْفٍ اَوْ يَزِيْدُوْنَ ) 37 ۔ الصافات:147 ) میں اور آیت ( فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى ) 53 ۔ النجم:9 ) میں بعض کا قول ہے کہ مطلب یہ ہے کہ وہ پتھر جیسے ہیں یا سختی میں تمہارے نزدیک اس سے بھی زیادہ بعض کہتے ہیں صرف مخاطب پر ابہام ڈالا گیا ہے اور یہ شاعروں کے شعروں میں بھی پایا جاتا ہے کہ باوجود پختہ علم و یقین کے صرف مخاطب پر ابہام ڈالنے کے لئے ایسا کلام کرتے ہیں قرآن کریم میں اور جگہ ہے آیت ( وَاِنَّآ اَوْ اِيَّاكُمْ لَعَلٰى هُدًى اَوْ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ ) 34 ۔ سبأ:24 ) یعنی ہم یا تم صاف ہدایت یا کھلی گمراہی پر ہیں تو ظاہر ہے کہ مسلمانوں کا ہدایت پر ہونا اور کفار کا گمراہی پر ہونا یقینی چیز ہے لیکن مخاطب کے ابہام کے لئے اس کے سامنے کلام مبہم بولا گیا ۔ یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ تمہارے دل ان دو سے خارج نہیں یا تو وہ پتھر جیسے ہیں یا اس سے بھی زیادہ سخت یعنی بعض ایسے اس قول کے مطابق یہ بھی ہے آیت ( كَمَثَلِ الَّذِى اسْـتَوْقَدَ نَارًا ) 2 ۔ البقرۃ:17 ) پھر فرمایا آیت ( او کصیب ) اور فرمایا ہے کسراب پھر فرمایا آیت ( او کظلمات ) مطلب یہی ہے کہ بعض ایسے اور بعض ایسے واللہ اعلم ۔ تفسیر ابن مردویہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کے ذکر کے سوا زیادہ باتیں نہ کیا کرو کیونکہ کلام کی کثرت دل کو سخت کر دیتی ہے اور سخت دل والا اللہ سے بہت دور ہو جاتا ہے امام ترمذی نے بھی اس حدیث کو بیان فرمایا ہے اور اس کے ایک طریقہ کو غریب کہا ہے بزار میں حضرت انس سے مرفوعاً روایت ہے کہ چار چیزیں بدبختی اور شقاوت کی ہیں خوف اللہ سے آنکھوں سے آنسو نہ بہنا ۔ دل کا سخت ہو جانا ۔ امیدوں کا بڑھ جانا ۔ لالچی بن جانا ۔