Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
اَفَتَطۡمَعُوۡنَ اَنۡ يُّؤۡمِنُوۡا لَـكُمۡ وَقَدۡ كَانَ فَرِيۡقٌ مِّنۡهُمۡ يَسۡمَعُوۡنَ کَلَامَ اللّٰهِ ثُمَّ يُحَرِّفُوۡنَهٗ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا عَقَلُوۡهُ وَهُمۡ يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿75﴾
۔ ( مسلمانو! ) کیا تمہاری خواہش ہے کہ یہ لوگ ایماندار بن جائیں حالانکہ ان میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جو کلام اللہ کو سن کر عقل و علم والے ہوتے ہوئے پھر بھی بدل ڈالا کرتے ہیں ۔
افتطمعون ان يؤمنوا لكم و قد كان فريق منهم يسمعون كلم الله ثم يحرفونه من بعد ما عقلوه و هم يعلمون
Do you covet [the hope, O believers], that they would believe for you while a party of them used to hear the words of Allah and then distort the Torah after they had understood it while they were knowing?
( musalmano! ) kiya tumhari khuwaish hai kay yeh log eman daar bann jayen halankay inn mein aisay log bhi hain jo kalam ullah ko sunn ker aqal-o-ilm walay hotay huye phir bhi badal dala kertay hain.
۔ ( مسلمانو ! ) کیا اب بھی تمہیں یہ لالچ ہے کہ یہ لوگ تمہارے کہنے سے ایمان لے آئیں گے؟ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کے لوگ اللہ کا کلام سنتے تھے ، پھر اس کو اچھی طرح سمجھنے کے بعد بھی جانتے بوجھتے اس میں تحریف کر ڈالتے تھے ۔
تو اے مسلمانو! کیا تمہیں یہ طمع ہے کہ یہ ( یہودی ) تمہارا یقین لائیں گے اور ان میں کا تو ایک گروہ وه تھا کہ اللہ کا کلام سنتے پھر سمجھنے کے بعد اسے دانستہ بدل دیتے ، ( ف۱۲٦ )
اے مسلمانو! اب کیا ان لوگوں سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ یہ تمھاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے86 ؟ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی ۔ 87
۔ ( اے مسلمانو! ) کیا تم یہ توقع رکھتے ہو کہ وہ ( یہودی ) تم پر یقین کر لیں گے جبکہ ان میں سے ایک گروہ کے لوگ ایسے ( بھی ) تھے کہ اللہ کا کلام ( تورات ) سنتے پھر اسے سمجھنے کے بعد . ( خود ) بدل دیتے حالانکہ وہ خوب جانتے تھے ( کہ حقیقت کیا ہے اور وہ کیا کر رہے ہیں )
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :86 یہ خطاب مدینے کے ان نَو مسلموں سے ہے جو قریب کے زمانے ہی میں نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے ۔ ان لوگوں کے کان میں پہلے سے نبوّت ، کتاب ، ملائکہ ، آخرت ، شریعت وغیرہ کی جو باتیں پڑی ہوئی تھیں ، وہ سب انہوں نے اپنے ہمسایہ یہودیوں ہی سے سُنی تھیں ۔ اور یہ بھی انہوں نے یہودیوں ہی سے سُنا تھا کہ دنیا میں ایک پیغمبر اور آنے والے ہیں ، اور یہ کہ جو لوگ ان کا ساتھ دیں گے وہ ساری دنیا پر چھا جائیں گے ۔ یہی معلومات تھیں جن کی بنا پر اہل مدینہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوّت کا چرچا سُن کر آپ ؐ کی طرف خود متوجہ ہوئے اور جُوق در جُوق ایمان لائے ۔ اب وہ متوقع تھے کہ جو لوگ پہلے ہی سے انبیا اور کُتب آسمانی کے پیرو ہیں اور جن کی دی ہوئی خبروں کی بدولت ہی ہم کو نعمتِ ایمان میسّر ہوئی ہے ، وہ ضرور ہمارا ساتھ دیں گے ، بلکہ اس راہ میں پیش پیش ہوں گے ۔ چنانچہ یہی توقعات لے کر یہ پُر جوش نَو مسلم اپنے یہودی دوستوں اور ہمسایوں کے پاس جاتے تھے اور ان کو اسلام کی دعوت دیتے تھے ۔ پھر جب وہ اس دعوت کا جواب انکار سے دیتے تو منافقین اور مخالفینِ اسلام اس سے یہ استدلال کرتے تھے کہ معاملہ کچھ مشتبہ معلوم ہوتا ہے ، ورنہ اگر یہ واقعی نبی ہوتے تو آخر کیسے ممکن تھا کہ اہل کتاب کے علما اور مشائخ اور مقدس بزرگ جانتے بُوجھتے ایمان لانے سے منہ موڑتے اور خواہ مخواہ اپنی عاقبت خراب کر لیتے ۔ اس بنا پر بنی اسرائیل کی تاریخی سرگزشت بیان کرنے کے بعد اب ان سادہ دل مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ جن لوگوں کی سابق روایات یہ کچھ رہی ہیں ان سے تم کچھ بہت زیادہ لمبی چوڑی توقعات نہ رکھو ، ورنہ جب ان کے پتھر دلوں سے تمہاری دعوت حق ٹکرا کر واپس آئے گی ، تو دل شکستہ ہو جاؤ گے ۔ یہ لوگ تو صدیوں کے بگڑے ہوئے ہیں ۔ اللہ کی جن آیات کو سُن کر تم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے ، انہی سے کھیلتے اور تمسخر کرتے ان کی نسلیں بیت گئی ہیں ۔ دین حق کو مسخ کر کے یہ اپنی خواہشات کے مطابق ڈھال چکے ہیں اور اسی مسخ شدہ دین سے یہ نجات کی اُمیدیں باندھے بیٹھے ہیں ۔ ان سے یہ توقع رکھنا فضول ہے کہ حق کی آواز بلند ہوتے ہی یہ ہر طرف سے دَوڑے چلے آئیں گے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :87 ”ایک گروہ“ سے مراد ان کے علما اور حاملینِ شریعت ہیں ۔ ” کلام اللہ“ سے مراد تورات ، زَبور اور وہ دُوسری کتابیں ہیں جو ان لوگوں کو ان کے انبیا کے ذریعے سے پہنچیں ۔ ”تحریف “ کا مطلب یہ ہے کہ بات کو اصل معنی و مفہُوم سے پھیر کر اپنی خواہش کے مطابق کچھ دُوسرے معنی پہنا دینا ، جو قائل کے منشا کے خلاف ہوں ۔ نیز الفاظ میں تغیّر و تبدّل کرنے کو بھی تحریف کہتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ علماء بنی اسرائیل نے یہ دونوں طرح کی تحریفیں کلام الہٰی میں کی ہیں ۔
یہودی کردار کا تجزیہ اس گمراہ قوم یہود کے ایمان سے اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو ناامید کر رہے ہیں جب ان لوگوں نے اتنی بڑی نشانیاں دیکھ کر بھی اپنے دل سخت پتھر جیسے بنا لئے اللہ تعالیٰ کے کلام کو سن کر سمجھ کر پھر بھی اس کی تحریف اور تبدیلی کر ڈالی تو ان سے تم کیا امید رکھتے ہو؟ ٹھیک اس آیت کی طرح اور جگہ فرمایا ( فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّيْثَاقَهُمْ لَعَنّٰهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَهُمْ قٰسِـيَةً ) 5 ۔ المائدہ:13 ) یعنی ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دل سخت کر دئے یہ اللہ کے کلام کو رد و بدل کر ڈالا کرتے تھے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہاں اللہ تعالیٰ نے کلام اللہ سننے کو فرمایا اس سے مراد حضرت موسیٰ کے صحابیوں کی وہ جماعت ہے جنہوں نے آپ سے اللہ کا کلام اپنے کانوں سے سننے کی درخواست کی تھی اور جب وہ پاک صاف ہو کر روزہ رکھ کر حضرت موسیٰ کے ساتھ طور پہاڑ پر پہنچ کر سجدے میں گر پڑے تو اللہ تعالیٰ نے انیں اپنا کلام سنایا جب یہ واپس آئے اور نبی اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا یہ کلام بنی اسرائیل میں بیان کرنا شروع کیا تو ان لوگوں نے اس کی تحریف اور تبدیلی شروع کر دی ۔ سدی فرماتے ہیں ان لوگوں نے توراۃ میں تحریف کی تھی یہی عام معنی ٹھیک ہیں جس میں وہ لوگ بھی شامل ہو جائیں گے اور اس بدخصلت والے دوسرے یہودی بھی ۔ قرآن میں ہے فاجرہ حتی یسمع کلام اللہ یعنی مشرکوں میں سے کوئی اگر تجھ سے پناہ طلب کرے تو تو اسے پناہ دے یہاں تک کہ وہ کلام اللہ سن لے تو اس سے یہ مراد نہیں کہ اللہ کا کلام اپنے کانوں سے سنے بلکہ قرآن سنے تو یہاں بھی کلام اللہ سے مراد توراۃ ہے ۔ یہ تحریف کرنے والے اور چھپانے والے ان کے علماء تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جو اوصاف ان کی کتاب میں تھے ان سب میں انہو نے تاویلیں کر کے اصل مطلب دور کر دیا تھا اسی طرح حلال کو حرام ، حرام کو حلال ، حق کو باطل ، باطل کو حق لکھ دیا کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے آیت ( وَقَالَتْ طَّاۗىِٕفَةٌ مِّنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ اٰمِنُوْا بِالَّذِيْٓ اُنْزِلَ عَلَي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوْٓا اٰخِرَهٗ لَعَلَّھُمْ يَرْجِعُوْنَ ) 3 ۔ آل عمران:72 ) یعنی اہل کتاب کی ایک جماعت نے کہا ایمان والوں پر جو اترا ہے اس پر دن کے شروع حصہ میں ایمان لاؤ پھر آخر میں کفر کرو تاکہ خود ایمان والے بھیاس دین سے پھر جائیں ۔ یہ لوگ اس فریب سے یہاں کے راز معلوم کرنا اور انہیں اپنے والوں کو بتانا چاہتے تھے اور مسلمانوں کو بھی گمراہ کرنا چاہتے تھے مگر ان کی یہ چالاکی نہ چلی اور یہ راز اللہ نے کھول دیا جب یہ یہاں ہوتے اور اپنا ایمان اسلام و ظاہر کرتے تو صحابہان سے پوچھتے کیا تمہاری کتاب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت وغیرہ نہیں؟ وہ اقرار کرتے ۔ جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے تو وہ انہیں ڈانٹتے اور کہتے اپنی باتیں ان سے کہہ کر کیوں ان کی اپنی مخالفت کے ہاتھوں میں ہتھیار دے رہے ہو؟ مجاہد فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قریظہ والے دن یہودیوں کے قلعہ تلے کھڑے ہو کر فرمایا اے بندر اور خنزیر اور طاغوت کے کے عابدوں کے بھائیو! تو وہ آپس میں کہنے لگے یہ ہمارے گھر کی باتیں انہیں کس نے بتا دیں خبردار اپنی آپس کی خبریں انہیں نہ دو ورنہ انہیں اللہ کے سامنے تمہارے خلاف دلائل میسر آ جائیں گے اب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ گو تم چھپاؤ لیکن مجھ سے تو کوئی چیز چھپ نہیں سکتی تم جو چپکے چپکے اپنوں سے کہتے ہو کہ اپنی باتیں ان تک نہ پہنچاؤ اور اپنی کتاب کی باتیں کو چھپاتے ہو تو میں تمھارے اس برے کام سے بخوبی آگاہ ہوں ۔ تم جو اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہو ۔ تمہارے اس اعلان کی حقیقت کا علم بھی مجھے اچھی طرح ہے ۔