Surah

Information

Surah # 6 | Verses: 165 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 55 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
وَ قَالُوۡا لَوۡلَا نُزِّلَ عَلَيۡهِ اٰيَةٌ مِّنۡ رَّبِّهٖ‌ؕ قُلۡ اِنَّ اللّٰهَ قَادِرٌ عَلٰٓى اَنۡ يُّنَزِّلَ اٰيَةً وَّلٰـكِنَّ اَكۡثَرَهُمۡ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿37﴾
اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ ان پر کوئی معجزہ کیوں نہیں نازل کیا گیا ان کے رب کی طرف سے آپ فرما دیجئے کہ اللہ تعالٰی کو بے شک پوری قدرت ہے اس پر کہ وہ معجزہ نازل فرما دے لیکن ان میں اکثر بے خبر ہیں ۔
و قالوا لو لا نزل عليه اية من ربه قل ان الله قادر على ان ينزل اية و لكن اكثرهم لا يعلمون
And they say, "Why has a sign not been sent down to him from his Lord?" Say, "Indeed, Allah is Able to send down a sign, but most of them do not know."
Aur yeh log kehtay hain kay inn per koi moajza kiyon nahi nazil kiya gaya inn kay rab ki taraf say aap farma dijiye kay Allah Taalaa ko bey shak poori qudrat hai iss per kay woh moajza nazil farma dey lekin inn mein aksar bey khabar hain.
یہ لوگ کہتے ہیں کہ ( اگر یہ نبی ہیں تو ) ان پر ان کے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں اتاری گئی؟ تم ( ان سے ) کہو کہ اللہ بیشک اس بات پر قادر ہے کہ کوئی نشانی نازل کردے ، لیکن ان میں سے ا کثر لوگ ( اس کا انجام ) نہیں جانتے ۔ ( ١١ )
اور بولے ( ف۸٤ ) ان پر کوئی نشانی کیوں نہ اتری ان کے رب کی طرف سے ( ف۸۵ ) تم فرماؤ کہ اللہ قادر ہے کہ کوئی نشانی اتارے لیکن ان میں بہت نرے ( بالکل ) جاہل ہیں ( ف۸٦ )
یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس نبی پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں اتری؟ کہو ، اللہ نشانی اتارنے کی پوری قدرت رکھتا ہے ، مگر ان میں سے اکثر لوگ نادانی میں مبتلا ہیں ۔ 26
اور انہوں نے کہا کہ اس ( رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پراس کے رب کی طرف سے ( ہروقت ساتھ رہنے والی ) کوئی نشانی کیوں نہیں اتاری گئی؟ فرما دیجئے: بیشک اﷲ اس بات پر ( بھی ) قادر ہے کہ وہ ( ایسی ) کوئی نشانی اتار دے لیکن ان میں سے اکثر لوگ ( اس کی حکمتوں کو ) نہیں جانتے
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :25 سننے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے ضمیر زندہ ہیں ، جنہوں نے اپنی عقل و فکر کو معطل نہیں کر دیا ہے ، اور جنھوں نے اپنے دل کے دروازوں پر تعصب اور جمود کے قفل نہیں چڑھا دیے ہیں ۔ ان کے مقابلہ میں مردہ وہ لوگ ہیں جو لکیر کے فقیر بنے اندھوں کی طرح چلے جا رہے ہیں اور اس لکیر سے ہٹ کر کوئی بات قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ، خواہ وہ صریح حق ہی کیوں نہ ہو ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :26 نشانی سے مراد محسوس معجزہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ معجزہ نہ دکھائے جانے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہم اس کو دکھانے سے عاجز ہیں بلکہ اس کی وجہ کچھ اور ہے جسے یہ لوگ محض اپنی نادانی سے نہیں سمجھتے ۔
معجزات کے عدم اظہار کی حکمت کافر لوگ بطور اعتراض کہا کرتے تھے کہ جو معجزہ ہم طلب کرتے ہیں یہ کیوں نہیں دکھاتے ؟ مثلاً عرب کی کل زمین میں چشموں اور آبشاروں کا جاری ہو جانا وغیرہ ، فرماتا ہے کہ قدرت الٰہی سے تو کوئی چیز باہر نہیں لیکن اس وقت حکمت الہیہ کا تقاضا یہ نہیں ۔ اس میں ایک ظاہری حکمت تو یہ ہے کہ تمہارے چاہے ہوئے معجزے کو دیکھ لینے کے بعد بھی اگر تم ایمان نہ لائے تو اصول الہیہ کے مطابق تم سب کو اسی جگہ ہلاک کر دیا جائے گا جیسے تم سے اگلے لوگوں کے ساتھ ہوا ، ثمودیوں کی نظیر تمہارے سامنے موجود ہے ہم تو جو چاہیں نشان بھی دکھا سکتے ہیں اور جو چاہیں عذاب بھی کر سکتے ہیں ، چرنے چگنے والے جانور اڑنے والے پرند بھی تمہاری طرح قسم قسم کے ہیں مثلاً پرند ایک امت ، انسان ایک امت ، جنات ایک امت وغیرہ ، یا یہ کہ وہ بھی سب تمہاری ہی طرح مخلوق ہیں ، سب پر اللہ کا علم محیط ہے ، سب اس کی کتاب میں لکھے ہوئے ہیں ، نہ کسی کا وہ رزق بھولے نہ کسی کی حاجت اٹکے نہ کسی کی حسن تدبیر سے وہ غافل خشکی تری کا ایک ایک جاندار اس کی حفاظت میں ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّهَا وَمُسْـتَوْدَعَهَا ۭ كُلٌّ فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ ) 11 ۔ ہود:6 ) یعنی جتنے جاندار زمین پر چلتے پھرتے ہیں سب کی روزیاں اللہ کے ذمہ ہیں وہی ان کے جیتے جی کے ٹھکانے کو اور مرنے کے بعد سونپے جانے کے مقام کو بخوبی جانتا ہے اس کے پاس لوح محفوظ میں یہ سب کچھ درج بھی ہے ، ان کے نام ، ان کی گنتی ، ان کی حرکات و سکنات سب سے وہ واقف ہے اس کے وسیع علم سے کوئی چیز خارج اور باہر نہیں اور مقام پر ارشاد ہے آیت ( وَكَاَيِّنْ مِّنْ دَاۗبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا ٤اَللّٰهُ يَرْزُقُهَا وَاِيَّاكُمْ ڮ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ) 29 ۔ العنکبوت:60 ) بہت سے وہ جاندار ہیں جن کی روزی تیرے ذمہ نہیں انہیں اور تم سب کو اللہ ہی روزیاں دیتا ہے وہ باریک آواز کو سننے والا ہے اور ہر چھوٹی بڑی چیز کا جاننے والا ہے ، ابو یعلی میں حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر کی دو سال کی خلافت کے زمانہ میں سے ایک سال ٹڈیاں دکھائی ہی نہیں دیں تو آپ کو بہت خیال ہوا اور سام عراق یمن وغیرہ کی طرف سوار دوڑائے کہ دریافت کر آئیں کہ ٹڈیاں اس سال کہیں نظر بھی پڑیں یا نہیں؟ یمن و الا قاصد جب واپس آیا تو آپ نے ساتھ مٹھی بھر ٹڈیاں بھی لیتا آیا اور حضرت فاروق اعظم کے سامنے ڈال دیں آپ نے انہیں دیکھ کر تین مرتبہ تکبیر کہی اور فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اللہ عزوجل نے ایک ہزار امتیں پیدا کی ہیں جن میں سے چھ سو تری میں ہیں اور چار سو خشکی میں ۔ ان تمام امتوں میں سے سب سے پہلے ٹڈی ہلاک ہو گی اس کے بعد تو ہلاک ہو گی اس کے بعد تو ہلاکت کا سلسلہ شروع ہو جائے گا بالکل اس طرح جیسے کسی تسبیح کا دھاگہ ٹوٹ گیا اور موتی یکے بعد دیگرے جھڑنے لگ گئے ، پھر فرماتا ہے سب کا حشر اللہ کی طرف ہے یعنی سب کو مت ہے ، چوپایوں کی موت ہی ان کا حشر ہے ، ایک قول تو یہ ہے ، دوسرا قول یہ ہے کہ میدان محشر میں بروز قیامت یہ بھی اللہ جل شانہ کے سامنے جمع کئے جائیں گے جیسے فرمایا آیت ( وَاِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ ) 81 ۔ التکویر:5 ) مسند احمد میں ہے کہ دو بکریوں کو آپس میں لڑتے ہوئے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر سے دریافت فرمایا کہ جانتے ہو یہ کیوں لڑ رہی ہیں؟ جواب ملا کہ میں کیا جانوں؟ فرمایا لیکن اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور ان کے درمیان وہ فیصلہ بھی کرے گا ، ابن جریر کی ایک اور روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ اڑنے والے ہر ایک پرند کا علم بھی ہمارے سامنے بیان کیا گیا ہے ، مسند کی اور روایت میں ہے کہ بےسینگ بکری قیامت کے دن سینگ والی بکری سے اپنا بدلہ لے گی ۔ حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ تمام مخلوق چوپائے بہائم پرند وغیرہ غرض تمام چیزیں اللہ کے سامنے حاضر ہوں گی ۔ پھر ان میں یہاں تک عدل ہو گا کہ بےسینگ والی بکری کو اگر سینگ والی بکری نے مارا ہو گا تو اس کا بھی بدلہ دلوایا جائے گا پھر ان سے جناب باری فرمائے گا تم مٹی ہو جاؤ ۔ اس وقت کافر بھی یہی آرزو کریں گے کہ کاش ہم بھی مٹی ہو جاتے ۔ صور والی حدیث میں یہ مرفوعاً بھی مروی ہے ۔ پھر کافروں کی مال بیان کی گئی ہے کہ وہ اپنی کم علمی اور کج فہمی میں ان بہروں گونگوں کے مثل ہیں جو اندھیروں میں ہوں ۔ بتاؤ تو وہ کیسے راہ راست پر آ سکتے ہیں؟ نہ کسی کی سنیں نہ اپنی کہیں نہ کچھ دیکھ سکیں ۔ جیسے سورہ بقرہ کی ابتداء میں ہے کہ ان کی مثال اس شخص جیسی ہے جو آگ سلگائے جب آس پاس کی چیزیں اس پر روشن ہو جائیں اس وقت آگ بجھ جائے اور وہ اندھیریوں میں رہ جائے اور کچھ نہ دیکھ سکے ۔ ایسے لوگ بہرے گونگے اندھے ہیں وہ راہ راست کی طرف لوٹ نہیں سکتے اور آیت میں ہے آیت ( اَوْ كَظُلُمٰتٍ فِيْ بَحْرٍ لُّـجِّيٍّ يَّغْشٰـىهُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ سَحَابٌ ۭ ظُلُمٰتٌۢ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ ) 24 ۔ النور:40 ) یعنی مثل ان اندھیروں کے جو گہرے سمندر میں ہوں جس کی موجوں پر موجیں اٹھ رہی ہوں اور اوپر سے ابر چھایا ہو اندھیروں پر اندھیریاں ہوں کہ ہاتھ بھی نظر نہ آ سکے ۔ جسے قدرت نے نور نہیں بخشا وہ بےنور ہے ۔ پھر فرمایا ساری مخلوق میں اللہ ہی کا تصرف ہے وہ جسے چاہے صراط مستقیم پر کر دے ۔