Surah

Information

Surah # 6 | Verses: 165 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 55 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدۡرِهٖۤ اِذۡ قَالُوۡا مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ عَلٰى بَشَرٍ مِّنۡ شَىۡءٍ ؕ قُلۡ مَنۡ اَنۡزَلَ الۡـكِتٰبَ الَّذِىۡ جَآءَ بِهٖ مُوۡسٰى نُوۡرًا وَّ هُدًى لِّلنَّاسِ‌ تَجۡعَلُوۡنَهٗ قَرَاطِيۡسَ تُبۡدُوۡنَهَا وَتُخۡفُوۡنَ كَثِيۡرًا‌ ۚ وَعُلِّمۡتُمۡ مَّا لَمۡ تَعۡلَمُوۡۤا اَنۡتُمۡ وَلَاۤ اٰبَآؤُكُمۡ‌ؕ قُلِ اللّٰهُ‌ۙ ثُمَّ ذَرۡهُمۡ فِىۡ خَوۡضِهِمۡ يَلۡعَبُوۡنَ‏ ﴿91﴾
اور ان لوگوں نے اللہ کی جیسی قدر کرنا واجب تھی ویسی قدر نہ کی جب کہ یوں کہہ دیا کہ اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز نازل نہیں کی آپ یہ کہئے کہ وہ کتاب کس نے نازل کی ہے جس کو موسیٰ لائے تھے جس کی کیفیت یہ ہے کہ وہ نور ہے اور لوگوں کے لئے وہ ہدایت ہے جس کو تم نے ان متفرق اوراق میں رکھ چھوڑا ہے جن کو ظاہر کرتے ہو اور بہت سی باتوں کو چھپاتے ہو اور تم کو بہت سی ایسی باتیں بتائی گئی ہیں جن کو تم نہ جانتے تھے اور نہ تمہارے بڑے ۔ ۔ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ نے نازل فرمایا ہے پھر ان کو ان کے خرافات میں کھیلتے رہنے دیجئے ۔
و ما قدروا الله حق قدره اذ قالوا ما انزل الله على بشر من شيء قل من انزل الكتب الذي جاء به موسى نورا و هدى للناس تجعلونه قراطيس تبدونها و تخفون كثيرا و علمتم ما لم تعلموا انتم و لا اباؤكم قل الله ثم ذرهم في خوضهم يلعبون
And they did not appraise Allah with true appraisal when they said, " Allah did not reveal to a human being anything." Say, "Who revealed the Scripture that Moses brought as light and guidance to the people? You [Jews] make it into pages, disclosing [some of] it and concealing much. And you were taught that which you knew not - neither you nor your fathers." Say, " Allah [revealed it]." Then leave them in their [empty] discourse, amusing themselves.
Aur inn logon ney Allah ki jaisi qadar kerna wajib thi wesi qadar na ki jab kay yun keh diya kay Allah ney kiss bashar per koi cheez nazil nahi ki aap yeh kahiye kay woh kitab kiss ney nazil ki hai jiss ko musa laye thay jiss ki keyfiyat yeh hai kay woh noor hai aur logon kay liye woh hidayat hai jiss ko tum ney inn mutafarriq oraaq mein rakh chora hai jin ko zahir kertay ho aur boht si baaton ko chupatay ho aur tum ko boht si aisi baaten bataee gaee hain jin ko na tum jantay thay aur na tumharay baray. Aap keh dijiye kay Allah ney nazil farmaya hai phir inn ko inn kay kharafaat mein kheltay rehney dijiye.
اور ان ( کافر ) لوگوں نے جب یہ کہا کہ اللہ نے کسی انسان پر کچھ نازل نہیں کیا تو انہوں نے اللہ کی صحیح قدر نہیں پہچانی ۔ ( ٣٣ ) ( ان سے ) کہو کہ : وہ کتاب کس نے نازل کی تھی جو موسیٰ لے کر آئے تھے ، جو لوگوں کے لیے روشنی اور ہدایت تھی ، اور جس کو تم نے متفرق کاغذوں کی شکل میں رکھا ہوا ہے ۔ ( ٣٤ ) جن ( میں سے کچھ ) کو تم ظاہر کرتے ہو ، اور بہت سے حصے چھپا لیتے ہو ، اور ( جس کے ذریعے ) تم کو ان باتوں کی تعلیم دی گئی تھی جو نہ تم جانتے تھے ، نہ تمہارے باپ دادا؟ ( اے پیغمبر ! تم خود ہی اس سوال کے جواب میں ) اتنا کہہ دو کہ : وہ کتاب اللہ نے نازل کی تھی ۔ پھر ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو کہ یہ اپنی بے ہودہ گفتگو میں مشغول رہ کر دل لگی کرتے رہیں ۔
اور یہود نے اللہ کی قدر نہ جانی جیسی چاہیے تھی ( ف۱۸۱ ) جب بولے اللہ نے کسی آدمی پر کچھ نہیں اتارا ، تم فرماؤ کس نے اتاری وہ کتاب جو موسیٰ لائے تھے روشنی اور لوگوں کے لیے ہدایت جس کے تم نے الگ الگ کاغذ بنالیے ظاہر کرتے ہو ( ف۱۸۲ ) اور بہت سے چھپالیتے ہو ( ف۱۸۳ ) اور تمہیں وہ سکھایا جاتا ہے ( ف۱۸٤ ) جو نہ تم کو معلوم تھا نہ تمہارے باپ دادا کو ، اللہ کہو ( ف۱۸۵ ) پھر انہیں چھوڑ دو ان کی بیہودگی میں انہیں کھیلتا ( ف۱۸٦ )
ان لوگوں نے اللہ کا بہت غلط اندازہ لگایا جب کہا کہ اللہ نے کسی بشر پر کچھ نازل نہیں کیا ہے ۔ 59 ان سے پوچھو ، پھر وہ کتاب جسے موسیٰ ( علیہ السلام ) لایا تھا ، جو تمام انسانوں کے لیے روشنی اور ہدایت تھی ، جسے تم پارہ پارہ کر کے رکھتے ہو ، کچھ دکھاتے ہو اور بہت کچھ چھپا جاتے ہو ، اور جس کے ذریعہ سے تم کو وہ علم دیا گیا جو نہ تمہیں حاصل تھا اور نہ تمہارے باپ دادا کو ، آخر اس کا نازل کرنے والا کون تھا ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ 60 بس اتنا کہہ دو کہ اللہ ، پھر انہیں اپنی دلیل بازیوں سے کھیلنے کے لیے چھوڑ دو ۔
اور انہوں نے ( یعنی یہود نے ) اﷲ کی وہ قدر نہ جانی جیسی قدر جاننا چاہیے تھی ، جب انہوں نے یہ کہہ ( کر رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار کر ) دیا کہ اﷲ نے کسی آدمی پر کوئی چیز نہیں اتاری ۔ آپ فرما دیجئے: وہ کتاب کس نے اتاری تھی جو موسٰی ( علیہ السلام ) لے کر آئے تھے جو لوگوں کے لئے روشنی اور ہدایت تھی؟ تم نے جس کے الگ الگ کاغذ بنا لئے ہیں تم اسے ( لوگوں پر ) ظاہر ( بھی ) کرتے ہو اور ( اس میں سے ) بہت کچھ چھپاتے ( بھی ) ہو ، اور تمہیں وہ ( کچھ ) سکھایا گیا ہے جو نہ تم جانتے تھے اور نہ تمہارے باپ دادا ، آپ فرما دیجئے: ( یہ سب ) اﷲ ( ہی کا کرم ہے ) پھر آپ انہیں ( ان کے حال پر ) چھوڑ دیں کہ وہ اپنی خرافات میں کھیلتے رہیں
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :59 پچھلے سلسلہ بیان اور بعد کی جوابی تقریر سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ یہ قول یہودیوں کا تھا ۔ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ یہ تھا کہ میں نبی ہوں اور مجھ پر کتاب نازل ہوئی ہے ، اس لیے قدرتی طور پر کفار قریش اور دوسرے مشرکین عرب اس دعوے کی تحقیق کے لیے یہود و نصاریٰ کی طرف رجوع کرتے تھے اور ان سے پوچھتے تھے کہ تم بھی اہل کتاب ہو ، پیغمبروں کو مانتے ہو ، بتاؤ کیا واقعی اس شخص پر اللہ کا کلام نازل ہوا ہے؟ پھر جو کچھ جواب وہ دیتے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سرگرم مخالفین جگہ جگہ بیان کرکے لوگوں کو برگشتہ کرتے پھرتے تھے ۔ اسی لیے یہاں یہودیوں کے اس قول کو ، جسے مخلافین اسلام نے حجت بنا رکھا تھا ، نقل کر کے اس کا جواب دیا جا رہا ہے ۔ شُبہ کیا جا سکتا ہے کہ ایک یہودی جو خود توراۃ کو خدا کی طرف سے نازل شدہ کتاب مانتا ہے ، یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ خدا نے کسی بشر پر کچھ نازل نہیں کیا ۔ لیکن یہ شبہ صحیح نہیں ہے ، اس لیے کہ ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر بسا اوقات آدمی کسی دوسرے کی سچی باتوں کو رد کرنے کے لیے ایسی باتیں بھی کہہ جاتا ہے جن سے خود اس کی اپنی مسلمہ صداقتوں پر بھی زد پڑ جاتی ہے ۔ یہ لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو رد کرنے پر تلے ہوئے تھے اور اپنی مخالفت کے جوش میں اس قدر اندھے ہو جاتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تردید کرتے کرتے خود رسالت ہی کی تردید کر گزرتے تھے ۔ اور یہ جو فرمایا کہ لوگوں نے اللہ کا بہت غلط اندازہ لگایا جب یہ کہا ، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے اللہ کی حکمت اور اس کی قدرت کا اندازہ کرنے میں غلطی کی ہے ۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ خدا نے کسی بشر پر علم حق اور ہدایت نامہ زندگی نازل نہیں کیا ہے وہ یا تو بشر پر نزول وحی کو ناممکن سمجھتا ہے اور یہ خدا کی قدرت کا غلط اندازہ ہے ، یا پھر وہ یہ سمجھتا ہے کہ خدا نے انسان کو ذہانت کے ہتھیار اور تصرف کے اختیارات تو دے دیے مگر اس کی صحیح رہنمائی کا کوئی انتظام نہ کیا ، بلکہ اسے دنیا میں اندھا دھند کام کرنے کے لیے یونہی چھوڑ دیا ، اور یہ خدا کی حکمت کا غلط اندازہ ہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :60 یہ جواب چونکہ یہودیوں کو دیا جارہا ہے اس لیے موسیٰ علیہ السلام پر توراۃ کے نزول کو دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے ، کیونکہ وہ خود اس کے قائل تھے ۔ ظاہر ہے کہ ان کا یہ تسلیم کرنا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توراۃ نازل ہوئی تھی ، ان کے اس قول کی آپ سے آپ تردید کردیتا ہے کہ خدا نے کسی بشر پر کچھ نازل نہیں کیا ۔ نیز اس سے کم از کم اتنی بات تو ثابت ہو جاتی ہے کہ بشر پر خدا کا کلام نازل ہو سکتا ہے اور ہو چکا ہے ۔
تمام رسول انسان ہی ہیں اللہ کے رسولوں کے جھٹلانے والے دراصل اللہ کی عظمت کے ماننے والے نہیں ۔ عبداللہ بن کثیر کہتے ہیں کفار قریش کے حق میں یہ آیت اتری ہے اور قول ہے کہ یہود کی ایک جماعت کے حق میں ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ فخاص یہودی کے حق میں اور یہ بھی ہے کہ مالک بن صیف کے بارے میں کہا گیا ہے ۔ صحیح بات یہ ہے کہ پہلا قول حق اس لئے ہے کہ آیت مکیہ ہے اور اس لئے بھی کہ یہودی آسمان سے کتاب اترنے کے بالکل منکر نہ تھے ، ہاں البتہ قریشی اور عام عرب حضور کی رسالت کے قائیل نہ تھے اور کہتے تھے کہ انسان اللہ کا رسول نہیں ہو سکتا جیسے قران ان کا تعجب نقل کرتا ہے آیت ( اَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَيْنَآ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ ) 10 ۔ یونس:2 ) یعنی کیا لوگوں کو اس بات پر اچنبھا ہوا کہ ہم نے انہی میں سے ایک شخص کی طرف وحی نزول فرمائی کہ وہ لوگوں کو ہوشیار کر دے اور آیت میں ہے آیت ( وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ يُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَاۗءَهُمُ الْهُدٰٓى اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللّٰهُ بَشَرًا رَّسُوْلًا ) 17 ۔ الاسراء:94 ) لوگوں کے اس خیال نے ہی کہ کیا اللہ نے انسان کو اپنا رسول بنا لیا انہیں ایمان سے روک دیا ہے ، سنو اگر زمین میں فرشتے بستے ہوتے تو ہم بھی آسمان سے کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجتے ۔ یہاں بھی کفار کا یہی اعتراض بیان کر کے فرماتا ہے کہ انہیں جواب دو کہ تم جو بالکل انکار کرتے ہو کہ کسی انسان پر اللہ تعالیٰ نے کچھ بھی نازل نہیں فرمایا یہ تمہاری کیسی کھلی غلطی ہے ؟ بھلا بتلاؤ موسیٰ پر تورات کس نے اتاری تھی جو سراسر نور و ہدایت تھی الغرض تورات کے تم سب قائل ہو جو مشکل مسائل آسان کرنے والی ، کفر کے اندھیروں کو جھانٹنے ، شبہ کو ہٹانے اور راہ راست دکھانے والی ہے ، تم نے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر رکھے ہیں صحیح اور اصلی کتاب میں سے بہت سا حصہ چھپا رکھا ہے کچھ اس میں سے لکھ لاتے ہو اور پھر اسے بھی تحریف کر کے لوگوں کو بتا رہے ہو ، اپنی باتوں اپنے خیالات کو اللہ کی کتاب کی طرف منسوب کرتے ہو ، قرآن تو وہ ہے جو تمہارے سامنے وہ علوم پیش کرتا ہے جن سے تم اور تمہارے اگلے اور تمہارے بڑے سب محروم تھے ، پجھلی سچی خبریں اس میں موجود ، آنے والے واقعات کی صحیح خبریں اس میں موجود ہیں جو آج تک دنیا کے علم میں نہیں آئی تھیں کہتے ہیں اس سے مراد مشرکین عرب ہیں اور بعض کہتے ہیں اس سے مراد مسلمان ہیں ۔ پھر حکم دیتا ہے کہ یہ لوگ تو اس کا جواب کیا دیں گے کہ تورات کس نے اتاری؟ تو خود کہدے کہ اللہ نے اتاری ہے پھر انہیں ان کی جھالت و ضلالت میں ہی کھیلتا ہوا چھوڑ دے یہاں تک کہ انہیں موت آئے اور یقین کی آنکھوں سے خود ہی دیکھ لیں کہ اس جہان میں یہ اچھے رہتے ہیں یا مسلمان متقی ؟ یہ کتاب یعنی قران کریم ہمارا اتارا ہوا ہے ، یہ بابرکت ہے یہ اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے ہم نے اسے تیری طرف اس لئے نازل فرمایا کہ تو اہل مکہ کو ، اس کے پاس والوں کو یعنی عرب کے قبائل اور عجمیوں کو ہوشیار کر دے اور ڈراوا دے دے ۔ من حولھا سے مراد ساری دنیا ہے اور آیت میں ہے ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ) 7 ۔ الاعراف:158 ) یعنی اے دنیا جہان کے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا پیغمبر ہوں اور آیت میں ہے ( ۣوَاُوْحِيَ اِلَيَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْۢ بَلَغَ ) 6 ۔ الانعام:19 ) تاکہ میں تمہیں بھی اور جسے یہ پہنچے اسے ڈرا دوں اور قرآن سنا کر عذابوں سے خبردار کر دوں اور فرمان ہے آیت ( وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ ۚ فَلَا تَكُ فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْهُ ۤ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُوْنَ ) 11 ۔ ہود:17 ) جو بھی اس کے ساتھ کفر کرے اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور آیت میں فرمایا گیا آیت ( تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِهٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَۨا ) 25 ۔ الفرقان:1 ) یعنی اللہ برکتوں والا ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہان والوں کو آگاہ کر دے اور آیت میں ارشاد ہے آیت ( وَقُلْ لِّلَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَالْاُمِّيّٖنَ ءَاَسْلَمْتُمْ ۭ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْا ۚ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلٰغُ ۭ وَاللّٰهُ بَصِيْرٌۢ بِالْعِبَادِ ) 3 ۔ آل عمران:20 ) یعنی اہل کتاب سے اور ان پڑھوں سے بس سے کہہ دو کہ کیا تم اسلام قبول کرتے ہو؟ اگر قبول کرلیں تو راہ راست پر ہیں اور اگر منہ موڑ لیں تو تجھ پر تو صرف پہنچا دینا ہے اللہ اپنے بندے کو خوب دیکھ رہا ہے ، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں ان کو بیان فرماتے ہوئے ایک یہ بیان فرمایا کہ ہر نبی صرف ایک قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا لیکن میں تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہوں اسی لئے یہاں بھی ارشاد ہوا کہ قیامت کے معتقد تو اسے مانتے ہیں جانتے ہیں کہ یہ قرآن اللہ کی سچی کتاب ہے اور وہ نمازیں بھی صحیح وقتوں پر برابر پڑھا کرتے ہیں اللہ کے اس فرض کے قیام میں اور اس کی حفاظت میں سستی اور کاہلی نہیں کرتے ۔