Surah

Information

Surah # 6 | Verses: 165 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 55 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
اِنَّ اللّٰهَ فَالِقُ الۡحَبِّ وَالنَّوٰى‌ؕ يُخۡرِجُ الۡحَىَّ مِنَ الۡمَيِّتِ وَمُخۡرِجُ الۡمَيِّتِ مِنَ الۡحَىِّ ‌ؕ ذٰ لِكُمُ اللّٰهُ‌ فَاَنّٰى تُؤۡفَكُوۡنَ‏ ﴿95﴾
بیشک اللہ تعالٰی دانہ کو اور گٹھلیوں کو پھاڑنے والا ہے وہ جاندار کو بے جان سے نکال لاتا ہے اور وہ بے جان کو جاندار سے نکالنے والا ہے اللہ تعالٰی یہ ہے سو تم کہاں الٹے چلے جا رہے ہو ۔
ان الله فالق الحب و النوى يخرج الحي من الميت و مخرج الميت من الحي ذلكم الله فانى تؤفكون
Indeed, Allah is the cleaver of grain and date seeds. He brings the living out of the dead and brings the dead out of the living. That is Allah ; so how are you deluded?
Be-shak Allah Taalaa daaney ko aur guthliyon ko phaarney wala hai woh jaandaar ko bey jaan say nikal laata hai aur woh bey jaan ko jaandaar say nikalney wala hai Allah Taalaa yeh hai so tum kahan ultay chalay jarahey ho.
بیشک اللہ ہی دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والا ہے ۔ وہ جاندار چیزوں کو بے جان چیزوں سے نکال لاتا ہے ، اور وہی بے جان چیزوں کو جاندار چیزوں سے نکالنے والا ہے ۔ ( ٣٥ ) لوگو ! وہ ہے اللہ پھر کوئی تمہیں بہکا کر کس اوندھی طرف لئے جارہا ہے ؟ ( ٣٦ )
بیشک اللہ دانے اور گٹھلی کو چیر نے والا ہے ( ف۱۹۹ ) زندہ کو مردہ سے نکالنے ( ف۲۰۰ ) اور مردہ کو زندہ سے نکالنے والا ( ف۲۰۱ ) یہ ہے اللہ تم کہاں اوندھے جاتے ہو ( ف۲۰۲ )
دانے اور گھٹلی کو پھاڑنے والا اللہ ہے ۔ 62 وہی زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور وہی مردہ کو زندہ سے خارج کرتا ہے ۔ 63 یہ سارے کام کرنے والا تو اللہ ہے ، پھر تم کدھر بہکے چلے جا رہے ہو؟
بیشک اﷲ دانے اور گٹھلی کو پھاڑ نکالنے والا ہے وہ مُردہ سے زندہ کو پیدا فرماتا ہے اور زندہ سے مُردہ کو نکالنے والا ہے ، یہی ( شان والا ) تو اﷲ ہے پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :62 یعنی زمین کی تہوں میں بیج کو پھاڑ کر اس سے درخت کی کونپل نکالنے والا ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :63 زندہ کو مردہ سے نکالنے کا مطلب بے جان مادہ سے زندہ مخلوقات کو پیدا کرنا ہے ، اور مردہ کو زندہ سے خارج کرنے کا مطلب جاندار اجسام میں سے بے جان مادوں کو خارج کرنا ۔
اس کی حیرت ناک قدرت دانوں سے کھیتیاں بیج اور گٹھلی سے درخت اللہ ہی اگاتا ہے تم تو انہیں مٹی میں ڈال کر چلے آتے ہو وہاں انہیں اللہ تعالیٰ پھاڑتا ہے ۔ کونپل نکالتا ہے پھر وہ بڑھتے ہیں قوی درخت بن جاتے ہیں اور دانے اور پھل پیدا ہوتے ہیں ۔ پھر گویا اسی کی تفسیر میں فرمایا کہ زندہ درخت اور زندہ کھیتی کو مردہ بیج اور مردہ دانے سے وہ نکالتا ہے جیسے سورۃ یٰسین میں ارشاد ہے آیت ( وَاٰيَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَيْتَةُ ښ اَحْيَيْنٰهَا وَاَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَاْكُلُوْنَ ) 36 ۔ یس:33 ) مخرج کا عطف فالق پر ہے اور مفسرین نے دوسرے انداز سے ان جملوں میں ربط قائم کیا ہے لیکن مطلب سب کا یہی ہے اور اسی کے قریب قریب ہے ، کوئی کہتا ہے مرغی کا انڈے سے نکلنا اور مرغ سے انڈے کا نکلنا مراد ہے ۔ بد شخص کے ہاں نیک اولاد ہونا اور نیکوں کی اولاد کا بد ہونا مراد ہے ۔ وغیرہ ۔ آیت درحقیقت ان تمام صورتوں کو گھیرے ہوئے ہے ۔ پھر فرماتا ہے ان تمام کاموں کا کرنے والا اکیلا اللہ ہی ہے پھر کیا وجہ کہ تم حق سے پھر جاتے ہو؟ اور اس لا شریک کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے لگتے ہو؟ وہی دن کی روشنی کا لانے والا اور رات کے اندھیرے کا پیدا کرنے والا ہے ۔ جیسے کہ اس سورت کے شروع میں فرمایا تھا کہ وہی نور و ظلمت کا پیدا کرنے والا ہے ۔ رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے کو دن کی نورانیت سے بدل دیتا ہے ۔ رات اپنے اندھیروں سمیت چھپ جاتی ہے اور دن اپنی تجلیوں سمیت کائنات پر قبضہ جما لیتا ہے ، جیسے فرمان ہے وہی دن رات چڑھاتا ہے ۔ الغرض چیز اور اس کی ضد اس کے زیر اختیار ہے اور یہ اس کی بے انتہا عظمت اور بہت بڑی سلطنت پر دلیل ہے ۔ دن کی روشنی اور اس کی چہل پہل کی ظلمت اور اس کا سکون اس کی عظیم الشان قدرت کی نشانیاں ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَالضُّحٰى Ǻ۝ۙ وَالَّيْلِ اِذَا سَـجٰى Ą۝ۙ ) اور جیسے اس آیت میں فرمایا آیت ( وَالَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى Ǻ۝ۙ وَالنَّهَارِ اِذَا تَجَلّٰى Ą۝ۙ ) 92 ۔ اللیل:1-2 ) اور آیت میں ہے ( وَالنَّهَارِ اِذَا جَلّٰىهَا Ǽ۝۽ وَاللَّيْلِ اِذَا يَغْشٰـىهَا Ć۝۽ ) 91 ۔ والشمس:3-4 ) ان تمام آیتوں میں دن رات کا اور نور و ظلمت روشنی اور اندھیرے کا ذکر ہے حضرت صہیب رومی رحمتہ اللہ علیہ سے ایک بار ان کی بیوی صاحبہ نے کہا کہ رات ہر ایک کے لئے آرام کی ہے لیکن میرے خاوند حضرت صہیب کے لئے وہ بھی آرام کی نہیں اس لئے کہ وہ رات کو اکثر حصہ جاگ کر کاٹتے ہیں ۔ جب انہیں جنت یاد آتی ہے تو شوق بڑھ جاتا ہے اور یاد اللہ میں رات گزار دیتے ہیں اور جب جہنم کا خیال آ جاتا ہے تو مارے خوف کے ان کی نیند اڑ جاتی ہے ۔ سورج چاند اس کو مقرر کئے ہوئے اندازے پر برابر چل رہے ہیں کوئی تغیر اور اضطراب اس میں نہیں ہوتا ہر ایک کی منزل مقرر ہے جاڑے کی الگ گرمی کی الگ اور اسی اعتبار سے دن رات ظاہر ہوتے ہیں چھوٹے اور بڑے ہوتے ہیں جیسے فرمان ہے آیت ( ھُوَ الَّذِيْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاۗءً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا وَّقَدَّرَهٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّـنِيْنَ وَالْحِسَابَ ) 10 ۔ یونس:5 ) اسی اللہ نے سورج کو روشن اور چاند کو منور کیا ہے ان کی منزلیں مقرر کر دی ہیں اور آیت میں ہے ( لَا الشَّمْسُ يَنْۢبَغِيْ لَهَآ اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا الَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ) 36 ۔ یس:40 ) نہ تو آفتاب ہی سے بن پڑتا ہے کہ چاند کو جا لے اور نہ رات دن پر سبق لے سکتی ہے ہر ایک اپنے فلک میں تیرتا پھرتا ہے اور جگہ فرمایا سورج چاند ستارے سب اس کے فرمان کے ما تحت ہیں ۔ یہاں فرمایا یہ سب اندازے اس اللہ کے مقرر کردہ ہیں جسے کوئی روک نہیں سکتا جس کے خلاف کوئی کچھ نہیں کر سکتا ۔ جو ہر چیز کو جانتا ہے جس کے علم سے ایک ذرہ باہر نہیں ۔ زمین و آسمان کی کوئی مخلوق اس سے پوشیدہ نہیں ۔ عموماً قرآن کریم جہاں کہیں رات دن سورج چاند کی پیدائش کا ذکر کرتا ہے وہاں کلام کا خاتمہ اللہ جل و علا نے اپنی عزت و علم کی خبر پر کیا ہے جیسے اس آیت میں اور ( واٰیتہ لھم اللیل ) میں اور سورۃ حم سجدہ کی شروع کی آیت ( وَزَيَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ ڰ وَحِفْظًا ۭ ذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ ) 41 ۔ فصلت:12 ) میں ۔ پھر فرمایا ستارے تمہیں خشکی اور تری میں راہ دکھانے کے لئے ہیں بعض سلف کا قول ہے کہ ستاروں میں ان تین فوائد کے علاوہ اگر کوئی اور کچھ مانے تو اس نے خطا کی اور اللہ پر چھوٹ باندھا ایک تو یہ کہ یہ آسمان کی زینت ہیں دوسرے یہ شیاطین پر آگ بن کر برستے ہیں جبکہ وہ آسمانوں کی خبریں لینے کو چڑھیں تیسرے یہ کہ مسافروں اور مقیم لوگوں کو یہ راستہ دکھاتے ہیں ۔ پھر فرمایا ہم نے عقلمندوں عالموں اور واقف کار لوگوں کیلئے اپنی آیتیں بالتفصیل بیان فرما دی ہیں ۔