Surah

Information

Surah # 6 | Verses: 165 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 55 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
قَدۡ جَآءَكُمۡ بَصَآٮِٕرُ مِنۡ رَّبِّكُمۡ‌ۚ فَمَنۡ اَبۡصَرَ فَلِنَفۡسِهٖ‌ ۚ وَمَنۡ عَمِىَ فَعَلَيۡهَا‌ ؕ وَمَاۤ اَنَا عَلَيۡكُمۡ بِحَفِيۡظٍ‏ ﴿104﴾
اب بلاشبہ تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے حق بینی کے ذرائع پہنچ چکے ہیں سو جو شخص دیکھ لے گا وہ اپنا فائدہ کرے گا اور جو شخص اندھا رہے گا وہ اپنا نقصان کرے گا اور میں تمہارا نگران نہیں ہوں
قد جاءكم بصاىر من ربكم فمن ابصر فلنفسه و من عمي فعليها و ما انا عليكم بحفيظ
There has come to you enlightenment from your Lord. So whoever will see does so for [the benefit of] his soul, and whoever is blind [does harm] against it. And [say], "I am not a guardian over you."
Abb bila shuba tumharay pass tumharay rab ki janib say haq beeni kay zaraye phonch chukay hain so jo shaks dekh ley ga woh apna faeeda keray ga aur jo shaks andha rahey ga woh apna nuksan keray ga aur mein tumhara nigaraan nahi hun.
۔ ( اے پیغمبر ! ان لوگوں سے کہو کہ ) تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے بصیرت کے سامان پہنچ چکے ہیں ۔ اب جو شخص آنکھیں کھول کر دیکھے گا ، وہ اپنا ہی بھلا کرے گا ، اور جو شخص اندھا بن جائے گا ، وہ اپنا ہی نقصان کرے گا ۔ اور مجھے تمہاری حفاظت کی ذمہ داری نہیں سونپی گئی ہے ۔ ( ٤٢ )
تمہارے پاس آنکھیں کھولنے والی دلیلیں آئیں تمہارے رب کی طرف سے تو جس نے دیکھا تو اپنے بھلے کو اور جو اندھا ہوا اپنے برُے کو ، اور میں تم پر نگہبان نہیں ،
دیکھو ، تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے بصیرت کی روشنیاں آگئی ہیں ، اب جو بینائی سے کام لے گا اپنا ہی بھلا کرے گا اور جو اندھا بنے گا خود نقصان اٹھائے گا ، میں تم پر کوئی پاسبان نہیں ہوں ۔ 69
بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے ( ہدایت کی ) نشانیاں آچکی ہیں پس جس نے ( انہیں نگاہِ بصیرت سے ) دیکھ لیا تو ( یہ ) اس کی اپنی ذات کے لئے ( فائدہ مند ) ہے ، اور جو اندھا رہا تو اس کا وبال ( بھی ) اسی پر ہے ، اور میں تم پر نگہبان نہیں ہوں
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :69 یہ فقرہ اگرچہ اللہ ہی کا کلام ہے مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ادا ہو رہا ہے ۔ قرآن مجید میں جس طرح مخاطب بار بار بدلتے ہیں کہ کبھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب ہوتا ہے ، کبھی اہل ایمان سے ، کبھی اہل کتاب سے ، کبھی کفار و مشرکین سے ، کبھی قریش کے لوگوں سے ، کبھی اہل عرب سے اور کبھی عام انسانوں سے ، حالانکہ اصل غرض پوری نوع انسانی کی ہدایت ہے ، اسی طرح متکلم بھی بار بار بدلتے ہیں کہ کہیں متکلم خدا ہوتا ہے ، کہیں وحی لانے والا فرشتہ ، کہیں فرشتوں کا گروہ ، کہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، اور کہیں اہل ایمان ، حالانکہ ان سب صورتوں میں کلام وہی ایک خدا کا کلام ہوتا ہے ۔ اور مشرکین سے ، کبھی قریش کے لوگوں سے ، کبھی اہل عرب سے اور”میں تم پر پاسبان نہیں ہوں“ یعنی میرا کام بس اتنا ہی ہے کہ اس روشنی کو تمہارے سامنے پیش کردوں ۔ اس کے بعد آنکھیں کھول کر دیکھنا یا نہ دیکھنا تمہارا اپنا کام ہے ۔ میرے سپرد یہ خدمت نہیں کی گئی ہے کہ جنھوں نے خود آنکھیں بند کر رکھی ہیں ان کی آنکھیں زبردستی کھولوں اور جو کچھ وہ نہیں دیکھتے وہ انہیں دکھا کر ہی چھوڑوں ۔
ہدایت و شفا قرآن و حدیث میں ہے بصائر سے مراد دلیلیں اور حجتیں ہیں جو قرآن و حدیث میں موجود ہیں جو انہیں دیکھے اور ان سے نفع حاصل کرے وہ اپنا ہی بھلا کرتا ہے جیسے فرمان ہے کہ راہ پانے والا اپنے لئے راہ پاتا ہے اور گمراہ ہونے والا اپنا ہی بگاڑتا ہے ۔ یہاں بھی فرمایا اندھا اپنا ہی نقصان کرتا ہے کیونکہ آخر گمراہی کا اسی پر اثر پڑتا ہے جیسے ارشاد ہے آنکھیں اندھی نہیں ہوتی بلکہ سینوں کے اندر دل اندھے ہو جاتے ہیں ، میں تم پر نگہبان حافظ چوکیدار نہیں بلکہ میں تو صرف مبلغ ہوں ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے ، جس طرح توحید کے دلائل واضح فرمائے اسی طرح اپنی آیتوں کو کھول کھول کر تفسیر اور وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا تاکہ کوئی جاہل نہ رہ جائے اور مشرکین مکذبین اور کافرین یہ نہ کہدیں کہ تو نے اے نبی اہل کتاب سے یہ درس لیا ہے ان سے پڑھا ہے انہی نے تجھے سکھایا ہے ۔ ابن عباس سے یہ معنی بھی مروی ہیں کہ تو نے پڑھ سنایا تو نے جھگڑا کیا تو یہ اسی آیت کی طرح آیت ہو گی جہاں بیان ہے آیت ( وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّآ اِفْكُۨ افْتَرٰىهُ وَاَعَانَهٗ عَلَيْهِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ ڔ فَقَدْ جَاۗءُوْ ظُلْمًا وَّزُوْرًا ) 25 ۔ الفرقان:4 ) کافروں نے کہا کہ یہ تو صرف بہتان ہے جسے اس نے گھڑ لیا ہے اور دوسروں نے اس کی تائید کی ہے اور آیتوں میں ان کے بڑے کا قول ہے کہ اس نے بہت کچھ غور وخوض کے بعد فیصلہ کیا کہ یہ تو چلتا ہوا جادو ہے ، یقینا یہ انسانی قول ہے اور اس لئے کہ ہم علماء کے سامنے وضاحت کر دیں تاکہ وہ حق کے قائل اور باطل کے دشمن بن جائیں ۔ رب کی مصلحت وہی جانتا ہے کہ جو ایک گروہ کو ہدایت اور دوسرے کو ضلالت عطا کرتا ہے ، جیسے فرمایا اس کے ساتھ بہت کو ہدایت کرتا ہے اور بہت کو گمراہ کرتا ہے اور آیت میں ہے تاکہ وہ شیطان کے القا کو بیمار دلوں کیلئے سبب فتنہ کر دے اور فرمایا آیت ( وَمَا جَعَلْنَآ اَصْحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰۗىِٕكَةً ۠ وَّمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ اِلَّا فِتْنَةً لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْا ) 74 ۔ المدثر:31 ) یعنی ہم نے دوزخ کے پاسبان فرشتے مقرر کئے ہیں ان کی مقررہ تعداد بھی کافروں کے لئے فتنہ ہے تاکہ اہل کتاب کامل یقین کرلیں ایماندار ایمان میں بڑھ جائیں اہل کتاب اور مومن شک شبہ سے الگ ہو جائیں اور بیمار دل کفر والے کہتے ہیں کہ اس مثال سے اللہ کی کیا مراد ہے اسی طرح جسے اللہ چاہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہے راہ راست دکھاتا ہے ، تیرے رب کے لشکروں کو بجز اس کے کوئی نہیں جانتا اور آیت میں ہے آیت ( وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ۙ وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا ) 17 ۔ الاسراء:82 ) یعنی ہم نے قرآن اتارا ہے جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے البتہ ظالموں کو تو نقصان ہی ملتا ہے اور آیت میں ہے کہ یہ ایمان والوں کے لئے ہدایت و شفا ہے اور بے ایمانوں کے کانوں میں بوجھ ہے اور ان پر اندھا پن غالب ہے یہ دور کی جگہ سے پکارے جا رہے ہیں اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن سے لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں اور گمراہ بھی ہوتے ہیں ۔ دارست کی دوسری قرأت درست بھی ہے یعنی پڑھا اور سیکھا اور یہ معنی ہیں کہ اسے تو مدت گزر چکی یہ تو تو پہلے سے لایا ہوا ہے ، یہ تو تو پڑھایا گیا ہے اور سکھایا گیا ہے ۔ ایک قرأت میں درس بھی ہے لیکن یہ غریب ہے ابی بن کعب فرماتے ہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے درست پڑھایا ہے ۔