Surah

Information

Surah # 6 | Verses: 165 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 55 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
وَاَقۡسَمُوۡا بِاللّٰهِ جَهۡدَ اَيۡمَانِهِمۡ لَٮِٕنۡ جَآءَتۡهُمۡ اٰيَةٌ لَّيُؤۡمِنُنَّ بِهَا‌ ؕ قُلۡ اِنَّمَا الۡاٰيٰتُ عِنۡدَ اللّٰهِ‌ وَمَا يُشۡعِرُكُمۙۡ اَنَّهَاۤ اِذَا جَآءَتۡ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿109﴾
اور ان لوگوں نے قسموں میں بڑا زور لگا کر اللہ تعالٰی کی قسم کھائی کہ اگر ان کے پاس کوئی نشانی آجائے تو وہ ضرور ہی اس پر ایمان لے آئیں گے ، آپ کہہ دیجئے کہ نشانیاں سب اللہ کے قبضہ میں ہیں اور تم کو اس کی کیا خبر کہ وہ نشانیاں جس وقت آجائیں گی یہ لوگ تب بھی ایمان نہ لائیں گے ۔
و اقسموا بالله جهد ايمانهم لىن جاءتهم اية ليؤمنن بها قل انما الايت عند الله و ما يشعركم انها اذا جاءت لا يؤمنون
And they swear by Allah their strongest oaths that if a sign came to them, they would surely believe in it. Say, "The signs are only with Allah ." And what will make you perceive that even if a sign came, they would not believe.
Aur inn logon ney qasmon mein bara zor laga ker Allah Taalaa ki qasam khaee kay agar inn kay pass koi nishani aajaye to woh zaroor hi uss per eman ley aayen gay aap keh dijiye kay nishaniyan sab Allah kay qabzay mein hain aur tum ko iss ki kiya khabar kay woh nishaniyan jiss waqt aajayen gi yeh log tab bhi eman na layen gay.
اور ان لوگوں نے بڑی زور دار قسمیں کھائی ہیں کہ اگر ان کے پاس واقعی کوئی نشانی ( یعنی ان کا مطلوب معجزہ ) آگئی تو یہ یقینا ضرور اس پر ایمان لے آئیں گے ( ان سے ) کہو کہ : ساری نشانیاں اللہ کے قبضے میں ہیں ۔ ( ٤٨ ) اور ( مسلمانو ) تمہیں کیا پتہ کہ اگر وہ ( معجزے ) آبھی گئے تب بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے ۔
اور انہوں نے اللہ کی قسم کھائی اپنے حلف میں پوری کوشش سے کہ اگر ان کے پاس کوئی نشانی آئی تو ضرور اس پر ایمان لائیں گے ، تم فرما دو کہ نشانیاں تو اللہ کے پاس ہیں ( ف۲۱۹ ) اور تمہیں ( ف۲۲۰ ) کیا خبر کہ جب وہ آئیں تو یہ ایمان نہ لائینگے
یہ لوگ کڑی کڑی قسمیں کھا کھاکر کہتے ہیں کہ اگر کوئی نشانی 74ہمارے سامنے آجائے تو ہم اس پر ایمان لے آئیں گے ۔ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! ان سے کہو کہ ”نشانیاں تو اللہ کے پاس ہیں“ ۔ 75 اور تمہیں کیسے سمجھایا جائے کہ اگر نشانیاں آبھی جائیں تو یہ ایمان لانے والے نہیں ۔ 76
وہ بڑے تاکیدی حلف کے ساتھ اللہ کی قَسم کھاتے ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی ( کھلی ) نشانی آجائے تو وہ اس پر ضرور ایمان لے آئیں گے ۔ ( ان سے ) کہہ دو کہ نشانیاں توصرف اﷲ ہی کے پاس ہیں ، اور ( اے مسلمانو! ) تمہیں کیا خبر کہ جب وہ نشانی آجائے گی ( تو ) وہ ( پھر بھی ) ایمان نہیں لائیں گے
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :74 نشانی سے مراد کوئی ایسا صریح محسوس معجزہ ہے جسے دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مامور مِنَ اللہ ہونے کو مان لینے کو سوا کوئی چارہ نہ رہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :75 یعنی نشانیوں کے پیش کرنے اور بنا لانے کی قدرت مجھے حاصل نہیں ہے ، ان کا اختیار تو اللہ کو ہے ، چاہے دکھائے اور نہ چاہے نہ دکھائے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :76 یہ خطاب مسلمانوں سے ہے جو بے تاب ہو ہو کر تمنا کرتے تھے اور کبھی کبھی زبان سے بھی اس خواہش کا اظہار کردیتے تھے کہ کوئی ایسی نشانی ظاہر ہوجائے جس سے ان کے گمراہ بھائی راہ راست پر آجائیں ان کی اسی تمنا اور خواہش کے جواب میں ارشاد ہو رہا ہے کہ آخر تمہیں کس طرح سمجھایا جائے کہ ان لوگوں کا ایمان لانا کسی نشانی کے طور پر موقوف نہیں ہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :77 یعنی ان کے اندر وہی ذہنیت کام کیے جا رہی ہے جس کی وجہ سے انہوں نے پہلی مرتبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سن کر اسے ماننے سے انکار کر دیا تھا ۔ ان کے نقطہ نظر میں ابھی تک کوئی تغیر واقع نہیں ہوا ہے ، وہی عقل کا پھیر اور نظر کا بھینگا پن جو انہیں اس وقت صحیح سمجھنے اور صحیح دیکھنے سے روک رہا تھا آج بھی ان پر اسی طرح مسلط ہے ۔
معجزوں کے طالب لوگ صرف مسلمانوں کو دھوکا دینے کیلئے اور اس لئے بھی کہ خود مسلمان شک شبہ میں پڑ جائیں کافر لوگ قسمیں کھا کھا کر بڑے زور سے کہتے تھے کہ ہمارے طلب کردہ معجزے ہمیں دکھا دیئے جائیں تو واللہ ہم بھی مسلمان ہو جائیں ۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو ہدایت فرماتا ہے کہ آپ کہہ دیں کہ معجزے میرے قبضے میں نہیں یہ اللہ کے ہاتھ میں ہیں وہ چاہے دکھائے چاہے نہ دکھائے ابن جریر میں ہے کہ مشرکین نے حضور سے کہا کہ آپ فرماتے ہیں حضرت موسیٰ ایک پتھر پر لکڑی مارتے تھے تو اس سے بارہ چشمے نکلے تھے اور حضرت عیسیٰ مردوں میں جان ڈال دیتے تھے اور حضرت ثمود نے اونٹنی کا معجزہ دکھایا تھا تو آپ بھی جو معجزہ ہم کہیں دکھا دیں واللہ ہم سب آپ کی نبوت کو مان لیں گے ، آپ نے فرمایا کیا معجزہ دیکھنا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ آپ صفا پہاڑ کو ہمارے لئے سونے کا بنا دیں پھر تو قسم اللہ کی ہم سب آپ کو سچا جاننے لگیں گے ۔ آپ کو ان کے اس کلام سے کچھ امید بندھ گئی اور آپ نے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی شروع کی وہیں حضرت جبرائیل آئے اور فرمانے لگے سنئے اگر آپ چاہیں تو اللہ بھی اس صفا پہار کو سونے کا کر دے گا لیکن اگر یہ ایمان نہ لائے تو اللہ کا عذاب ان سب کو فنا کر دے گا ورنہ اللہ تعالیٰ اپنے عذابوں کو روکے ہوئے ہے ممکن ہے ان میں نیک سمجھ والے بھی ہوں اور وہ ہدایت پر آ جائیں ، آپ نے فرمایا نہیں اللہ تعالیٰ میں صفا کا سونا نہیں جاہتا بلکہ میں چاہتا ہوں کہ تو ان پر مہربانی فرما کر انہیں عذاب نہ کر اور ان میں سے جسے چاہے ہدایت نصیب فرما ۔ اسی پر یہ آیتیں ( وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُوْنَ ) 6 ۔ الانعام:111 ) تک نازل ہوئیں یہ حدیث گو مرسل ہے لیکن اس کے شاہد بہت ہیں چنانچہ قرآن کریم میں اور جگہ ہے آیت ( وَمَا مَنَعَنَآ اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰيٰتِ اِلَّآ اَنْ كَذَّبَ بِهَا الْاَوَّلُوْنَ ) 17 ۔ الاسراء:59 ) یعنی معجزوں کے اتارنے سے صرف یہ چیز مانع ہے کہ ان سے اگلوں نے بھی انہیں جھٹلا یا ۔ انھا کی دوسری قرأت انھا بھی ہے اور لا یومنون کی دوسری قرأت لا تومنون ہے اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ اے مشرکین کیا خبر ممکن ہے خود تمہارے طلب کردہ معجزوں کے آ جانے کے بعد بھی تمہیں ایمان لانا نصیب نہ ہو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس آیت میں خطاب مومنوں سے ہے یعنی اے مسلمانو تم نہیں جانتے یہ لوگ ان نشانیوں کے ظاہر ہو چکنے پر بھی بے ایمان ہی رہیں گے ۔ اس صورت میں انھا الف کے زیر کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور الف کے زبر کے ساتھ بھی یشعر کم کا معمول ہو کر اور لا یومنون کا لام اس صورت میں صلہ ہو گا جیسے آیت ( قَالَ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ ) 7 ۔ الاعراف:12 ) میں ۔ اور آیت ( وَحَرٰمٌ عَلٰي قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَآ اَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ ) 21 ۔ الانبیآء:95 ) میں تو مطلب یہ ہوتا کہ اے مومنو تمہارے پاس اس کا کیا ثبوت ہے کہ یہ اپنی من مانی اور منہ مانگی نشانی دیکھ کر ایمان لائیں گے بھی؟ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انھا معنی میں لعلھا کے ہے بلکہ حضرت ابی بن کعب کی قرأت میں انھا کے بدلے لعلھا ہی ہے ، عرب کے محاورے میں اور شعروں میں بھی یہی پایا گیا ہے ، امام ابن جرید رحمتہ اللہ علیہ اسی کو پسند فرماتے ہیں اور اس کے بہت سے شواہد بھی انہوں نے پیش کئے ہیں ، واللہ اعلم پھر فرماتا ہے کہ ان کے انکار اور کفر کی وجہ سے ان کے دل اور ان کی نگاہیں ہم نے پھیر دی ہیں ، اب یہ کسی بات پر ایمان لانے والے ہی نہیں ۔ ایمان اور ان کے درمیان دیوار حائل ہو چکی ہے ، روئے زمین کے نشانات دیکھ لیں گے تو بھی بے ایمان ہی رہیں گے اگر ایمان قسمت میں ہوتا تو حق کی آواز پر پہلے ہی لبیک پکار اٹھتے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی بات سے پہلے یہ جانتا تھا کہ یہ کیا کہیں گے؟ اور ان کے عمل سے پہلے جانتا تھا کہ یہ کیا کریں گے ؟ اسی لئے اس نے بتلا دیا کہ ایسا ہو گا فرماتا ہے آیت ( وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيْرٍ ) 35 ۔ فاطر:14 ) اللہ تعالیٰ جو کامل خبر رکھنے والا ہے اور اس جیسی خبر اور کون دے سکتا ہے؟ اس نے فرمایا کہ یہ لوگ قیامت کے روز حسرت و افسوس کے ساتھ آرزو کریں گے کہ اگر اب لوٹ کر دنیا کی طرف جائیں تو نیک اور بھلے بن کر رہیں ۔ لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے اگر بالفرض یہ لوٹا بھی دیئے جائیں تو بھی یہ ایسے کے ایسے ہی رہیں گے اور جن کاموں سے روکے گئے ہیں انہی کو کریں گے ، ہرگز نہ چھوڑیں گے ، یہاں بھی فرمایا کہ معجزوں کا دیکھنا بھی ان کے لئے مفید نہ ہو گا ان کی نگاہیں حق کو دیکھنے والی ہی نہیں رہیں ان کے دل میں حق کیلئے کوئی جگہ خالی ہی نہیں ۔ پہلی بار ہی انہیں ایمان نصیب نہیں ہوا اسی طرح نشانوں کے ظاہر ہونے کے بعد بھی ایمان سے محروم رہیں گے ۔ بلکہ اپنی سرکشی اور گمراہی میں ہی بہکتے اور بھٹکتے حیران و سرگرداں رہیں گے ۔ ( اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت رکھے ۔ آمین ) ۔