Surah

Information

Surah # 6 | Verses: 165 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 55 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
وَكَذٰلِكَ جَعَلۡنَا لِكُلِّ نَبِىٍّ عَدُوًّا شَيٰطِيۡنَ الۡاِنۡسِ وَالۡجِنِّ يُوۡحِىۡ بَعۡضُهُمۡ اِلٰى بَعۡضٍ زُخۡرُفَ الۡقَوۡلِ غُرُوۡرًا‌ ؕ وَلَوۡ شَآءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوۡهُ‌ فَذَرۡهُمۡ وَمَا يَفۡتَرُوۡنَ‏ ﴿112﴾
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بہت سے شیطان پیدا کئے تھے کچھ آدمی اور کچھ جن جن میں سے بعض بعضوں کو چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے تھے تاکہ ان کو دھوکہ میں ڈال دیں اور اگر اللہ تعالٰی چاہتا تو یہ ایسے کام نہ کر سکتے سو ان لوگوں کو اور جو کچھ یہ افترا پردازی کر رہے ہیں اس کو آپ رہنے دیجئے ۔
و كذلك جعلنا لكل نبي عدوا شيطين الانس و الجن يوحي بعضهم الى بعض زخرف القول غرورا و لو شاء ربك ما فعلوه فذرهم و ما يفترون
And thus We have made for every prophet an enemy - devils from mankind and jinn, inspiring to one another decorative speech in delusion. But if your Lord had willed, they would not have done it, so leave them and that which they invent.
Aur issi tarah say hum ney her nabi kay dushman boht say shetan peda kiya thay kuch aadmi aur kuch jinn, jin mein say baaz baazon ko chikni chupri baaton ka waswasa daaltay rehtay thay takay unn ko dhokay mein daal den aur agar Allah Taalaa chahata to yeh aisay kaam na ker saktay so inn logon ko aur jo kuch yeh iftra perdaazi ker rahey hain uss ko aap rehney dijiye.
اور ( جس طرح یہ لوگ ہمارے نبی سے دشمنی کر رہے ہیں ) اسی طرح ہم نے ہر ( پچھلے ) نبی کے لیے کوئی نہ کوئی دشمن پیدا کیا تھا ، یعنی انسانوں اور جنات میں سے شیطان قسم کے لوگ ، جو دھوکا دینے کی خاطر ایک دوسرے کو بڑی چکنی چپڑی باتیں سکھاتے رہتے تھے ۔ اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کرسکتے ۔ ( ٥١ ) لہذا ان کو اپنی افترا پردازیوں میں پڑا رہنے دو ۔
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن کیے ہیں آدمیوں اور جنوں میں کے شیطان کہ ان میں ایک دوسرے پر خفیہ ڈالتا ہے بناوٹ کی بات ( ف۲۲۷ ) دھوکے کو ، اور تمہارا رب چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے ( ف۲۲۸ ) تو انہیں ان کی بناوٹوں پر چھوڑ دو ( ف۲۲۹ )
اور ہم نے تو اسی طرح ہمیشہ شیطان انسانون اور شیطان جِنوں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے جو ایک دوسرے پر خوش آیند باتیں دھوکے اور فریب کے طور پر القا کرتے رہے ہیں ۔ 79 اگر تمہارے رب کی مشیَّت یہ ہوتی کہ وہ ایسا نہ کریں تو وہ کبھی نہ کرتے ۔ 80
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے انسانوں اور جِنّوں میں سے شیطانوں کو دشمن بنا دیا جو ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی ہوئی ( چکنی چپڑی ) باتیں ( وسوسہ کے طور پر ) دھوکہ دینے کے لئے ڈالتے رہتے ہیں ، اور اگر آپ کا ربّ ( انہیں جبراً روکنا ) چاہتا ( تو ) وہ ایسا نہ کر پاتے ، سو آپ انہیں ( بھی ) چھوڑ دیں اور جو کچھ وہ بہتان باندھ رہے ہیں ( اسے بھی )
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :79 یعنی آج اگر شیاطین جن و انس متفق ہو کر تمہارے مقابلہ میں ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں تو گھبرانے کی کوئی بات نہیں ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے جو تمہارے ہی ساتھ پیش آرہی ہو ۔ ہر زمانہ میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے کہ جب کوئی پیغمبر دنیا کو راہ راست دکھانے کے لیے اٹھا تو تمام شیطانی قوتیں اس کے مشن کا ناکام کرنے کے لیے کمر بستہ ہو گئیں ۔ ”خوش آیند باتوں“ سے مراد وہ تمام چالیں اور تدبیریں اور شکوک و شبہات و اعتراضات ہیں جن سے یہ لوگ عوام کو داعی حق اور اس کی دعوت کے خلاف بھڑکانے اور اکسانے کا کام لیتے ہیں ۔ پھر ان سب کو بحیثیت مجموعی دھوکے اور فریب سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ کیونکہ حق سے لڑنے کے لیے جو ہتھیار بھی مخالفین حق استعمال کرتے ہیں وہ نہ صرف دوسروں کے لیے بلکہ خود ان کے لیے بھی حقیقت کے اعتبار سے محض ایک دھوکا ہوتے ہیں اگرچہ بظاہر وہ ان کو نہایت مفید اور کامیاب ہتھیار نظر آتے ہیں ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :80 یہاں ہماری سابق تشریحات کے علاوہ یہ حقیقت بھی اچھی طرح ذہن نشین ہو جانی چاہیے کہ قرآن کی رو سے اللہ تعالیٰ کی مشِیَّت اور اس کی رضا میں بہت بڑا فرق ہے جس کو نظر انداز کر دینے سے بالعموم شدید غلط فہمیاں واقع ہوتی ہیں ۔ کسی چیز کا اللہ کی مشیت اور اس کے اذن کے تحت رونما ہونا لازمی طور پر یہ معنی نہیں رکھتا کہ اللہ اس سے راضی بھی ہے اور اسے پسند بھی کرتا ہے ۔ دنیا میں کوئی واقعہ کبھی صدور میں نہیں آتا جب تک اللہ اس کے صدور کا اذن نہ دے اور اپنی عظیم الشان اسکیم میں اس کے صدور کی گنجائش نہ نکالے اور اسباب کو اس حد تک مساعد نہ کر دے کہ وہ واقعہ صادر ہو سکے ۔ کسی چور کی چوری ، کسی قاتل کا قتل ، کسی ظالم و مفسد کا ظلم و فساد اور کسی کافر و مشرک کا کفر و شرک اللہ کی مشیت کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ اور اسی طرح کسی مومن اور کسی متقی انسان کا ایمان و تقویٰ بھی مشیت الہٰی کے بغیر محال ہے ۔ دونوں قسم کے واقعات یکساں طور پر مشِیَّت کے تحت رونما ہوتے ہیں ۔ مگر پہلی قسم کے واقعات سے اللہ راضی نہیں ہے اور اس کے برعکس دوسری قسم کے واقعات کو اس کی رضا اور اس کی پسندیدگی و محبوبیت کی سند حاصل ہے ۔ اگرچہ آخر کار کسی خیر عظیم ہی کے لیے فرمانروائے کائنات کی مشیت کام کر رہی ہے ، لیکن اس خیر عظیم کے ظہور کا راستہ نور و ظلمت ، خیر و شر اور صلاح و فساد کی مختلف قوتوں کے ایک دوسرے کے مقابلہ میں نبرد آزما ہونے ہی سے صاف ہوتا ہے ۔ اس لیے اپنی بزرگ تر مصلحتوں کی بنا پر وہ طاعت اور معصیت ، ابراہیمیت اور نمرودیت ، موسویت اور فرعونیت ، آدمیت اور شیطنت ، دونوں کو اپنا اپنا کام کرنے کا موقع دیتا ہے ۔ اس نے اپنی ذی اختیار مخلوق ( جن و انسان ) کو خیر اور شر میں سے کسی ایک کے انتخاب کر لینے کی آزادی عطا کر دی ہے ۔ جو چاہے اس کار گاہ عالم میں اپنے لیے خیر کا کام پسند کر لے اور جو چاہے شر کا کام ۔ دونوں قسم کے کارکنوں کو ، جس حد تک خدائی مصلحتیں اجازت دیتی ہیں ، اسباب کی تائید نصیب ہوتی ہے ۔ لیکن اللہ کی رضا اور اس کی پسندیدگی صرف خیر ہی کے لیے کام کرنے والوں کو حاصل ہے اور اللہ کو محبوب یہی بات ہے کہ اس کے بندے اپنی آزادی انتخاب سے فائدہ اٹھا کر خیر کو اختیار کریں نہ کہ شر کو ۔ اس کے ساتھ یہ بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ یہ جو اللہ تعالیٰ دشمنان حق کی مخالفانہ کارروائیوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنی مشیت کا بار بار حوالہ دیتا ہے اس سے مقصود دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ، اور آپ کے ذریعہ سے اہل ایمان کو یہ سمجھانا ہے کہ تمہارے کام کی نوعیت فرشتوں کے کام کی سی نہیں ہے جو کسی مزاحمت کے بغیر احکام الہٰی کی تعمیل کر رہے ہیں ۔ بلکہ تمہارا اصل کام شریروں اور باغیوں کے مقابلہ میں اللہ کے پسند کردہ طریقہ کو غالب کرنے کے لیے جد و جہد کرنا ہے ۔ اللہ اپنی مشیت کے تحت ان لوگوں کو بھی کام کرنے کا موقع دے رہا ہے جنہوں نے اپنی سعی و جہد کے لیے خود اللہ سے بغاوت کے راستے کو اختیار کیا ہے ، اور اسی طرح وہ تم کو بھی ، جنھوں نے طاعت و بندگی کے راستے کو اختیار کیا ہے ، کام کرنے کا پورا موقع دیتا ہے ۔ اگرچہ اس کی رضا اور ہدایت و رہنمائی اور تائید و نصرت تمہارے ہی ساتھ ہے ، کیونکہ تم اس پہلو میں کام کر رہے ہو جسے وہ پسند کرتا ہے ، لیکن تمھیں یہ توقع نہ رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی فوق الفطری مداخلت سے ان لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کر دے گا جو ایمان نہیں لانا چاہتے ، یا ان شیاطین جن و انس کو زبردستی تمہارے راستہ سے ہٹا دے گا جنھوں نے اپنے دل و دماغ کو اور دست و پا کو قوتوں کو اور اپنے وسائل و ذرائع کو حق کی راہ روکنے کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ نہیں ، اگر تم نے واقعی حق اور نیکی اور صداقت کے لیے کام کرنے کا عزم کیا ہے تو تمھیں باطل پرستوں کے مقابلہ میں سخت کشمکش اور جدوجہد کر کے اپنی حق پرستی کا ثبوت دینا ہوگا ۔ ورنہ معجزوں کے زور سے باطل کو مٹانا اور حق کو غالب کرنا ہوتا تو تمہاری ضرورت ہی کیا تھی ، اللہ خود ایسا انتظام کر سکتا تھا کہ دنیا میں کوئی شیطان نہ ہوتا اور کسی شرک و کفر کے ظہور کا امکان نہ ہوتا ۔
ہر نبی کو ایذاء دی گئی ارشاد ہوتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ تنگ دل اور مغموم نہ ہوں جس طرح آپ کے زمانے کے یہ کفار آپ کی دشمنی کرتے ہیں اسی طرح ہر نبی کے زمانے کے کفار اپنے اپنے نبیوں کے ساتھ دشمنی کرتے رہے ہیں جیسے اور آیت میں تسلی دیتے ہوئے فرمایا آیت ( وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوْا عَلٰي مَا كُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰى اَتٰىهُمْ نَصْرُنَا ۚ وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ ۚ وَلَقَدْ جَاۗءَكَ مِنْ نَّبَاِى الْمُرْسَلِيْنَ ) 6 ۔ الانعام:34 ) تجھ سے پہلے کے پیغمبروں کو بھی جھٹلایا گیا انہیں بھی ایذائیں پہنچائی گئیں جس پر انہوں نے صبر کی اور آیت میں کہا گیا ہے کہ تجھ سے بھی وہی کہا جاتا ہے جو تجھ سے پہلے کے نبیوں کو کہا گیا تھا تیرا رب بڑی مغفرت والا ہے اور سات ہی المناک عذاب کرنے والا بھی ہے اور آیت میں ہے ( وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِيْنَ ۭ وَكَفٰى بِرَبِّكَ هَادِيًا وَّنَصِيْرًا ) 25 ۔ الفرقان:31 ) ہم نے گنہگاروں کو ہر نبی کا دشمن بنا دیا ہے یہی بات ورقہ بن نوفل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہی تھی کہ آپ جیسی چیز جو رسول بھی لے کر آیا اس سے عداوت کی گئی نبیوں کے دشمن شریر انسان بھی ہوتے ہیں اور جنات بھی عدوا سے بدل شیاطین الانس والجن ہے ، انسانوں میں بھی شیطان ہیں اور جنوں میں بھی ، حضرت ابا ذر رضی اللہ عنہ ایک دن نماز پڑھ رہے تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کیا تم نے شیاطین انس و جن سے اللہ کی پناہ بھی مانگ لی ؟ صحابی نے پوچھا کیا انسانوں میں بھی شیطان ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ، یہ حدیث منقطع ہے ، ایک اور روایت میں ہے کہ میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس مجلس میں آپ دیر تک تشریف فرما رہے ، مجھ سے فرمانے لگے ابو ذر تم نے نماز پڑھ لی؟ صحابی نے پوچھا کیا انسانوں میں بھی شیطان ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ، یہ حدیث منقطع ہے ، ایک اور روایت میں ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس مجلس میں آپ دیر تک تشریف فرما رہے ، مجھ سے فرمانے لگے ابو ذر تم نے نماز پڑھ لی ؟ میں نے کہا یا رسول اللہ نہیں پڑھی آپ نے فرمایا اٹھو اور دو رکعت ادا کر لو ، جب میں فارغ ہو کر آیا تو فرمانے لگے کیا تم نے انسان و جنات شیاطین سے اللہ کی پناہ مانگی تھی؟ میں نے کہا نہیں ، کیا انسانوں میں بھی شیطان ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں اور وہ جنوں کے شیطانوں سے بھی زیادہ شریر ہیں اس میں بھی انقطاع ہے ، ایک متصل روایت مسند احمد میں مطول ہے اس میں یہ بھی ہے کہ یہ واقعہ مسجد کا ہے اور روایت میں حضور صلی اللہ عیلہ وسلم کا اس فرمان کے بعد یہ پڑھنا بھی مروی ہے کہ آیت ( وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَـيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ يُوْحِيْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا ) 6 ۔ الانعام:112 ) الغرض یہ حدیث بہت سی سندوں سے مروی ہے جس سے قوت صحت کا فائدہ ہو جاتا ہے واللہ اعلم ، عکرمہ سے مروی ہے کہ انسانوں میں شیطان نہیں جنات کے شیاطین ایک دوسرے سے کانا پھوسی کرتے ہیں ، آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ انسانوں میں شیطان نہیں جنات کے شیاطن ایک دوسرے سے کانا پھوسی کرتے ہیں آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ انسانوں کے شیطان جو انسانوں کو گمراہ کرتے ہیں اور جنوں کے شیطان جو جنون کو گمراہ کرتے ہیں جب آپس میں ملتے ہیں تو ایک دوسرے سے اپنی کار گذاری بیان کرتے ہیں کہ میں نے فلاں کو اس طرح بہکا یا تو فلاں کو اس طرح بہکایا ایک دوسرے کو گمراہی کے طریقے بتاتے ہیں اس سے امام ابن جریر تو یہ سمجھے ہیں کہ شیطان تو جنوں میں سے ہی ہوتے ہیں لیکن بعض انسانوں پر لگے ہوئے ہوتے ہیں بعض جنات پر تو یہ مطلب عکرمہ کے قول سے تو ظاہر ہے ہاں سدی کے قول میں متحمل ہے ایک قول میں عکرمہ اور سدی دونوں سے یہ مروی ہے ، ابن عباس فرماتے ہیں جنات کے شیاطین ہیں جو انہیں بہکاتے ہیں جیسے انسانوں کے شیطان جو انہیں بہکاتے ہیں اور ایک دوسرے سے مل کر مشورہ دیتے ہیں کہ اسے اس طرح بہکا ۔ صحیح وہی ہے جو حضرت ابو ذر والی حدیث میں اوپر گذرا ۔ عربی میں ہر سرکش شریر کو شیطان کہتے ہیں صحیح مسلم میں ہے کہ حضور نے سیاہ رنگ کے کتے کو شیطان فرمایا ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ کتوں میں شیطان ہے واللہ اعلم ۔ مجاہد فرماتے ہیں کفار جن کفار انسانوں کے کانوں میں صور پھونکتے رہتے ہیں ۔ عکرمہ فرماتے ہیں میں مختار ابن ابی عبید کے پاس گیا اس نے میری بڑی تعظیم تکریم کی اپنے ہاں مہمان بنا کر ٹھہرایا رات کو بھی شاید اپنے ہاں سلاتا لیکن مجھ سے اس نے کہا کہ جاؤ لوگوں کو کجھ سناؤ میں جا کر بیٹھا ہی تھا کہ ایک شخص نے مجھ سے پوچھا آپ وحی کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟ میں نے کہا وحی کی دو قسمیں ہیں ایک اللہ کی طرف سے جیسے فرمان ہے آیت ( بِمَآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ ڰ وَاِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الْغٰفِلِيْنَ ) 12 ۔ یوسف:3 ) اور دوسری وحی شیطانی جیسے فرمان ہے ( وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَـيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ يُوْحِيْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا ) 6 ۔ الانعام:112 ) اتنا سنتے ہی لوگ میرے اوپر پل پڑے قریب تھا کہ پکڑ کر مارپیٹ شروع کر دیں میں نے کہا ارے بھائیو! یہ تم میرے ساتھ کیا کرنے لگے؟ میں نے تو تمہارے سوال کا جواب دیا اور میں تو تمہارا مہمان ہوں چنانچہ انہوں نے مجھے چھوڑ دیا ۔ مختار ملعون لوگوں سے کہتا تھا کہ میرے پاس وحی آتی ہے اس کی بہن حضرت صفیہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے گھر میں تھیں اور بڑی دیندار تھیں جب حضرت عبداللہ کو مختار کا یہ قول معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا وہ ٹھیک کہتا ہے قرآن میں ہے ( وَاِنَّ الشَّيٰطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ اِلٰٓي اَوْلِيٰۗـــِٕــهِمْ لِيُجَادِلُوْكُمْ ۚ وَاِنْ اَطَعْتُمُوْهُمْ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَ ) 6 ۔ الانعام:121 ) یعنی شیطان بھی اپنے دوستوں کی طرف وحی لے جاتے ہیں ، الغرض ایسے متکبر سرکش جنات و انس آپ میں ایک دوسرے کو دھوکے بازی کی باتین سکھاتے ہیں یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر اور چاہت و مشیت ہے وہ ان کی وجہ سے اپنے نبیوں کی اولوالعزمی اپنے بندوں کو دکھا دیتا ہے ، تو ان کی عداوت کا خیال بھی نہ کر ، ان کا جھوٹ تجھے کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکے گا تو اللہ پر بھروسہ رکھ اسی پر توکل کر اور اپنے کام اسے سونپ کر بےفکر ہو جا ، وہ تجھے کافی ہے اور وہی تیرا مددگار ہے ، یہ لوگ جو اس طرح کی خرافات کر تے ہیں یہ محض اسلئے کہ بے ایمانوں کے دل ان کی نگاہیں اور ان کے کان ان کی طرف جھک جائیں وہ ایسی باتوں کو پسند کریں اس سے خوش ہو جائیں پس ان کی باتیں وہی قبول کرتے ہیں جنہیں آخرت پر ایمان نہیں ہوتا ، ایسے واصل جہنم ہونے والے بہکے ہوئے لوگ ہی ان کی فضول اور چکنی چپڑی باتوں میں پھنس جاتے ہیں پھر وہ کرتے ہیں جو ان کے قابل ہے ۔