Surah

Information

Surah # 6 | Verses: 165 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 55 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
وَهُوَ الَّذِىۡۤ اَنۡشَاَ جَنّٰتٍ مَّعۡرُوۡشٰتٍ وَّغَيۡرَ مَعۡرُوۡشٰتٍ وَّالنَّخۡلَ وَالزَّرۡعَ مُخۡتَلِفًا اُكُلُهٗ وَالزَّيۡتُوۡنَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَّغَيۡرَ مُتَشَابِهٍ ‌ؕ كُلُوۡا مِنۡ ثَمَرِهٖۤ اِذَاۤ اَثۡمَرَ وَاٰتُوۡا حَقَّهٗ يَوۡمَ حَصَادِهٖ‌ ‌ۖ وَلَا تُسۡرِفُوۡا‌ ؕ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الۡمُسۡرِفِيۡنَ‏ ﴿141﴾
اور وہی ہے جس نے باغات پیدا کئے وہ بھی جو ٹٹیوں پر چڑھائے جاتے ہیں اور وہ بھی جو ٹٹیوں پر نہیں چڑھائے جاتے ہیں اور کھجور کے درخت اور کھیتی جن میں کھانے کی چیزیں مختلف طور کی ہوتی ہیں اور زیتون اور انار جو باہم ایک دوسر ےکے مشابہ بھی ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے مشابہ نہیں بھی ہوتے ان سب کے پھلوں میں سے کھاؤ جب وہ نکل آئے اور اس میں جو حق واجب ہے وہ اس کے کاٹنے کے دن دیا کرو اور حد سے مت گزرو یقیناً وہ حد سے گزرنے والوں کو نا پسند کرتا ہے ۔
و هو الذي انشا جنت معروشت و غير معروشت و النخل و الزرع مختلفا اكله و الزيتون و الرمان متشابها و غير متشابه كلوا من ثمره اذا اثمر و اتوا حقه يوم حصاده و لا تسرفوا انه لا يحب المسرفين
And He it is who causes gardens to grow, [both] trellised and untrellised, and palm trees and crops of different [kinds of] food and olives and pomegranates, similar and dissimilar. Eat of [each of] its fruit when it yields and give its due [zakah] on the day of its harvest. And be not excessive. Indeed, He does not like those who commit excess.
Aur wohi hai jiss ney baghaat peda kiye woh bhi jo tattiyon per charhaye jatay hain aur woh bhi jo tattiyon per nahi charhaye jatay aur khujoor kay adrakht aur kheti jin mein khaney ki cheezen mukhatalif tor ki hoti hain aur zaitoon aur anaar jo bahum aik doosray kay mushabay bhi hotay hain aur aik doosray kay mushabay nahi bhi hotay inn sab kay phalon mein say khao jab woh nikal aaye aue iss mein jo haq wajib hai woh iss kay kaatney kay din diya kero aur hadd say mat guzro yaqeenan woh hadd say guzarney walon ko na pasand kerta hai.
اللہ وہ ہے جس نے باغات پیدا کیے جن میں سے کچھ ( بیل دار ہیں جو ) سہاروں سے اوپر چڑھائے جاتے ہیں ، اور کچھ سہاروں کے بغیر بلند ہوتے ہیں ، اور نخلستان اور کھیتیاں ، جن کے ذائقے الگ الگ ہیں ، اور زیتون اور انار ، جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں ، اور ایک دوسرے سے مختلف بھی ۔ ( ٧٢ ) جب یہ درخت پھل دیں تو ان کے پھلوں کو کھانے میں استعمال کرو ، اور جب ان کی کٹائی کا دن آئے تو اللہ کا حق ادا کرو ، ( ٧٣ ) اور فضول خرچی نہ کرو ۔ یاد رکھو ، وہ فضول خرچ لوگوں کو پسند نہیں کرتا ۔
اور وہی ہے جس نے پیدا کیے باغ کچھ زمین پر چھئے ( چھائے ) ہوئے ( ف۲۸٦ ) اور کچھ بےچھئے ( پھیلے ) اور کھجور اور کھیتی جس میں رنگ رنگ کے کھانے ( ف۲۸۷ ) اور زیتون اور انار کسی بات میں ملتے ( ف۲۸۸ ) اور کسی میں الگ ( ف۲۸۹ ) کھاؤ اس کا پھل جب پھل لائے اور اس کا حق دو جس دن کٹے ( ف۲۹۰ ) اور بےجا نہ خرچو ( ف۲۹۱ ) بیشک بےجا خرچنے والے اسے پسند نہیں ،
وہ اللہ ہی ہے جس نے طرح طرح کے باغ اور تاکستان 116 اور نخلستان پیدا کیے ، کھیتیاں اگائیں جن سے قسم قسم کے ماکولات حاصل ہوتے ہیں ، زیتون اور انار کے درخت پیدا کیے جن کے پھل صورت میں مشابہ اور مزے میں مختلف ہوتے ہیں ۔ کھاؤ ان کی پیداوار جب کہ یہ پھلیں ، اور اللہ کا حق ادا کرو جب ان کی فصل کاٹو ، اور حد سے نہ گزرو کہ اللہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔
اور وہی ہے جس نے برداشتہ اور غیر برداشتہ ( یعنی بیلوں کے ذریعے اوپر چڑھائے گئے اور بغیر اوپر چڑھائے گئے ) باغات پیدا فرمائے اور کھجور ( کے درخت ) اور زراعت جس کے پھل گوناگوں ہیں اور زیتون اور انار ( جو شکل میں ) ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور ( ذائقہ میں ) جداگانہ ہیں ( بھی پیدا کئے ) ۔ جب ( یہ درخت ) پھل لائیں تو تم ان کے پھل کھایا ( بھی ) کرو اور اس ( کھیتی اور پھل ) کے کٹنے کے دن اس کا ( اﷲ کی طرف سے مقرر کردہ ) حق ( بھی ) ادا کر دیا کرو اور فضول خرچی نہ کیا کرو ، بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :116 اصل میں جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وّ غَیْرَ مَعْرُوْشٰتٍ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن سے مراد دو طرح کے باغ ہیں ، ایک وہ جن کی بیلیں ٹٹیوں پر چڑھائی جاتی ہیں ، دوسرے وہ جن کے درخت خود اپنے تنوں پرکھڑے رہتے ہیں ۔ ہماری زبان میں باغ کا لفظ صرف دوسری قسم کے باغوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اس لیے ہم نے جَنّٰتٍّ غَیْرَ مَعْرُوْشٰتٍ کا ترجمہ”باغ“ کیا ہے اور جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ کے لیے ”تاکستان“ ( یعنی انگوری باغ ) کا لفظ اختیار کیا ہے ۔
مسائل زکوٰۃ اور عشر مظاہر قدرت خالق کل اللہ تعالیٰ ہی ہے کھیتیاں پھل چوپائے سب اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں کافروں کو کوئی حق نہیں کہ حرام حلال کی تقسیم از خود کریں ۔ درخت بعض تو بیل والے ہیں جیسے انگور وغیرہ کہ وہ محفوظ ہوتے ہیں بعض کھڑے جو جنگلوں اور پہاڑوں پر کھڑے ہوئے ہیں ۔ دیکھنے میں ایک دورے سے ملتے جلتے مگر پھلوں کے ذائقے کے لحاظ سے الگ الگ ۔ انگور کھجور یہ درخت تمہیں دیتے ہیں کہ تم کھاؤ مزہ اٹھاؤ لطف پاؤ ۔ اس کا حق اس کے کٹنے اور ناپ تول ہونے کے دن ہی دو یعنی فرض زکوٰۃ جو اس میں مقرر ہو وہ ادا کر دو ۔ پہلے لوگ کچھ نہیں دیتے تھے شریعت نے دسواں حصہ مقرر کیا اور ویسے بھی مسکینوں اور بھوکوں کا خیال رکھنا ۔ چنانچہ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ حضور نے فرمان صادر فرمایا تھا کہ جس کی کھجوریں دس وسق سے زیادہ ہوں وہ چند خوشے مسجد میں لا کر لٹکا دے تاکہ مساکین کھا لیں ۔ یہ بھی مراد ہے کہ زکوٰۃ کے سوا اور کچھ سلوک بھی اپنی کھیتیوں باڑیوں اور باغات کے پھلوں سے اللہ کے بندوں کے ساتھ کرتے رہو ، مثلاً پھل توڑنے اور کھیت کاٹنے کے وقت عموماً مفلس لوگ پہنچ جایا کرتے ہیں انہیں کچھ چھوڑ دو تاکہ مسکینوں کے کام آئے ۔ ان کے جانوروں کا چارہ ہو ، زکوٰۃ سے پہلے بھی حقداروں کو کچھ نہ کچھ دیتے رہا کرو ، پہلے تو یہ بطور وجوب تھا لیکن زکوٰۃ کی فرضیت کے بعد بطور نفل رہ گیا زکوٰۃ اس میں عشر یا نصف عشر مقرر کر دی گئی لیکن اس سے فسخ نہ سمجھا جائے ۔ پہلے کچھ دینار ہوتا تھا پھر مقدار مقرر کر دی گئی زکوٰۃ کی مقدار سنہ ٢ ہجری میں مقرر ہوئی ۔ واللہ اعلم ۔ کھیتی کاٹتے وقت اور پھل اتارتے وقت صدقہ نہ دینے والوں کی اللہ تعالیٰ نے مذمت بیان فرمائی سورۃ کہف ، میں ان کا قصہ بیان فرمایا کہ ان باغ والوں نے قسمیں کھا کر کہا کہ صبح ہوتے ہی آج کے پھل ہم اتار لیں گے اس پر انہوں نے ان شاء اللہ بھی نہ کہا ۔ یہ ابھی رات کو بےخبری کی نیند میں ہی تھے وہاں آفت ناگہانی آ گئی اور سارا باع ایسا ہو گیا گویا پھل توڑ لیا گیا ہے بلکہ جلا کر خاکستر کر دیا گیا ہے یہ صبح کو اٹھ کر ایک دوسرے کو جگا کر پوشیدہ طور سے چپ چاپ چلے کہ ایسا نہ ہو حسب عادت فقیر مسکین جمع ہو جائیں اور انہیں کچھ دینا پڑے یہ اپنے دلوں میں یہی سوچتے ہوئے کہ ابھی پھل توڑ لائیں گے بڑے اہتمام کے ساتھ صبح سویرے ہی وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ سارا باغ تو خاک بنا ہوا ہے اولاً تو کہنے لگے بھئی ہم راستہ بھول گئے کسی اور جگہ آ گئے ہمارا باغ تو شام تک لہلہا رہا تھا پھر کہنے لگا نہیں باغ تو یہی ہے ہماری قسمت پھوٹ گئی ہم محروم ہو گئے ۔ اس وقت ان میں جو باخبر شخص تھا کہنے لگا دیکھو میں تم سے نہ کہتا تھا کہ اللہ کا شکر کرو اس کی پاکیزگی بیان کرو ۔ اب تو سب کے سب کہنے لگے ہمارا رب پاک ہے یقینا ہم نے ظلم کیا پھر ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے کہ ہائے ہماری بد بختی کہ ہم سر کش اور حد سے گذر جانے والے بن گئے تھے ۔ ہمیں اب بھی اللہ عزوجل سے امید ہے کہ وہ ہمیں اس سے بہتر عطا فرمائے گا ہم اب صرف اپنے رب سے امید رکھتے ہیں ۔ ناشکری کرنے اور تنہا خوری پسند کرنے والوں پر اسی طرح ہمارے عذاب آیا کرتے ہیں اور بھی آخرت کے بڑے عذاب باقی ہیں لیکن افسوس کہ یہ سمجھ بوجھ اور علم و عقل سے کام ہی نہیں لیتے ۔ یہاں اس آیت میں صدقہ دینے کا حکم فرما کر خاتمے پر فرمایا کہ فضول خرچی سے بچو فضول خرچ اللہ کا دوست نہیں ۔ اپنی اوقات سے زیادہ نہ لٹا فخر دریا کے طور پر اپنا مال برباد نہ کرو ۔ حضرت ثابت بن قیس بن شماس نے اپنے کھجوروں کے باغ سے کھجوریں اتاریں اور عہد کر لیا کہ آج جو لینے آئے گا میں اسے دوں گا لوگ ٹوٹ پڑے شام کو ان کے پاس ایک کھجور بھی نہ رہی ۔ اس پر یہ فرمان اترا ۔ ہر چیز میں اسراف منع ہے ، اللہ کے حکم سے تجاوز کر جانے کا نام اسراف ہے خواہ وہ کسی بارے میں ہو ۔ اپنا سارا ہی مال لٹا کر فقیر ہو کر دوسروں پر اپنا انبار ڈال دینا بھی اسراف ہے اور منع ہے ، یہ بھی مطلب ہے کہ صدقہ نہ روکو جس سے اللہ کے نافرمان بن جاؤ یہ بھی اسراف ہے گویہ مطلب اس آیت کے ہیں لیکن بظاہر الفاظ یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے کھانے کا ذکر ہے تو اسراف اپنے کھانے پینے میں کرنے کی ممانعت یہاں ہے کیونکہ اس سے عقل میں اور بدن میں ضرر پہنچا ہے ۔ قرآن کی اور آیت میں ہے آیت ( وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا ۚ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ ) 7 ۔ الاعراف:31 ) کھاؤ پیو اور اسراف نہ کرو ۔ صحیح بخاری میں ہے کھاؤ پیو پہنو اوڑھو لیکن اسراف اور کبر سے بچوں واللہ اعلم ۔ اسی اللہ نے تمہارے لئے چوپائے پیدا کئے ہیں ان میں سے بعض تو بوجھ ڈھونے والے ہیں جیسے اونٹ گھوڑے خچر گدھے وغیرہ اور بعض پستہ قد ہیں جیسے بکری وغیرہ ، انہیں ( فرش ) اس لئے کہا گیا کہ یہ قد و قامت میں پست ہوتے ہیں زمین سے ملے رہتے ہیں ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ( حمولہ ) سے مراد سواری کے جانور اور ( فرشا ) سے مراد جن کا دودھ پیا جاتا ہے اور جن کا گوشت کھایا جاتا ہے جو سواری کے قابل نہیں ان کے بالوں سے لحاف اور فرش تیار ہوتے ہیں ۔ یہ قول حضرت سدی کا ہے اور بہت ہی مناسب ہے خود قرآن کی سورۃ یاسین میں موجود ہے کہ کیا انہوں نے اس بات پر نظر نہیں کی؟ کہ ہم نے ان کے لئے چوپائے پیدا کر دیئے ہیں جو ہمارے ہی ہاتھوں کے بنائے ہوئے ہیں اور اب یہ ان کے مالک بن بیٹھے ہیں ہم نے ہی تو انہیں ان کے بس میں کر دیا ہے کہ بعض سوریاں کر رہے ہیں اور بعض کو یہ کھانے کے کام میں لاتے ہیں اور آیت میں ہے آیت ( وَاِنَّ لَكُمْ فِي الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۭ نُسْقِيْكُمْ مِّمَّا فِيْ بُطُوْنِهٖ مِنْۢ بَيْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَاۗىِٕغًا لِّلشّٰرِبِيْنَ ) 16 ۔ النحل:66 ) مطلب یہ ہے کہ ہم تمہیں ان چوپایوں کا دودھ پلاتے ہیں اور ان کے بال اون وغیرہ سے تمہارے اوڑھنے بچھونے اور طرح طرح کے فائدے اٹھانے کی چیزیں بناتے ہیں اور جگہ ہے اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لئے چوپائے جانور پیدا کئے تاکہ تم ان پر سواریاں کرو انہیں کھاؤ اور بھی فائدے اٹھاؤ ان پر اپنے سفر طے کر کے اپنے کام پورے کرو اسی نے تمہاری سواری کیلئے کشتیاں بنا دیں وہ تمہیں اپنی بیشمار نشانیاں دکھا رہا ہے بتاؤ تو کس کس نشانی کا انکار کرو گے؟ پھر فرماتا ہے اللہ کی روزی کھاؤ پھل ، اناج ، گوشت وغیرہ ۔ شیطانی راہ پر نہ چلو ، اس کی تابعداری نہ رو جیسے کہ مشرکوں نے اللہ کی چیزوں میں از خود حلال حرام کی تقسیم کر دی تم بھی یہ کر کے شیطان کے ساتھی نہ بنو ۔ وہ تمہارا دشمن ہے ، اسے دوست نہ سمجھو ۔ وہ تو اپنے ساتھ تمہیں بھی اللہ کے عذابوں میں پھنسانا چاہتا ہے ، دیکھو کہیں اس کے بہکانے میں نہ آ جانا اسی نے تمہارے باپ آدم کو جنت سے باہر نکلوایا ، اس کھلے دشمن کو بھولے سے بھی اپنا دوست نہ سمجھو ۔ اس کی ذریت سے اور اس کے یاروں سے بھی بچو ۔ یاد رکھو ظالموں کو برا بدلہ ملے گا ۔ اس مضمون کی اور بھی آیتیں کلام اللہ شریف میں بہت سی ہیں ۔