Surah

Information

Surah # 6 | Verses: 165 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 55 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
‌قُل لَّاۤ اَجِدُ فِىۡ مَاۤ اُوۡحِىَ اِلَىَّ مُحَرَّمًا عَلٰى طَاعِمٍ يَّطۡعَمُهٗۤ اِلَّاۤ اَنۡ يَّكُوۡنَ مَيۡتَةً اَوۡ دَمًا مَّسۡفُوۡحًا اَوۡ لَحۡمَ خِنۡزِيۡرٍ فَاِنَّهٗ رِجۡسٌ اَوۡ فِسۡقًا اُهِلَّ لِغَيۡرِ اللّٰهِ بِهٖ‌‌ۚ فَمَنِ اضۡطُرَّ غَيۡرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّكَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿145﴾
آپ کہہ دیجئے کہ جو کچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ان میں تو میں کوئی حرام نہیں پاتا کسی کھانے والے کے لئے جو اس کو کھائے ، مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا کہ بہتا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو ، کیونکہ وہ بالکل ناپاک ہے یا جو شرک کا ذریعہ ہو کہ غیر اللہ کے لئے نامزد کر دیا گیا ہو پھر جو شخص مجبور ہو جائے بشرطیکہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ تجاوز کرنے والا ہو تو واقعی ہی آپ کا رب غفور ا لرحیم ہے ۔
قل لا اجد في ما اوحي الي محرما على طاعم يطعمه الا ان يكون ميتة او دما مسفوحا او لحم خنزير فانه رجس او فسقا اهل لغير الله به فمن اضطر غير باغ و لا عاد فان ربك غفور رحيم
Say, "I do not find within that which was revealed to me [anything] forbidden to one who would eat it unless it be a dead animal or blood spilled out or the flesh of swine - for indeed, it is impure - or it be [that slaughtered in] disobedience, dedicated to other than Allah . But whoever is forced [by necessity], neither desiring [it] nor transgressing [its limit], then indeed, your Lord is Forgiving and Merciful."
Aap keh dijiye kay jo kuch ehkaam ba-zariya wahee meray pass aaye hain unn mein to mein koi haram nahi pata kissi khaney walay kay liye jo uss ko khaye magar yeh kay woh murdaar ho ya khinzeer ka gosht ho kiyon kay woh bilkul na pak hai ya jo shirk ka zariya ho kay ghair Allah kay liye naamzad ker diya gaya ho. Phir jo shaks majboor hojaye ba-shart-e-kay na to taalib-e-lazzat ho aur na tajawuz kerney wala ho to waqaee aap ka rab ghafoor-ur-raheem hai.
۔ ( اے پیغمبر ! ان سے ) کہو کہ : جو وحی مجھ پر نازل کی گئی ہے اس میں تو میں کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جس کا کھانا کسی کھانے والے کے لیے حرام ہو ( ٧٦ ) الا یہ کہ وہ مردار ہو ، یا بہتا ہوا خون ہو ، یا سور کا گوشت ہو ، کیونکہ وہ ناپاک ہے ، یا جو ایسا گناہ کا جانور ہو جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو ۔ ہاں جو شخص ( ان چیزوں میں سے کسی کے کھانے پر ) انتہائی مجبور ہوجائے ( ٧٧ ) جبکہ وہ نہ لذت حاصل کرنے کی غرض سے ایسا کر رہا ہو ، اور نہ ضرورت کی حد سے آگے بڑھے ، تو بیشک اللہ بہت بخشنے والا ، بڑا مہربان ہے ۔
تم فرماؤ ( ف۲۹٦ ) میں نہیں پاتا اس میں جو میری طرف وحی ہوئی کسی کھانے والے پر کوئی کھانا حرام ( ف۲۹۷ ) مگر یہ کہ مردار ہو یا رگوں کا بہتا خون ( ف۲۹۸ ) یا بد جانور کا گوشت وہ نجاست ہے یا وہ بےحکمی کا جانور جس کے ذبح میں غیر خدا کا نام پکارا گیا تو جو ناچار ہوا ( ف۲۹۹ ) نہ یوں کہ آپ خواہش کرے اور نہ یوں کہ ضرورت سے بڑھے تو بےشیک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ( ف۳۰۰ )
اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! ان سے کہو کہ جو وحی میرے پاس آئی ہے اس میں تو میں کوئی چیز ایسی نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو ، اِلّا یہ کہ وہ مردار ہو ، یا بہایا ہوا خون ہو ، یا سور کا گوشت ہو کہ وہ ناپاک ہے ، یا فسق ہو کہ اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو ۔ 121 پھر جو شخص مجبوری کی حالت میں ﴿کوئی چیز ان میں سے کھا لے﴾ بغیر اس کے کہ وہ نافرمانی کا ارادہ رکھتا ہو اور بغیر اس کے کہ وہ حدِ ضرورت سے تجاوز کرے ،
آپ فرما دیں کہ میری طرف جو وحی بھیجی گئی ہے اس میں تو میں کسی ( بھی ) کھانے والے پر ( ایسی چیز کو ) جسے وہ کھاتا ہو حرام نہیں پاتا سوائے اس کے کہ وہ مُردار ہو یا بہتا ہوا خون ہو یا سؤر کا گوشت ہو کیو نکہ یہ ناپاک ہے یا نافرمانی کا جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام بلند کیا گیا ہو ۔ پھر جو شخص ( بھوک کے باعث ) سخت لاچار ہو جائے نہ تو نافرمانی کر رہا ہو اور نہ حد سے تجاوز کر رہا ہو تو بیشک آپ کا رب بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :121 یہ مضمون سورہ بقرہ آیت ۷۳ اور سورہ مائدہ آیت ۳ میں گزر چکا ہے ، اور آگے سورہ نحل آیت ۱۱۵ میں آنے والا ہے ۔ سورہ بقرہ کی آیت اور اس آیت میں بظاہر اتنا اختلاف پایا جاتا ہے کہ وہاں محض ”خون“ کہا گیا ہے اور یہاں خون کے ساتھ مَسْفُوْح کی قید لگائی گئی ہے ، یعنی ایسا خون جو کسی جانور کو زخمی کر کے یا ذبح کر کے نکالا گیا ہو ۔ مگر دراصل یہ اختلاف نہیں بلکہ اس حکم کی تشریح ہے ۔ اسی طرح سورہ مائدہ کی آیت میں ان چار چیزوں کے علاوہ چند اور چیزوں کی حرمت کا بھی ذکر ملتا ہے ، یعنی وہ جانور جو گلا گھونٹ کر یا چوٹ کھا کر یا بلندی سے گر کر یا ٹکر کھا کر مرا ہو یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو ۔ لیکن فی الحقیقت یہ بھی اختلاف نہیں ہے بلکہ ایک تشریح ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جانور اس طور پر ہلاک ہوئے ہوں وہ بھی مردار کی تعریف میں آتے ہیں ۔ فقہائے اسلام میں سے ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ حیوانی غذاؤں میں سے یہی چار چیزیں حرام ہیں اور ان کے سوا ہر چیز کا کھانا جائز ہے ۔ یہی مسلک حضرت عبداللہ ابن عباس اور حضرت عائشہ کا تھا ۔ لیکن متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض چیزوں کے کھانے سے یا تو منع فرمایا ہے یا ان پر کراہت کا اظہار فرمایا ہے ۔ مثلاً پالتو گدھے ، کچیلوں والے درندے اور پنجوں والے پرندے ۔ اس وجہ سے اکثر فقہاء تحریم کو ان چار چیزوں تک محدود نہیں مانتے بلکہ دوسری چیزوں تک اسے وسیع قرار دیتے ہیں ۔ مگر اس کے بعد پھر مختلف چیزوں کی حلت و حرمت میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہوا ہے ۔ مثلاً پالتو گدھے کو امام ابوحنیفہ ، امام مالک اور امام شافعی حرام قرار دیتے ہیں ۔ لیکن بعض دوسرے فقہاء کہتے ہیں کہ وہ حرام نہیں ہے بلکہ کسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر اس کی ممانعت فرما دی تھی ۔ درندہ جانوروں اور شکاری پرندوں اور مردار خور حیوانات کو حنفیہ مطلقاً حرام قرار دیتے ہیں ۔ مگر امام مالک اور اَوزاعی کے نزدیک شکاری پرندے حلال ہیں ۔ لَیث کے نزدیک بلی حلال ہے ۔ امام شافعی کے نزدیک صرف وہ درندے حرام ہیں جو انسان پر حملہ کرتے ہیں ، جیسے شیر ، بھیڑیا ، چیتا وغیرہ ۔ عِکْرِمہ کے نزدیک کوا اور بجو دونوں حلال ہیں ۔ اسی طرح حنفیہ تمام حشرات الارض کو حرام قرار دیتے ہیں ، مگر ابن ابی لیلیٰ ، امام مالک اور اوزاعی کے نزدیک سانپ حلال ہے ۔ ان تمام مختلف اقوال اور ان کے دلائل پر غور کرنے سے یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ دراصل شریعت الہٰی میں قطعی حرمت ان چار ہی چیزوں کی ہے جن کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے ۔ ان کے سوا دوسری حیوانی غذاؤں میں مختلف درجوں کی کراہت ہے ۔ جن چیزوں کی کراہت صحیح روایات کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے وہ حرمت کے درجہ سے قریب تر ہیں اور جن چیزوں میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہوا ہے ان کی کراہت مشکوک ہے ۔ رہی طبعی کراہت جس کی بنا پر بعض اشخاص بعض چیزوں کو کھانا پسند نہیں کرتے ، یا طبقاتی کراہت جس کی بنا پر انسانوں کے بعض طبقے بعض چیزوں کو ناپسند کرتے ہیں ، یا قومی کراہت جس کی بنا پر بعض قومیں بعض چیزوں سے نفرت کرتی ہیں ، تو شریعت الہٰی کسی کو مجبور نہیں کرتی کہ وہ خواہ مخواہ ہر اس چیز کو ضرور ہی کھا جائے جو حرام نہیں کی گئی ہے ۔ اور اسی طرح شریعت کسی کو یہ حق بھی نہیں دیتی کہ وہ اپنی کراہت کو قانون قرار دے اور ان لوگوں پر الزام عائد کرے جو ایسی غذائیں استعمال کرتے ہیں جنھیں وہ ناپسند کرتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حلال و حرام اللہ تعالیٰ عزوجل اپنے بندے اور نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ آپ ان کافروں سے جو اللہ کے حلال کو اپنی طرف سے حرام کرتے ہیں فرما دیں کہ جو وحی الٰہی میرے پاس آئی ہے اس میں تو حرام صرف ان چیزوں کو کیا گیا ہے ، جو میں تمہیں سناتا ہوں ، اس میں وہ چیزیں حرمت والی نہیں ، جن کی حرمت کو تم رائج کر رہے ہو ، کسی کھانے والے پر حیوانوں میں سے سوا ان جانوروں کے جو بیان ہوئے ہیں کوئی بھی حرام نہیں ۔ اس آیت کے مفہوم کا رفع کرنے والی سورۃ مائدہ کی آئیندہ آیتیں اور دوسری حدیثیں ہیں جن میں حرمت کا بیان ہے وہ بیان کی جائیں گی ، بعض لوگ اسے نسخ کہتے ہیں اور اکثر متأخرین اسے نسخ نہیں کہتے کیونکہ اس میں تو اصلی مباح کو اٹھا دینا ہے ۔ واللہ اعلم ۔ خون وہ حرام ہے جو بوقت ذبح بہ جاتا ہے ، رگوں میں اور گوشت میں جو خون مخلوط ہو وہ حرام نہیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا گدھوں اور درندوں کا گوشت اور ہنڈیا کے اوپر جو خون کی سرخی آ جائے ، اس میں کوئی حرج نہیں جانتی تھیں ۔ عمرو بن دینار نے حضرت جابر بن عبداللہ سے سوال کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خیبر کے موقعہ پر پالتو گدھوں کا کھانا حرام کر دیا ہے ، آپ نے فرمایا ، ہاں حکم بن عمر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی روایت کرتے ہیں لیکن حضرت ابن عباس اس کا انکار کرتے ہیں اور آیت ( قل لا اجد ) تلاوت کرتے ہیں ، ابن عباس کا فرمان ہے کہ اہل جاہلیت بعض چیزیں کھاتے تھے بعض کو بوجہ طبعی کراہیت کے چھوڑ دیتے تھے ۔ اللہ نے اپنے نبی کو بھیجا ، اپنی کتاب اتاری ، حلال حرام کی تفصیل کر دی ، پس جسے حلال کر دیا وہ حلال ہے اور جسے ہرام کر دیا وہ حرام ہے اور جس سے خاموش رہے وہ معاف ہے ۔ پھر آپ نے اسی آیت ( قل لا اجد ) کی تلاوت کی ۔ حضرت سودہ بنت زمعہ کی بکری مر گئی ، جب حضور سے ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا تم نے اس کی کھال کیوں نہ اتار لی ؟ جواب دیا کہ کیا مردہ بکری کی کھال اتار لینی جائز ہے؟ آپ نے یہی آیت تلاوت فرما کر فرمایا کہ اس کا صرف کھانا حرام ہے ، لیکن تم اسے دباغت دے کر نفع حاصل کر سکتے ہوں ۔ چنانچہ انہوں نے آدمی بھیج کر کھال اتروالی اور اس کی مشک بنوائی جو ان کے پاس مدتوں رہی اور کام آئی ۔ ( بخاری وغیرہ ) حضرت ابن عمر سے قنفد ( یعنی خار پشت جسے اردو میں ساہی بھی کہتے ہیں ) کے کھانے کی نسبت سوال ہوا تو آپ نے یہی آیت پڑھی اس پر ایک بزرگ نے فرمایا میں نے حضرت ابو ہریرہ سے سنا ہے کہ ایک مرتبہ اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا تھا تو آپ نے فرمایا وہ خبیثوں میں سے ایک خبیث ہے اسے سن کر حضرت ابن عمر نے فرمایا اگر حضور نے یہ فرمایا ہے تو وہ یقینا ویسی ہی ہے جیسے آپ نے ارشاد فرما دیا ( ابو داؤد وغیرہ ) پھر فرمایا جو شخص ان حرام چیزوں کو کھانے پر مجبور ہو جائے لیکن وہ باغی اور ہد سے تجاوز کرنے والا نہ ہو تو اسے اس کا کھا لینا جائز ہے اللہ اسے بخش دے گا کیونکہ وہ غفور و رحیم ہے اس کی کامل تفسیر سورۃ بقرہ میں گذر چکی ہے یہاں تو مشرکوں کے اس فعل کی تردید منظور ہے جو انہوں نے اللہ کے حلال کو حرام کر دیا تھا اب بتا دیا گیا کہ یہ چیزیں تم پر حرام ہیں اس کے علاوہ کوئی چیز حرام نہیں ۔ اگر اللہ کی طرف سے وہ بھی حرام ہوتیں تو ان کا ذکر بھی آ جاتا ۔ پھر تم اپنی طرف سے حلال کیوں مقرر کرتے ہو؟ اس بنا پر پھر اور چیزوں کی حرمت باقی رہتی جیسے کہ گھروں کے پالتو گدھوں کی ممانعت اور درندوں کے گوشت کی اور جنگل والے پرندوں کی جیسے کہ علماء کا مشہور مذہب ہے ( یہ یاد رہے کہ ان کی حرمت قطعی ہے کیونکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے اور قرآن نے حدیث کا ماننا بھی فرض کیا ہے ۔ مترجم )