Surah

Information

Surah # 6 | Verses: 165 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 55 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
قُلۡ فَلِلّٰهِ الۡحُجَّةُ الۡبَالِغَةُ‌ ۚ فَلَوۡ شَآءَ لَهَدٰٮكُمۡ اَجۡمَعِيۡنَ‏ ﴿149﴾
آپ کہئے کہ بس پوری حجت اللہ ہی کی رہی ۔ پھر اگر وہ چاہتا تو تم سب کو راہ راست پر لے آتا ۔
قل فلله الحجة البالغة فلو شاء لهدىكم اجمعين
Say, "With Allah is the far-reaching argument. If He had willed, He would have guided you all."
Aap kahiye kay bus poori hujjat Allah hi ki rahi. Phir agar woh chahata to tum sab ko raah-e-raast per ley aata.
۔ ( اے پیغمبر ! ان سے ) کہو کہ : ایسی دلیل تو اللہ ہی کی ہے جو ( دلوں تک ) پہنچنے والی ہو ۔ چنانچہ اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ( زبردستی ) ہدایت پر لے آتا ۔ ( ٨٠ )
تم فرماؤ تو اللہ ہی کی حجت پوری ہے ( ف۳۰۹ ) تو وہ چاہتا تو سب کی ہدایت فرماتا ،
پھر کہو ﴿تمہاری اس حجّت کے مقابلہ میں﴾ حقیقت رس حجت تو اللہ کے پاس ہے ، بے شک اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا ۔ 125
فرما دیجئے کہ دلیلِ محکم تو اﷲ ہی کی ہے ، پس اگر وہ ( تمہیں مجبور کرنا ) چاہتا تو یقیناً تم سب کو ( پابندِ ) ہدایت فرما دیتا٭
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :125 یہ ان کے عذر کا مکمل جواب ہے ۔ اس جواب کو سمجھنے کے لیے اس کا تجزیہ کر کے دیکھنا چاہیے: پہلی بات یہ فرمائی کہ اپنی غلط کاری و گمراہی کے لیے مشیت الہٰی کو معذرت کے طور پر پیش کرنا اور اسے بہانہ بنا کر صحیح رہنمائی کو قبول کرنے سے انکار کرنا مجرموں کا قدیم شیوہ رہا ہے ، اور اس کا انجام یہ ہوا ہے کہ آخر کار وہ تباہ ہوئے اور حق کے خلاف چلنے کا برا نتیجہ انہوں نے دیکھ لیا ۔ پھر فرمایا کہ یہ عذر جو تم پیش کررہے ہو یہ دراصل علم حقیقت پر مبنی نہیں ہے بلکہ محض گمان اور تخمینہ ہے ۔ تم نے محض مشیت کا لفظ کہیں سے سن لیا اور اس پر قیاسات کی ایک عمارت کھڑی کرلی ۔ تم نے یہ سمجھا ہی نہیں کہ انسان کے حق میں فی الواقع اللہ کی مشیت کیا ہے ۔ تم مشیت کے معنی یہ سمجھ رہے ہو کہ چور اگر میشت الہٰی کے تحت چوری کر رہا ہے تو وہ مجرم نہیں ہے ، کیونکہ اس نے یہ فعل خدا کی مشیت کے تحت کیا ہے ۔ حالانکہ دراصل انسان کے حق میں خدا کی مشیت یہ ہے کہ وہ شکر اور کفر ، ہدایت اور ضلالت ، طاعت اور معصیت میں سے جو راہ بھی اپنے لیے منتخب کرے گا ، خدا وہی راہ اس کے لیے کھول دے گا ، اور پھر غلط یا صحیح ، جو کام بھی انسان کرنا چاہے گا ، خدا اپنی عالمگیر مصلحتوں کا لحاظ کرتے ہوئے جس حد تک مناسب سمجھے گا اسے اس کام کا اذن اور اس کی توفیق بخش دے گا ۔ لہٰذا اگر تم نے اور تمہارے باپ دادا نے مشیت الہٰی کے تحت شرک اور تحریم طیبات کی توفیق پائی تو اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ تم لوگ اپنے ان اعمال کے ذمہ دار اور جواب دہ نہیں ہو ۔ اپنے غلط انتخاب راہ اور اپنے غلط ارادے اور سعی کے ذمہ دار تو تم خود ہی ہو ۔ آخر میں ایک ہی فقرے کے اندر کانٹے کی بات بھی فرما دی کہ فِللّٰہ الْحُجَّۃُ الْبَالِغَۃُ ، فَلَوْ شَآءَ لَھَدٰکُمْ اَجْمَعِیْنَ ۔ یعنی تم اپنی معذرت میں یہ حجت پیش کرتے ہو کہ ”اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے“ ، اس سے پوری بات ادا نہیں ہوتی ۔ پوری بات کہنا چاہتے ہو تو یوں کہو کہ ” اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا“ ۔ بالفاظ دیگر تم خود اپنے انتخاب سے راہ راست اختیار کر نے پر تیار نہیں ، بلکہ یہ چاہتے ہو کہ خدا نے جس طرح فرشتوں کو پیدائشی راست رو بنایا ہے اس طرح تمھیں بھی بنا دے ۔ تو بے شک اگر اللہ مشیت انسان کے حق میں ہوتی تو وہ ضرور ایسا کر سکتا تھا ، لیکن یہ اس کی مشیت نہیں ہے ، لہٰذا جس گمراہی کو تم نے اپنے لیے خود پسند کیا ہے اللہ بھی تمھیں اسی میں پڑا رہنے دے گا ۔