Surah

Information

Surah # 6 | Verses: 165 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 55 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
قُلۡ تَعَالَوۡا اَتۡلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمۡ عَلَيۡكُمۡ‌ اَلَّا تُشۡرِكُوۡا بِهٖ شَيۡـًٔـــا وَّبِالۡوَالِدَيۡنِ اِحۡسَانًا‌ ۚ وَلَا تَقۡتُلُوۡۤا اَوۡلَادَكُمۡ مِّنۡ اِمۡلَاقٍ‌ؕ نَحۡنُ نَرۡزُقُكُمۡ وَاِيَّاهُمۡ‌ ۚ وَلَا تَقۡرَبُوا الۡفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنۡهَا وَمَا بَطَنَ‌ ۚ وَلَا تَقۡتُلُوا النَّفۡسَ الَّتِىۡ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالۡحَـقِّ‌ ؕ ذٰ لِكُمۡ وَصّٰٮكُمۡ بِهٖ لَعَلَّكُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ‏ ﴿151﴾
آپ کہیے کہ آؤ میں تم کو وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جن ( یعنی جن کی مخالفت ) کو تمہارے رب نے تم پر حرام فرما دیا ہے وہ یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو اور اپنی اولاد کو افلاس کے سبب قتل مت کرو ۔ ہم تم کو اور ان کو رزق دیتے ہیں اور بے حیائی کے جتنے طریقے ہیں ان کے پاس بھی مت جاؤ خواہ وہ اعلانیہ ہوں خواہ پوشیدہ اور جس کا خون کرنا اللہ تعالٰی نے حرام کر دیا ہے اس کو قتل مت کرو ہاں مگر حق کے ساتھ ان کا تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم سمجھو ۔
قل تعالوا اتل ما حرم ربكم عليكم الا تشركوا به شيا و بالوالدين احسانا و لا تقتلوا اولادكم من املاق نحن نرزقكم و اياهم و لا تقربوا الفواحش ما ظهر منها و ما بطن و لا تقتلوا النفس التي حرم الله الا بالحق ذلكم وصىكم به لعلكم تعقلون
Say, "Come, I will recite what your Lord has prohibited to you. [He commands] that you not associate anything with Him, and to parents, good treatment, and do not kill your children out of poverty; We will provide for you and them. And do not approach immoralities - what is apparent of them and what is concealed. And do not kill the soul which Allah has forbidden [to be killed] except by [legal] right. This has He instructed you that you may use reason."
Aap kahiye kay aao mein tum ko woh cheezen parh ker sunaon jin ( yani jin ki mukhalifat ) ko tumharay rab ney tum per haram farma diya hai woh yeh kay Allah kay sath kissi cheez ko shareek mat thehrao aur maa baap kay sath ehsan kero aur apni aulad ko aflaas kay sabab qatal mat kero. Hum tum ko aur unn ko rizk detay hain aur bey hayaee kay jitney tareeqay hain unn kay pass bhi mat jao khuwa woh aelaaniya hon khuwa posheeda aur jiss ka khoon kerna Allah Taalaa ney haram ker diya hai uss ko qatal mat kero haan magar haq kay sath inn ka tum ko takeedi hukum diya hai takay tum samjho.
۔ ( ان سے ) کہو کہ : آؤ ، میں تمہیں پڑھ کر سناؤں کہ تمہارے پروردگار نے ( درحقیقت ) تم پر کونسی باتیں حرام کی ہیں ۔ وہ یہ ہیں کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ، اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو ، اور غربت کی وجہ سے اپنے بچوں کو قتل نہ کرو ۔ ہم تمہیں بھی رزق دیں گے اور ان کو بھی ۔ اور بے حیائی کے کاموں کے پاس بھی نہ پھٹکو ، چاہے وہ بے حیائی کھلی ہوئی ہو یا چھپی ہوئی ، ( ٨١ ) اور جس جان کو اللہ نے حرمت عطا کی ہے اسے کسی برحق وجہ کے بغیر قتل نہ کرو ۔ لوگو ! یہ ہیں وہ باتیں جن کی اللہ نے تاکید کی ہے تاکہ تمہیں کچھ سمجھ آئے ۔
تم فرماؤ آؤ میں تمہیں پڑھ کر سناؤں جو تم پر تمہارے رب نے حرام کیا ( ف۳۱۳ ) یہ کہ اس کا کوئی شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو ( ف۳۱٤ ) اور اپنی اولاد قتل نہ کرو مفلسی کے باعث ، ہم تمہیں اور انہیں سب کو رزق دیں گے ( ف۲۱۵ ) اور بےحیائیوں کے پاس نہ جاؤ جو ان میں کھلی ہیں اور جو چھپی ( ف۳۱٦ ) اور جس جان کی اللہ نے حرمت رکھی اسے ناحق نہ مارو ( ف۳۱۷ ) یہ تمہیں حکم فرمایا ہے کہ تمہیں عقل ہو
اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! ان سے کہو کہ آؤ میں تمہیں سناؤں تمہارے رب نے تم پر کیا پابندیاں عائد کی ہیں: 127 ﴿١﴾ یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، 128 ﴿۲﴾ اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو ، 129 ﴿۳﴾ اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو ، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی دیں گے ۔ ﴿٤﴾ اور بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاؤ 130 خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی ۔ ﴿۵﴾ اور کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھیرایا ہے ہلاک نہ کرو مگر حق کے ساتھ ۔ 131 یہ باتیں ہیں جن کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے ، شاید کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو ۔
فرما دیجئے: آؤ میں وہ چیزیں پڑھ کر سنا دوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کی ہیں ( وہ ) یہ کہ تم اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو ، اور مفلسی کے باعث اپنی اولاد کو قتل مت کرو ۔ ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی ( دیں گے ) ، اور بے حیائی کے کاموں کے قریب نہ جاؤ ( خواہ ) وہ ظاہر ہوں اور ( خواہ ) وہ پوشیدہ ہوں ، اور اس جان کو قتل نہ کرو جسے ( قتل کرنا ) اﷲ نے حرام کیا ہے بجز حقِ ( شرعی ) کے ، یہی وہ ( امور ) ہیں جن کا اس نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :127 یعنی تمہارے رب کے عائد کی ہوئی پابندیاں وہ نہیں ہیں جن میں تم گرفتار ہو ، بلکہ اصل پابندیاں یہ ہیں جو اللہ نے انسانی زندگی کو منضبط کرنے کے لیے عائد کی ہیں اور جو ہمیشہ سے شرائع الٰہیہ کی اصل الاُصُول رہی ہیں ۔ ( تقابل کے لیے ملاحظہ ہو بائیبل کی کتاب خروج ، باب ۲۰ ) ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :128 یعنی نہ خدا کی ذات میں کسی کو اس کا شریک ٹھہراؤ ، نہ اس کی صفات میں ، نہ اس کے اختیارات میں ، اور نہ اس کے حقوق میں ۔ ذات میں شرک یہ ہے کہ جو ہر اُلُوہیّت میں کسی کو حصہ دار قرار دیا جائے ۔ مثلاً نصاریٰ کا عقیدہ تثلیث ، مشرکین عرب کا فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دینا ، اور دوسرے مشرکین کا اپنے دیوتاؤں اور دیویوں کو اور اپنے شاہی خاندانوں کو جنس آلہہ کے افراد قرار دینا ۔ یہ سب شرک فی الذات ہیں ۔ صفات میں شرک یہ ہے کہ خدائی صفات جیسی کہ وہ خدا کے لیے ہیں ، ویسا ہی ان کو یا ان میں سے کسی صفت کو کسی دوسرے کے لیے قرار دینا ۔ مثلاً کسی کے متعلق یہ سمجھنا کہ اس پر غیب کی ساری حقیقتیں روشن ہیں ، یا وہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے ، یا وہ تمام نقائص اور تمام کمزوریوں سے منزَّہ اور بالکل بے خطا ہے ۔ اختیارات میں شرک یہ ہے کہ خدا ہونے کی حیثیت سے جو اختیارات صرف اللہ کے لیے خاص ہیں ان کو یا ان میں سے کسی کو اللہ کے سوا کسی اور کے لیے تسلیم کیا جائے ۔ مثلاً فوق الفطری طریقے سے نفع و ضرر پہنچانا ، حاجت روائی و دستگیری کرنا ، محافظت و نگہبانی کرنا ، دعائیں سننا اور قسمتوں کو بنانا اور بگاڑنا ۔ نیز حرام و حلال اور جائز و ناجائز کی حدود مقرر کرنا اور انسانی زندگی کے لیے قانون و شرع تجویز کرنا ۔ یہ سب خداوندی کے مخصوص اختیارات ہیں جن میں سے کسی کو غیر اللہ کے لیے تسلیم کرنا شرک ہے ۔ حقوق میں شرک یہ ہے کہ خدا ہونے کی حیثیت سے بندوں پر خدا کےجو مخصوص حقوق ہیں وہ یا ان میں سے کوئی حق خدا کے سوا کسی اور کے لیے مانا جائے ۔ مثلاً رکوع و سجود ، دست بستہ قیام ، سلامی وآستانہ بوسی ، شکر نعمت یا اعتراف برتری کے لیے نذر و نیاز اور قربانی ، قضائے حاجات اور رفع مشکلات کے لیے مَنّت ، مصائب و مشکلات میں مدد کے لیے پکارا جانا ، اور ایسی ہی پرستش و تعظیم و تمجید کی دوسری تمام صورتیں اللہ کے مخصوص حقوق میں سے ہیں ۔ اسی طرح ایسا محبوب ہونا کہ اس کی محبت پر دوسری سب محبتیں قربان کی جائیں ، اور ایسا مستحق تقویٰ و خشیت ہونا کہ غیب و شہادت میں اس کی ناراضی اور اس کے حکم کی خلاف ورزی سے ڈرا جائے ، یہ بھی صرف اللہ کا حق ہے ۔ اور یہ بھی اللہ ہی کا حق ہے کہ اس کی غیر مشروط اطاعت کی جائے ، اور اس کی ہدایت کو صحیح و غلط کا معیار مانا جائے ، اور کسی ایسی اطاعت کا حلقہ اپنی گردن میں نہ ڈالا جائے جو اللہ کی اطاعت سے آزاد ایک مستقل اطاعت ہو اور جس کے حکم کے لیے اللہ کے حکم کی سند نہ ہو ۔ ان حقوق میں سے جو حق بھی دوسرے کو دیا جائے گا وہ اللہ کا شریک ٹھہرے گا خواہ اس کو خدائی ناموں سے کوئی نام دیا جائے یا نہ دیا جائے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :129 نیک سلوک میں ادب ، تعظیم ، اطاعت ، رضا جوئی ، خدمت ، سب داخل ہیں ۔ والدین کے اس حق کو قرآن میں ہر جگہ توحید کے حکم کے بعد بیان فرمایا گیا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ خدا کے بعد بندوں کے حقوق میں سب سے مقدم حق انسان پر اس کے والدین کا ہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :130 اصل میں لفظ”فواحش“ استعمال ہوا ہے جس کا اطلاق ان تمام افعال پر ہوتا ہے جن کی برائی بالکل واضح ہے ۔ قرآن میں زنا ، عمل قوم لوط ، برہنگی ، جھوٹی تہمت ، اور باپ کی منکوحہ سے نکاح کرنے کو فحش افعال میں شمار کیا گیا ہے ۔ حدیث میں چوری اور شراب نوشی اور بھیک مانگنے کو من جملہ فواحش کہا گیا ہے ۔ اسی طرح دوسرے تمام شرمناک افعال بھی فواحش میں داخل ہیں اور ارشاد الہٰی یہ ہے کہ اس قسم کے افعال نہ علانیہ کیے جائیں نہ چھپ کر ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :131 یعنی انسانی جان ، جو فی الاصل خدا کی طرف سے حرام ٹھہرائی گئی ہے ، ہلاک نہ کی جائے گی مگر حق کے ساتھ ۔ اب رہا یہ سوال کہ ” حق کے ساتھ“ کا کیا مفہوم ہے ، تو اس کی تین صورتیں قرآن میں بیان کی گئی ہیں ، اور دو صورتیں اس پر زائد ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں ۔ قرآن کی بیان کردہ صورتیں یہ ہیں: ( ۱ ) انسان کسی دوسرے انسان کے قتل عمد کا مجرم ہو اور اس پر قصاص کا حق قائم ہو گیا ہو ۔ ( ۲ ) دین حق کے قیام کی راہ میں مزاحم ہو اور اس سے جنگ کیے بغیر چارہ نہ رہا ہو ۔ ( ۳ ) دار الاسلام کے حدود میں بدامنی پھیلائے یا اسلامی نظام حکومت کو الٹنے کی سعی کرے ۔ باقی دو صورتیں جو حدیث میں ارشاد ہوئی ہیں ، یہ ہیں: ( ٤ ) شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کرے ۔ ( ۵ ) ارتداد اور خروج از جماعت کا مرتکب ہو ۔ ان پانچ صورتوں کے سوا کسی صورت میں انسان کا قتل انسان کے لیے حلال نہیں ہے ، خواہ وہ مومن ہو یا ذمی یا عام کافر ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیتیں ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وصیت کو دیکھنا چاہتا ہو جو آپ کی آخری وصیت تھی تو وہ ان آیتوں کو ( تتقون ) تک پڑھے ، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سورۃ انعام میں محکم آیتیں ہیں پھر یہی آیتیں آپ نے تلاوت فرمائیں ۔ ایک مرتبہ حضور نے اپنے اصحاب سے فرمایا ، تم میں سے کوئی شخص ہے جو میرے ہاتھ پر ان تین باتوں کی بیعت کرے ، پھر آپ نے یہی آیتیں تلاوت فرمائیں اور فرمایا جو اسے پورا کرے گا ، وہ اللہ سے اجر پائے گا اور جو ان میں سے کسی بات کو پورا نہ کرے گا تو دنیا میں ہی اسے شرعی سزا دے دی جائے گی اور اگر سزا نہ دی گئی تو پھر اس کا معاملہ قیامت پر ہے اگر اللہ چاہے تو اسے بخش دے چاہے تو سزا دے ( مسند ، حاکم ) بخاری مسلم میں ہے تم لوگ میرے ہاتھ پر بیعت کرو ، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنے کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی سلام علیہ سے فرماتا ہے کہ ان مشرکین کو جو اللہ کی اولاد کے قائل ہیں اللہ کے رزق میں سے بعض کو اپنی طرف سے حلال اور بعض کو حرام کہتے ہیں اللہ کے ساتھ دوسروں کو پوجتے ہیں کہدیجئے کہ سچ مچ جو چیزیں اللہ کی حرام کردہ ہیں انہیں مجھ سے سن لو جو میں بذریعہ وحی الٰہی بیان کرتا ہوں تمہاری طرح خواہش نفس ، توہم پرستی اور اٹکل و گمان کی بنا پر نہیں کہتا ۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جس کی وہ تمہیں وصیت کرتا ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا ، یہ کلام عرب میں ہوتا ہے کہ ایک جملہ کو حذف کر دیا پھر دوسرا جملہ ایسا کہدیا جس سے حذف شدہ جملہ معلوم ہو جائے اس آیت کے آخری جملے ( ذالکم وصاکم ) سے ( الاتشرکو ) اس سے پہلے کے محذوف جملے ( اوصاکم ) پر دلالت ہو گئی ۔ عرب میں یوں بھی کہہ دیا کرتے ہیں ( امرتک ان لا تقوم ) بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میرے پاس جبرائیل آئے اور مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ آپ کی امت میں سے جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے وہ داخل جنت ہو گا تو میں نے کہا گو اس نے زنا کیا ہو گو اس نے چوری کی ہو آپ نے فرمایا ہاں گو اس نے زنا اور چوری کی ہو میں نے پھر یہی سوال کیا مجھے پھر یہی جواب ملا پھر بھی میں نے یہ بات پوچھی اب کے جواب دیا کہ گو شراب نوشی بھی کی ہو ۔ بعض روایتوں میں ہے کہ حضور سے موحد کے جنت میں داخل ہونے کا سن کر حضرت ابو ذر نے یہ سوال کیا تھا اور آپ نے یہ جواب دیا تھا اور آخری مرتبہ فرمایا تھا اور ابو ذر کی ناک خاک آلود ہو چنانچہ راوی حدیث جب اسے بیان فرماتے تو یہی لفظ دوہرا دیتے ، سنن میں مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم تو جب تک مجھ سے دعا کرتا رہے گا اور میری ذات سے امید رکھے گا میں بھی تیری خطاؤں کو معاف فرماتا رہوں گا خواہ وہ کیسی ہی ہوں کوئی پرواہ نہ کروں گا تو اگر میرے پاس زمین بھر کر خطائیں لائے گا تو میں تیرے پاس اتنی ہی مغفرت اور بخشش لے کر آؤں گا بشرطیکہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو گو تو نے خطائیں کی ہوں یہاں تک کہ وہ آسمان تک پہنچ گئی ہوں پھر بھی تو مجھ سے استغفار کرے تو میں تجھے بخش دوں گا ، اس حدیث کی شہادت میں یہ آیت آ سکتی ہے ( اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۚوَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدِ افْتَرٰٓى اِثْمًا عَظِيْمًا ) 48- النسآء:4 ) یعنی مشرک کو تو اللہ مطلق نہ بخشے گا باقی گنہگار اللہ کی مشیت پر ہیں جسے جاہے بخش دے ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے جو توحید پر مرے وہ جنتی ہے اس بارے میں بہت سی آیتیں اور حدیثیں ہیں ۔ ابن مردویہ میں ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گو تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں یا تمہیں سولی چڑھا دیا جائے یا تمہیں جلا دیا جائے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات باتوں کا حکم دیا ( ١ ) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا گو تم جلا دیئے جاؤ یا کاٹ دیئے جاؤ یا سولی دے دیئے جاؤ ۔ اس آیت میں توحید کا حکم دے کر پھر ماں باپ کے ساتھ احسان کرنے کا حکم ہوا بعض کی قرأت ( ووصی ربک الا تعبدو الا ایاہ وبالوالدین احسانا ) بھی ہے ۔ قرآن کریم میں اکثر یہ دونوں حکم ایک ہی جگہ بیان ہوئے ہیں جیسے آیت ( اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ ۭ اِلَيَّ الْمَصِيْرُ ) 14- لقمان:31 ) میں مشرک ماں باپ کے ساتھ بھی بقدر ضرورت احسان کرنے کا حکم ہوا ہے اور آیت ( لَقَدْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ وَاَرْسَلْنَآ اِلَيْهِمْ رُسُلًا ۭكُلَّمَا جَاۗءَهُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَهْوٰٓى اَنْفُسُهُمْ ۙ فَرِيْقًا كَذَّبُوْا وَفَرِيْقًا يَّقْتُلُوْنَ ) 70- المآئدہ:5 ) ، میں بھی دونوں حکم ایک ساتھ بیان ہوئے ہیں اور بھی بہت سی اس مفہوم کی آیتیں ہیں ۔ بخاری و مسلم میں ہے ابن مسعود فرماتے ہیں میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کونسا عمل افضل ہے؟ آپ نے فرمایا نماز وقت پر پڑھنا ۔ میں نے پوچھا پھر؟ فرمایا ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا ، میں نے پوچھا پھر؟ فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔ میں اگر اور بھی دریافت کرتا تو حضور بتا دیتے ، ابن مردویہ میں عبادہ بن صامت اور ابو درداء سے مروی ہے کہ مجھے میرے خلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی کہ اپنے والدین کی اطاعت کر اگرچہ وہ تجھے حکم دیں کہ تو ان کیلئے ساری دنیا سے الگ ہو جائے تو بھی مان لے ، اس کی سند ضعیف ہے باپ داداؤں کی وصیت کر کے اولاد اور اولاد کی اولاد کی بات وصیت فرمائی کہ انہیں قتل نہ کرو جیسے کہ شیاطین نے اس کام کو تمہیں سکھا رکھا ہے لڑکیوں کو تو وہ لوگ بوجہ عار کے مار ڈالتے تھے اور بعض لڑکوں کو بھی بوجہ اس کے کہ ان کے کھانے کا سامان کہاں سے لائیں گے ، مار ڈالتے تھے ، ابن مسعود نے ایک مرتبہ حضور سے دریافت کیا کہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ شریک کرنا حالانکہ اسی اکیلے نے پیدا کیا ہے ۔ پوچھا پھر کونسا گناہ ہے؟ فرمایا اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کرنا کہ یہ میرے ساتھ کھائے گی ۔ پوچھا پھر کونسا ہے؟ فرمایا اپنی پڑوس کی عورت سے بدکاری کرنا پھر حضور نے آیت ( وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا ) 68- الفرقان:25 ) کی تلاوت فرمائی اور آیت میں ہے ( وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ خَشْـيَةَ اِمْلَاقٍ ۭ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَاِيَّاكُمْ ۭ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيْرًا ) 31- الإسراء:17 ) اپنی اولاد کو فقیری کے خوف سے قتل نہ کرو ، اسی لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ ہم انہیں روزی دیتے ہیں اور تمہاری روزی بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ یہاں چونکہ فرمایا تھا کہ فقیری کی وجہ سے اولاد کا گلا نہ گھونٹو تو ساتھ ہی فرمایا تمہیں روزی ہم دیں گے اور انہیں بھی ہم ہی دے رہے ہیں پھر فرمایا کسی ظاہر اور پوشیدہ برائی کے پاس بھی نہ جاؤ جیسے اور آیت میں ہے ( قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَاَنْ تُشْرِكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ) 33- الاعراف:7 ) ، یعنی تمام ظاہری ، باطنی برائیاں ، ظلم و زیادتی ، شرک و کفر اور جھوٹ بہتان سب کچھ اللہ نے حرام کر دیا ہے ۔ اس کی پوری تفسیر آیت ( وذروا ظاھر الاثم باطنہ کی تفسیر میں گذر چکی ہے صحیح حدیث میں ہے اللہ سے زیادہ غیرت ولا کوئی نہیں اسی وجہ سے تمام بےحیائیاں اللہ نے حرام کر دی ہیں خواہ وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ ہوں ۔ سعد بن عبادہ نے کہا کہ اگر میں کسی کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھ لوں تو میں تو ایک ہی وار میں اس کا فیصلہ کر دوں جب حضور کے پاس ان کا یہ قول بیان ہوا تو فرمایا کیا تم سعد کی غیرت پر تعجب کر رہے ہو؟ واللہ میں اس سے زیادہ غیرت والا ہوں اور میرا رب مجھ سے زیادہ غیرت والا ہے ، اسی وجہ سے تمام فحش کام ظاہر و پوشیدہ اس نے حرام کر دیئے ہیں ( بخاری و مسلم ) ایک مرتبہ حضور سے کہا گیا کہ ہم غیرت مند لوگ ہیں آپ نے فرمایا واللہ میں بھی غیرت والا ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت والا ہے ۔ یہ غیرت ہی ہے جو اس نے تمام بری باتوں کو حرام قرار دے دیا ہے اس حدیث کی سند ترمذی کی فباء پر ہے ترمذی میں یہ حدیث ہے کہ میری امت کی عمریں ساٹھ ستر کے درمیان ہیں ۔ اس کے بعد کسی کے ناحق قتل کی حرمت کو بیان فرمایا گو وہ بھی فواحش میں داخل ہے لیکن اس کی اہمیت کی وجہ سے اسے الگ کر کے بیان فرما دیا ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ جو مسلمان اللہ کی توحید اور میری رسالت اقرار کرتا ہو اسے قتل کرنا بجز تین باتوں کے جائز نہیں یا تو شادی شدہ ہو کر پھر زنا کرے یا کسی کو قتل کر دے یا دین کو چھوڑ دے اور جماعت سے الگ ہو جائے ۔ مسلم میں ہے اس کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کسی مسلمان کا خون حلال نہیں ۔ ابو داؤد اور نسائی میں تیسرا شخص وہ بیان کیا گیا ہے جو اسلام سے نکل جائے اور اللہ کے رسولوں سے جنگ کرنے لگے اسے قتل کر دیا جائے گا یا صلیب پر چڑھا دیا جائے گا یا مسلمانوں کے ملک سے جلا وطن کر دیا جائے گا ۔ امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس وقت جبکہ باغی آپ کو محاصرے میں لئے ہوئے تھے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کسی مسلمان کا خون بجز ان تین کے حلال نہیں ایک تو اسلام کے بعد کافر ہو جانے والا دوسرا شادی ہو جانے کے بعد زنا کرنے والا اور بغیر قصاص کے کسی کو قتل کر دینے والا ۔ اللہ کی قسم نہ تو میں نے جاہلیت میں زنا کیا نہ اسلام لانے کے بعد ، اور نہ اسلام لانے کے بعد کبھی میں نے کسی اور دین کی تمنا کی اور نہ میں نے کسی کو بلا وجہ قتل کیا ۔ پھر تم میرا خون بہانے کے درپے کیوں ہو؟ حربی کافروں میں سے جو امن طلب کرے اور مسلمانوں کے معاہدہ امن میں آ جائے اس کے قتل کرنے والے کے حق میں بھی بہت و عید آئی ہے اور اس کا قتل بھی شرعاً حرام ہے ۔ بخاری میں ہے معاہدہ امن کا قاتل جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کے راستے تک پہنچ جاتی ہے اور روایت میں ہے کیونکہ اس نے اللہ کا ذمہ توڑا اس میں ہے پچاس برس کے راستے کے فاصلے سے ہی جنت کی خوشبوں پہنچی ہے ۔ پھر فرماتا ہے یہ ہیں اللہ کی وصیتیں اور اس کے احکام تاکہ تم دین حق کو ، اس کے احکام کو اور اس کی منع کردہ باتوں کو سمجھ لو ۔