Surah

Information

Surah # 6 | Verses: 165 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 55 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
وَلَا تَقۡرَبُوۡا مَالَ الۡيَتِيۡمِ اِلَّا بِالَّتِىۡ هِىَ اَحۡسَنُ حَتّٰى يَبۡلُغَ اَشُدَّهٗ‌ ۚ وَاَوۡفُوۡا الۡكَيۡلَ وَالۡمِيۡزَانَ بِالۡقِسۡطِ‌ ۚ لَا نُـكَلِّفُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَهَا‌ ۚ وَاِذَا قُلۡتُمۡ فَاعۡدِلُوۡا وَلَوۡ كَانَ ذَا قُرۡبٰى‌‌ ۚ وَبِعَهۡدِ اللّٰهِ اَوۡفُوۡا‌ ؕ ذٰ لِكُمۡ وَصّٰٮكُمۡ بِهٖ لَعَلَّكُمۡ تَذَكَّرُوۡنَ ۙ‏ ﴿152﴾
اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو کہ مستحسن ہے یہاں تک کہ وہ اپنے سن رشدکو پہنچ جائے اور ناپ تول پوری پوری کرو انصاف کے ساتھ ، ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور جب تم بات کرو تو انصاف کرو گو وہ شخص قرابت دار ہی ہو اور اللہ تعالٰی سے جو عہد کیا اس کو پورا کرو ان کا اللہ تعالٰی نے کوتاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم یاد رکھو ۔
و لا تقربوا مال اليتيم الا بالتي هي احسن حتى يبلغ اشده و اوفوا الكيل و الميزان بالقسط لا نكلف نفسا الا وسعها و اذا قلتم فاعدلوا و لو كان ذا قربى و بعهد الله اوفوا ذلكم وصىكم به لعلكم تذكرون
And do not approach the orphan's property except in a way that is best until he reaches maturity. And give full measure and weight in justice. We do not charge any soul except [with that within] its capacity. And when you testify, be just, even if [it concerns] a near relative. And the covenant of Allah fulfill. This has He instructed you that you may remember.
Aur yateem kay maal kay pass na jao magar aisay tareeqay say jo kay mustehsan hai yahan tak kay woh apney sann rashd ko phonch jaye aur naap tol poori poori kero insaf kay sath hum kissi shaks ko uss ki taqat say ziyada takleef nahi detay. Aur jab tum baat kero to insaf kero go woh shaks qarabat daar hi ho aur Allah Taalaa say jo ehad kiya uss ko poora kero inn ka Allah Taalaa ney tum ko takeedi hukum diya hai takay tum yaad rakho.
اور یتیم جب تک پختگی کی عمر کو نہ پہنچ جائے ، اس وقت تک اس کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ ، مگر ایسے طریقے سے جو ( اس کے حق میں ) بہترین ہو ، اور ناپ تول انصاف کے ساتھ پورا پورا کیا کرو ، ( البتہ ) اللہ کسی بھی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ کی تکلیف نہیں دیتا ۔ ( ٨٢ ) اور جب کوئی بات کہو تو انصاف سے کام لو ، چاہے معاملہ اپنے قریبی رشتہ دار ہی کا ہو ، اور اللہ کے عہد کو پورا کرو ۔ ( ٨٣ ) لوگو ! یہ باتیں ہیں جن کی اللہ نے تاکید کی ہے ، تاکہ تم نصیحت قبول کرو ۔
اور یتیموں کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر بہت اچھے طریقہ سے ( ف۳۱۸ ) جب تک وہ اپنی جوانی کو پہنچے ( ف۳۱۹ ) اور ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پوری کرو ، ہم کسی جان پر بوجھ نہیں ڈالتے مگر اس کے مقدور بھر ، اور جب بات کہو تو انصاف کی کہو اگرچہ تمہارے رشتہ دار کا معاملہ ہو اور اللہ ہی کا عہد پورا کرو ، یہ تمہیں تاکید فرمائی کہ کہیں تم نصیحت مانو ،
﴿٦﴾ اور یہ کہ یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر ایسے طریقہ سے جو بہترین ہو 132 یہاں تک کہ وہ اپنے سنِ رشد کو پہنچ جائے ، ﴿۷﴾ اور ناپ تول میں پورا انصاف کرو ، ہم ہر شخص پر ذمہ داری کا اتنا ہی بار رکھتے ہیں جتنا اس کے امکان میں ہے ، 133 ﴿۸﴾ اور جب بات کہو انصاف کی کہو خواہ معاملہ اپنے رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو ، ﴿۹﴾ اور اللہ کے عہد کو پورا کرو ۔ 134 ان باتوں کی ہدایت اللہ نے تمہیں کی ہے شاید کہ تم نصیحت قبول کرو ۔
اور یتیم کے مال کے قریب مت جانا مگر ایسے طریق سے جو بہت ہی پسندیدہ ہو یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے ، اور پیمانے اور ترازو ( یعنی ناپ اور تول ) کو انصاف کے ساتھ پورا کیا کرو ۔ ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے ، اور جب تم ( کسی کی نسبت کچھ ) کہو تو عدل کرو اگرچہ وہ ( تمہارا ) قرابت دار ہی ہو ، اور اﷲ کے عہد کو پورا کیا کرو ، یہی ( باتیں ) ہیں جن کا اس نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :132 یعنی ایسا طریقہ جو زیادہ سے زیادہ بے غرضی ، نیک نیتی اور یتیم کی خیر خواہی پر مبنی ہو ، اور جس پر خدا اور خلق کسی کی طرف سے بھی تم اعتراض کے مستحق نہ ہو ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :133 یہ اگرچہ شریعت الہٰی کا ایک مستقل اصول ہے ، لیکن یہاں اس کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جو شخص اپنی حد تک ناپ تول اور لین دین کے معاملات میں راستی و انصاف سے کام لینے کی کوشش کرے وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جائے گا ۔ بھول چوک یا نادانستہ کمی و بیشی ہو جانے پر اس سے باز پرس نہ ہوگی ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :134 ”اللہ کے عہد“ سے مراد وہ عہد بھی ہے جو انسان اپنے خدا سے کرے ، اور وہ بھی جو خدا کا نام لے کر بندوں سے کرے ، اور وہ بھی جو انسان اور خدا ، اور انسان اور انسان کے درمیان اسی وقت آپ سے آپ بندھ جاتا ہے جس وقت ایک شخص خدا کی زمین میں ایک انسانی سوسائیٹی کے اندر پیدا ہوتا ہے ۔
یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید ابو داؤد وغیرہ میں ہے کہ جب آیت ( ولا تقربوا ) اور آیت ( ان الذین یاکلون اموال الیتامی ظلما ) نازل ہوئیں تو اصحاب رسول نے یتیموں کا کھانا پینا اپنے کھانے پینے سے بالکل الگ تھلگ کر دیا اس میں علاوہ ان لوگوں کے نقصان اور محنت کے یتیموں کا نقصان بھی ہونے لگا اگر بچ رہا تو یا تو وہ باسی کھائیں یا سڑ کر خراب ہو جائے جب حضور سے اس کا ذکر ہوا تو آیت ( فِى الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۭ وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْيَتٰمٰي ۭ قُلْ اِصْلَاحٌ لَّھُمْ خَيْرٌ ۭوَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانُكُمْ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ لَاَعْنَتَكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ ) 2- البقرة:220 ) نازل ہوئی کہ ان کے لئے خیر خواہی کرو ان کا کھانا پینا ساتھ رکھنے میں کوئی حرج نہیں وہ تمہارے بھائی ہیں اسے پڑھ کر سن کر صحابہ نے ان کا کھانا اپنے ساتھ ملا لیا ۔ یہ حکم ان کے سن بلوغ تک پہنچنے تک ہے گو بعض نے تیس سال بعض نے چالیس سال اور بعض نے ساٹھ سال کہے ہیں لیکن یہ سب قول یہاں مناسب نہیں اللہ اعلم ، پھر حکم فرمایا کہ لین دین میں ناپ تول میں کمی بیشی نہ کرو ، ان کے لئے ہلاکت ہے جو لیتے وقت پورا لیں اور دیتے وقت کم دیں ، ان امتوں کو اللہ نے غارت کر دیا جن میں یہ بد خصلت تھی ، جامع ابو عیسی ترمذی میں ہے کہ حضور نے ناپنے اور تولنے والوں سے فرمایا تم ایک ایسی چیز کے والی بنائے گئے ہو ، جس کی صحیح نگرانی نہ رکھنے والے تباہ ہو گئے ، پھر فرماتا ہے ، کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ہم نہیں لادتے یعنی اگر کسی شخص نے اپنی طاقت بھر کوشش کر لی دوسرے کا حق دے دیا ، اپنے حق سے زیادہ نہ لیا ، پھر بھی نادانستگی میں غلطی سے کوئی بات رہ گئی ہو تو اللہ کے ہاں اس کی پکڑ نہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے آیت کے یہ دونوں جملے تلاوت کر کے فرمایا کہ جس نے صحیح نیت سے وزن کیا ، تولا ، پھر بھی واقع میں کوئی کمی زیادتی بھول چوک سے ہو گئی تو اس کا مؤاخذہ نہ ہو گا ۔ یہ حدیث مرسل اور غریب ہے ، پھر فرماتا ہے بات انصاف کی کہا کرو کہ قرابت داری کے معاملے میں ہی کچھ کہنا پڑے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاۗءَ لِلّٰهِ ) 4- النسآء:135 ) اور سورۃ نساء میں بھی یہی حکم دیا کہ ہر شخص کو ہر حال میں سچائی اور انصاف نہ چھوڑنا چاہئے ۔ جھوٹی گواہی اور غلط فیصلے سے بچنا چاہئے ، اللہ کے عہد کو پورا کرو ، اس کے احکام بجا لاؤ ، اس کی منع کردہ چیزوں سے الگ رہو ، اس کی کتاب اس کے رسول کی سنت پر چلتے رہو ، یہی اس کے عہد کو پورا کرنا ہے ، انہی چیزوں کے بارے اللہ کا تاکیدی حکم ہے ، یہی فرمان تمہارے وعظ و نصیحت کا ذریعہ ہیں تاکہ تم جو اس سے پہلے نکمے بلکہ برے کاموں میں تھے ، اب ان سے الگ ہو جاؤ ۔ بعض کی قرأت میں ( تذکرون ) بھی ہے ۔