Surah

Information

Surah # 6 | Verses: 165 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 55 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
وَاَنَّ هٰذَا صِرَاطِىۡ مُسۡتَقِيۡمًا فَاتَّبِعُوۡهُ‌ ۚ وَلَا تَتَّبِعُوۡا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمۡ عَنۡ سَبِيۡلِهٖ‌ ؕ ذٰ لِكُمۡ وَصّٰٮكُمۡ بِهٖ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُوۡنَ‏ ﴿153﴾
اور یہ کہ یہ دین میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے سو اس راہ پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی ۔ اس کا تم کو اللہ تعالٰی نے تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پر ہیز گاری اختیار کرو ۔
و ان هذا صراطي مستقيما فاتبعوه و لا تتبعوا السبل فتفرق بكم عن سبيله ذلكم وصىكم به لعلكم تتقون
And, [moreover], this is My path, which is straight, so follow it; and do not follow [other] ways, for you will be separated from His way. This has He instructed you that you may become righteous.
Aur yeh kay yeh deen mera raasta hai jo mustaqeem hai so iss raah per chalo aur doosri raahon per mat chalo kay woh raahen tum ko Allah ki raah say juda ker den gi. Iss ka tum ko Allah ney takeedi hukum diya hai takay tum perhezgari ikhtiyar kero.
اور ( اے پیغمبر ! ان سے ) یہ بھی کہو کہ : یہ میرا سیدھا سیدھا راستہ ہے ، لہذا اس کے پیچھے چلو ، اور دوسرے راستوں کے پیچھے نہ پڑو ، ورنہ وہ تمہیں اللہ کے راستے سے الگ کردیں گے ۔ لوگو ! یہ باتیں ہیں جن کی اللہ نے تاکید کی ہے تاکہ تم متقی بنو ۔
اور یہ کہ ( ف۳۲۰ ) یہ ہے میرا سیدھا راستہ تو اس پر چلو اور اور راہیں نہ چلو ( ف۳۲۱ ) کہ تمہیں اس کی راہ سے جدا کردیں گی ، یہ تمہیں حکم فرمایا کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے ،
﴿١۰﴾ نیز اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے لہٰذا تم اِسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اس کے راستے سے ہٹا کر تمہیں پراگندہ کر دیں گے ۔ 135 یہ ہے وہ ہدایت جو تمہارے رب نے تمہیں کی ہے ، شاید کہ تم کَج روی سے بچو ۔
اور یہ کہ یہی ( شریعت ) میرا سیدھا راستہ ہے سو تم اس کی پیروی کرو ، اور ( دوسرے ) راستوں پر نہ چلو پھر وہ ( راستے ) تمہیں اﷲ کی راہ سے جدا کر دیں گے ، یہی وہ بات ہے جس کا اس نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :135 اوپر جس فطری عہد کا ذکر ہوا ، یہ اس عہد کا لازمی اقتضا ہے کہ انسان اپنے رب کے بتائے ہوئے راستہ پر چلے ، کیونکہ اس کے امر کی پیروی سے منہ موڑنا اور خود سری و خود مختاری یا بندگی غیر کی جانب قدم بڑھانا انسان کی طرف سے اس عہد کی اولین خلاف ورزی ہے جس کے بعد ہر قدم پر اس کی دفعات ٹوٹتی چلی جاتی ہیں ۔ علاوہ بریں اس نہایت نازک ، نہایت وسیع اور نہایت پیچیدہ عہد کی ذمہ داریوں سے انسان ہرگز عہدہ برآ نہیں ہو سکتا جب تک وہ خدا کی رہنمائی کو قبول کر کے اس کے بتائے ہوئے راستہ پر زندگی بسر نہ کرے ۔ اس کو قبول نہ کرنے کے دو زبردست نقصان ہیں ۔ ایک یہ کہ ہر دوسرے راستہ کی پیروی لازماً انسان کو اس راہ سے ہٹا دیتی ہے جو خدا کے قرب اور اس کی رضا تک پہنچنے کی ایک ہی راہ ہے ۔ دوسرے یہ کہ اس راہ سے ہٹتے ہی بے شمار پگڈنڈیاں سامنے آجاتی ہیں جن میں بھٹک کر پوری نوع انسانی پراگندہ ہو جاتی ہے اور اس پراگندگی کے ساتھ ہی اس کے بلوغ و ارتقاء کا خواب بھی پریشان ہو کر رہ جاتا ہے ۔ انہی دونوں نقصانات کو اس فقرے میں بیان کیا گیا ہے کہ ”دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ تمہیں اس کے راستہ سے ہٹا کر پراگندہ کر دیں گے“ ۔ ( ملاحظہ ہو سورہ مائدہ ، حاشیہ نمبر ۳۵ ) ۔
شیطانی راہیں فرقہ سازی یہ اور ان جیسی آیتوں کی تفسیر میں ابن عباس کا قول تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو باہم اعتماد کا حکم دیتا ہے اور اختلاف و فرقہ بندی سے روکتا ہے اس لئے کہ اگلے لوگ اللہ کے دین میں پھوٹ ڈالنے ہی سے تباہ ہوئے تھے مسند میں ہے کہ اللہ کے نبی نے ایک سیدھی لکیر کھینچی اور فرمایا اللہ کی سیدھی راہ یہی ہے پھر اس کے دائیں بائیں اور لکیریں کھینچ کر اور فرمایا ان تمام راہوں پر شیطان ہے جو اپنی طرف بلا رہا ہے پھر آپ نے اس آیت کا ابتدائی حصہ تلاوت فرمایا ۔ اسی حدیث کی شاہد وہ حدیث ہے جو مسند وغیرہ میں حضرت جابر سے مروی ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جو آپ نے اپنے سامنے ایک سیدھی لکیر کھینچی اور فرمایا یہ شیطانی راہیں ہیں اور بیچ کی لکیر پر انگلی رکھ کر اس آیت کی تلاوت فرمائی ۔ اسی حدیث کی شاہد وہ حدیث ہے جو مسند وغیرہ میں حضرت جابر سے مروی ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جو آپ نے اپنے سامنے ایک سیدھی لکیر کھینچی اور فرمایا یہ شیطانی راہیں ہیں اور بیچ کی لکیر پر انگلی رکھ کر اس آیت کی تلاوت فرمائی ۔ ابن ماجہ میں اور بزار میں بھی یہ حدیث ہے ابن مسعود سے کسی نے پوچھا صراط مستقیم کیا ہے؟ آپ نے فرمایا جس پر ہم نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑا اسی کا دوسرا سرا جنت میں جا ملتا ہے اس کے دائیں بائیں بہت سی اور راہیں ہیں جن پر لوگ چل رہے ہیں اور دوسروں کو بھی اپنی طرف بلا رہے ہیں جو ان راہوں میں سے کسی راہ ہو لیا وہ جہنم میں پہنچا پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ حضور فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم کی مثال بیان فرمائی ۔ اس راستے کے دونوں طرف دو دیواریں ہیں جن میں بہت سے دروازے ہیں اور سب چوپٹ کھلے پڑے ہیں اور ان پر پردے لٹکے ہوئے ہیں اس سیدھی راہ کے سرے پر ایک پکارنے والا ہے پکارتا رہتا ہے کہ لوگو تم سب اس صراط مستقیم پر آ جاؤ راستے میں بکھر نہ جاؤ ، بیچ راہ کے بھی ایک شخص ہے ، جب کوئی شخص ان دروازوں میں سے کسی کو کھولنا چاہتا ہے تو وہ کہتا ہے خبردار اسے نہ کھول ، کھولو گے تو سیدھی راہ سے دور نکل جاؤ گے ۔ پس سیدھی راہ اسلام ہے دونوں دیواریں اللہ کی حدود ہیں کھلے ہوئے دروازے اللہ کی حرام کردہ چیزیں ہیں نمایاں شخص اللہ کی کتاب ہے اوپر سے پکارنے والا اللہ کی طرف کا نصیحت کرنے والا ہے جو ہر مومن کے دل میں ہے ( ترمذی ) اس نکتے کو نہ بھولنا چاہئے کہ اپنی راہ کیلئے سبیل واحد کا لفظ بولا گیا اور گمراہی کی راہوں کے لئے سبل جمع کا لفظ استعمال کیا گیا اس لئے کہ راہ حق ایک ہی ہوتی ہے اور ناحق کے بہت سے طریقے ہوا کرتے ہیں جیسے آیت ( اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۙيُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ) 2- البقرة:257 ) میں ( ظلمان ) کو جمع کے لفظ سے اور نور کو واحد کے لفظ سے ذکر کیا گیا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ( قل تعالوا ) سے تین آیتوں تک تلاوت کر کے فرمایا تم میں سے کون کون ان باتوں پر مجھ سے بیعت کرتا ہے؟ پھر فرمایا جس نے اس بیعت کو اپنا لیا اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے اور جس نے ان میں سے کسی بات کو توڑ دیا اس کی دو صورتیں ہیں یا تو دنیا میں ہی اس کی سزا شرعی اسے مل جائے گی یا اللہ تعالیٰ آخرت تک اسے مہلت دے پھر رب کی مشیت پر منحصر ہے اگر چاہے سزا دے اگر چاہے تو معاف فرما دے ۔