Surah

Information

Surah # 6 | Verses: 165 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 55 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
ثُمَّ اٰتَيۡنَا مُوۡسَى الۡـكِتٰبَ تَمَامًا عَلَى الَّذِىۡۤ اَحۡسَنَ وَتَفۡصِيۡلاً لِّـكُلِّ شَىۡءٍ وَّهُدًى وَرَحۡمَةً لَّعَلَّهُمۡ بِلِقَآءِ رَبِّهِمۡ يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿154﴾
پھر ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام ) کو کتاب دی تھی جس سے اچھی طرح عمل کرنے والوں پر نعمت پوری ہو اور سب احکام کی تفصیل ہوجائے اور رہنمائی ہو اور رحمت ہو تاکہ وہ لوگ اپنے رب کے ملنے پر یقین لائیں ۔
ثم اتينا موسى الكتب تماما على الذي احسن و تفصيلا لكل شيء و هدى و رحمة لعلهم بلقاء ربهم يؤمنون
Then We gave Moses the Scripture, making complete [Our favor] upon the one who did good and as a detailed explanation of all things and as guidance and mercy that perhaps in [the matter of] the meeting with their Lord they would believe.
Phir hum ney musa ( alh-e-salam ) ko kitab di thi jiss say achi tarah amal kerney walon per nemat poori ho aur sab ehkaam ki tafseel hojaye aur rehnumaee ho aur rehmat ho takay woh log apney rab kay milney per yaqeen layen.
پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ نیک لوگوں پر اللہ کی نعمت پوری ہو ، اور ہر چیز کی تفصیل بیان کردی جائے ، اور وہ ( لوگوں کے لیے ) رہنمائی اور رحمت کا سبب بنے ، تاکہ وہ ( آخرت میں ) اپنے پروردگار سے جا ملنے پر ایمان لے آئیں ۔
پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی ( ف۳۲۲ ) پورا احسان کرنے کو اس پر جو نیکوکار ہے اور ہر چیز کی تفصیل اور ہدایت اور رحمت کہ کہیں وہ ( ف۳۲۳ ) اپنے رب سے ملنے پر ایمان لائیں ( ف۳۲٤ )
پھر ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام ) کو کتاب عطا کی تھی جو بھلائی کی روش اختیار کرنے والے انسان پر نعمت کی تکمیل اور ہر ضروری چیز کی تفصیل اور سراسر ہدایت و رحمت تھی ﴿اور اس لیے بنی اسرائیل کو دی گئی تھی کہ﴾ شاید لوگ اپنے رب کی ملاقات پر ایمان لائیں ۔ 136 ؏١۹
پھر ہم نے موسٰی ( علیہ السلام ) کو کتاب عطا کی اس شخص پر ( نعمت ) پوری کرنے کے لئے جو نیکو کار بنے اور ( اسے ) ہر چیز کی تفصیل اور ہدایت اور رحمت بنا کر ( اتارا ) تاکہ وہ ( لوگ قیامت کے دن ) اپنے رب سے ملاقات پر ایمان لائیں
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :136 رب کی ملاقات پر ایمان لانے سے مراد اپنے آپ کو اللہ کے سامنے جواب دہ سمجھنا اور ذمہ دارانہ زندگی بسر کرنا ہے ۔ یہاں اس ارشاد کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ خود بنی اسرسائیل میں اس کتاب کی حکیمانہ تعلیمات سے ذمہ داری کا احساس بیدار ہو جائے ۔ دوسرے یہ کہ عام لوگ اس اعلیٰ درجہ کے نظام زندگی کا مطالعہ کر کے اور نیکو کار انسانوں میں اس نعمت ہدایت اور اس رحمت کے اثرات دیکھ کر یہ محسوس کرلیں کہ انکار آخرت کی غیر ذمہ دارانہ زندگی کے مقابلہ میں وہ زندگی ہر اعتبار سے بہتر ہے جو اقرار آخرت کی بنیاد پر ذمہ دارانہ طریقہ سے بسر کی جاتی ہے ، اور اس طرح یہ مشاہدہ و مطالعہ انہیں انکار سے ایمان کی طرف کھینچ لائے ۔
جنوں نے قرآن حکیم سنا امام ابن جریر نے تو لفظ ثم کو ترتیب کے لئے مانا ہے یعنی ان سے یہ بھی کہہ دے اور ہماری طرف سے یہ خبر بھی پہنچا دے لیکن میں کہتا ہوں ثم کو ترتیب کیلئے مان کر خبر کا خبر پر عطف کر دیں تو کیا حرج؟ ایسا ہوتا ہے اور شعروں میں موجود ہے چونکہ قرآن کریم کی مدح آیت ( ان ھذا صراطی مستقیما ) میں گذری تھی اس لئے اس پر عطف ڈال کر توراۃ کی مدح بیان کر دی ۔ جیسے کہ اور بھی بہت سی آیتوں میں ہے ۔ چنانچہ فرمان ہے آیت ( ومن قبلہ کتاب موسیٰ اماما و رحمتہ و ھذا کتاب مصدق لسانا عربیا ) یعنی اس سے پہلے توراۃ امام رحمت تھی اور اب یہ قرآن عربی تصدیق کرنے والا ہے ۔ اسی سورت کے اول میں ہے آیت ( قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ الَّذِيْ جَاۗءَ بِهٖ مُوْسٰي نُوْرًا وَّهُدًى لِّلنَّاسِ ) 6- الانعام:91 ) ، اس آیت میں بھی تورات کے بیان کے بعد اس قرآن کا بیان ہے ، کافروں کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے آیت ( فَلَمَّا جَاۗءَھُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا ) 10- یونس:76 ) ، جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آ پہنچا تو کہنے لگے اسے اس جیسا کیوں نہ ملا جو موسیٰ کو ملا تھا جس کے جواب میں فرمایا گیا کیا انہوں نے موسیٰ کی اس کتاب کے ساتھ کفر نہیں کیا تھا ؟ کیا صاف طور سے نہیں کہا تھا کہ یہ دونوں جادوگر ہیں اور ہم تو ہر ایک کے منکر ہیں ۔ جنوں کا قول بیان ہوا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا ہم نے وہ کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد اتری ہے جو اپنے سے اگلی کتابوں کو سچا کہتی ہیں اور راہ حق کی ہدایت کرتی ہیں ۔ وہ کتاب جامع اور کامل تھی ۔ شریعت کی جن باتوں کی اس وقت ضرورت تھی سب اس میں موجود تھیں یہ احسان تھا نیک کاروں کی نیکیوں کے بدلے کا ۔ جیسے فرمان ہے احسان کا بدلہ احسان ہی ہے اور جیسے فرمان ہے کہ نبی اسرائیلیوں کو ہم نے ان کا امام بنا دیا جبکہ انہوں نے صبر کیا اور ہماری آیتوں پر یقین رکھا ۔ غرض یہ بھی اللہ کا فضل تھا اور نیکوں کی نیکیوں کا صلہ ۔ احسان کرنے والوں پر اللہ بھی احسان پورا کرتا ہے یہاں اور وہاں بھی ۔ امام ابن جریر الذی کو مصدریہ مانتے ہیں جیسے آیت ( خفتم کالذی خاصوا ) میں ابن رواحہ کا شعر ہے ۔ وثبت اللہ ما اتاک من حسن فی المرسلین و نصر کالذی نصروا اللہ تیری اچھائیاں بڑھائے اور اگلے نبیوں کی طرح تیری بھی مدد فرمائے ۔ بعض کہتے ہیں یہاں الذی معنی میں الذین کا ہے عبداللہ بن مسعود کی قرأت ( لما ما علی الذین احسنوا ) ہے ۔ پس مومنوں اور نیک لوگوں پر اللہ کا یہ احسان ہے اور پورا احسان ہے ۔ بغوی کہتے ہیں مراد اس سے انبیاء اور عام مومن ہیں ۔ یعنی ان سب پر ہم نے اس کی فضیلت ظاہر کی جیسے فرمان ہے آیت ( قَالَ يٰمُوْسٰٓي اِنِّى اصْطَفَيْتُكَ عَلَي النَّاسِ بِرِسٰلٰتِيْ وَبِكَلَامِيْ ) 7- الاعراف:144 ) ، یعنی اے موسیٰ میں نے اپنی رسالت اور اپنے کلام سے تجھے لوگوں پر بزرگی عطا فرمائی ۔ ہاں حضرت موسیٰ کی اس بزرگی سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو خاتم الانبیاء ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام جو خلیل اللہ ہیں مستثنیٰ ہیں بہ سبب ان دلائل کے جو وارد ہو چکے ہیں ۔ یحییٰ بن یعمر احسن ھو کو مخذوف مان کر احسن پڑھتے تھے ہو سکتا ہے؟ امام ابن جریر فرماتے ہیں میں اس قرأت کو جائز نہیں رکھوں گا اگرچہ عربیت کی بنا پر اس میں نقصان نہیں ۔ آیت کے اس جملے کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ پر احسان رب کو تمام کرنے کیلئے یہ اللہ کی کتاب ان پر نازل ہوئی ، ان دونوں کے مطلب میں کوئی تفاوت نہیں ۔ پھر تورات کی تعریف بیان فرمائی کہ اس میں ہر حکم بہ تفصیل ہے اور وہ ہدایت و رحمت ہے تاکہ لوگ قیامت کے دن اپنے رب سے ملنے کا یقین کرلیں ۔ پھر قرآن کریم کی اتباع کی رغبت دلاتا ہے اس میں غور و فکر کی دعوت دیتا ہے اور اس پر عمل کرنے کی ہدایت فرماتا ہے اور اس کی طرف لوگوں کو بلانے کا حکم دیتا ہے برکت سے اس کا وصف بیان فرماتا ہے کہ جو بھی اس پر کار بند ہو جائے وہ دونوں جہان کی برکتیں حاصل کرے گا اس لئے کہ یہ اللہ کی طرف مضبوط رسی ہے ۔