Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
فَمَا كَانَ دَعۡوٰٮهُمۡ اِذۡ جَآءَهُمۡ بَاۡسُنَاۤ اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوۡۤا اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِيۡنَ‏ ﴿5﴾
سو جس وقت ان پر ہمارا عذاب آیا اس وقت ان کے منہ سے بجز اس کے اور کوئی بات نہ نکلی واقعی ہم ظالم تھے ۔
فما كان دعوىهم اذ جاءهم باسنا الا ان قالوا انا كنا ظلمين
And their declaration when Our punishment came to them was only that they said, "Indeed, we were wrongdoers!"
So jiss waqt unn per humara azab aaya uss waqt unn kay mun say ba-juz iss kay aur koi baat na nikli kay waqaee hum zalim thay.
پھر جب ان پر ہمارا عذاب آپہنچا تو ان کے پاس کہنے کو اور تو کچھ تھا نہیں ، بس بول اٹھے کہ واقعی ہم ہی ظالم تھے ۔
تو ان کے منہ سے کچھ نہ نکلا جب ہمارا عذاب ان پر آیا مگر یہی بولے کہ ہم ظالم تھے ( ف٦ )
یا دن دہاڑے ایسے وقت آیا جب کہ وہ آرام کر رہے تھے ۔ اور جب ہمارا عذاب ان پر آگیا تو ان کی زبان پر اس کے سوا کوئی صدا نہ تھی کہ واقعی ہم ظالم تھے ۔ 5
پھر جب ان پر ہمارا عذاب آگیا تو ان کی پکار سوائے اس کے ( کچھ ) نہ تھی کہ وہ کہنے لگے کہ بیشک ہم ظالم تھے
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :5 یعنی تمہاری عبرت کے لیے ان قوموں کی مثالیں موجود ہیں جو خدا کی ہدایت سے منحرف ہو کر انسانوں اور شیطانوں کی رہنمائی پر چلیں اور آخر کار اس قدر بگڑیں کہ زمین پر ان کا وجود ایک ناقابلِ برداشت لعنت بن گیا اور خدا کے عذاب نے آکر ان کی نجاست سے دنیا کو پاک کر دیا ۔ آخری فقرے سے مقصد دو باتوں پر متنبہ کرنا ہے ۔ ایک یہ کہ تلافی کا وقت گزر جانے کے بعد کسی کا ہوش میں نہ آنا اور اپنی غلطی کا اعتراف کرنا بےکار ہے ۔ سخت نادان ہے وہ شخص اور وہ قوم جو خدا کی دی ہوئی مہلت کو غفلتوں اور سرشاریوں میں ضائع کردے اور داعیانِ حق کی صداؤں کو بہرے کانوں سے سُنے جائے اور ہوش میں صرف اس وقت آئے جب اللہ کی گرفت کا مضبوط ہاتھ اس پر پڑ چکا ہو ۔ دوسرے یہ کہ افراد کی زندگیوں میں بھی اور اقوام کی زندگیوں میں بھی ایک دو نہیں بے شمار مثالیں تمہارے سامنے گزر چکی ہیں کہ جب کسی کی غلط کاریوں کا پیمانہ لبریز ہو چکتا ہے اور وہ اپنی مہلت کی حد کو پہنچ جاتا ہے تو پھر خدا کی گرفت اچانک اسے آپکڑتی ہے ، اور ایک مرتبہ پکڑ میں آجانے کے بعد چھٹکارے کی کوئی سبیل اسے نہیں ملتی ۔ پھر جب تاریخ کے دوران میں ایک دو دفعہ نہیں سینکڑوں اور ہزاروں مرتبہ یہی کچھ ہو چکا ہے تو آخر کیا ضرور ہے کہ انسان اسی غلطی کا بار بار اعادہ کیے چلا جائے اور ہوش میں آنے کے لیے اسی آخری ساعت کا انتظار کرتا رہے جب ہوش میں آنے کا کوئی فائدہ حسرت و اندوہ کے سوا نہیں ہوتا ۔