Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
فَلَنَسۡــَٔــلَنَّ الَّذِيۡنَ اُرۡسِلَ اِلَيۡهِمۡ وَلَـنَسۡـَٔـــلَنَّ الۡمُرۡسَلِيۡنَ ۙ‏ ﴿6﴾
پھر ہم ان لوگوں سے ضرور پوچھیں گے جن کے پاس پیغمبر بھیجے گئے تھے اور ہم پیغمبروں سے ضرور پوچھیں گے ۔
فلنسلن الذين ارسل اليهم و لنسلن المرسلين
Then We will surely question those to whom [a message] was sent, and We will surely question the messengers.
Phir hum unn logon say zaroor poochen gay jin kay pass payghumbar bhejay gaye thay aur hum payghumbaron say zaroor poochen gay.
اب ہم ان لوگوں سے ضرور باز پرس کریں گے جن کے پاس پیغمبر بھیجے گئے تھے ، اور ہم خود پیغمبروں سے بھی پوچھیں گے ( کہ انہوں نے کیا پیغام پہنچایا ، اور انہیں کیا جواب ملا؟ )
تو بیشک ضرور ہمیں پوچھنا ہے ان سے جن کے پاس رسول گئے ( ف۷ ) اور بیشک ضرور ہمیں پوچھنا ہے رسولوں سے ( ف۸ )
پس یہ ضرور ہو کر رہنا ہے کہ ہم ان لوگوں سے باز پرس کریں ، 6 جن کی طرف ہم نے پیغمبر بھیجے ہیں اور پیغمبروں سے بھی پوچھیں﴿ کہ انہوں نے پیغام رسانی کا فرض کہاں تک انجام دیا اور انہیں اس کا کیا جواب ملا﴾ 7
پھر ہم ان لوگوں سے ضرور پرسش کریں گے جن کی طرف رسول بھیجے گئے اور ہم یقیناً رسولوں سے بھی ( ان کی دعوت و تبلیغ کے ردِّ عمل کی نسبت ) دریافت کریں گے
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :6 باز پرس سے مراد روز قیامت کی باز پرس ہے ۔ بدکار افراد اور قوموں پر دنیا میں جو عذاب آتا ہے وہ دراصل ان کے اعمال کی باز پرس نہیں ہے اور نہ وہ ان کے جرائم کی پوری سزا ہے ۔ بلکہ اس کی حیثیت تو بالکل ایسی ہے جیسے کوئی مجرم جو چھوٹا پھر رہا تھا ، اچانک گرفتار کر لیا جائے اور مزید ظلم و فساد کے مواقع اس سے چھین لیے جائیں ۔ تاریخ انسانی اس قسم کی گرفتاریوں کی بے شمار نظیروں سے بھر پڑی ہے اور یہ نظیریں اس بات کی ایک صریح علامت ہیں کہ انسان کو دنیا میں شتر بے مہار کی طرح چھوڑ نہیں دیا گیا ہے کہ جو چاہے کرتا پھرے ، بلکہ اُوپر کوئی طاقت ہے جو ایک حدِ خاص تک اسے ڈھیل دیتی ہے ، تنبیہات پر تنبیہات بھیجتی ہے کہ اپنی شرارتوں سے باز آجائے ، اور جب وہ کسی طرح باز نہیں آتا تو اسے اچانک پکڑ لیتی ہے ۔ پھر اگر کوئی اس تاریخی تجربہ پر غور کرے تو بآسانی یہ نتیجہ بھی نکال سکتا ہے کہ جو فرمان روا اس کائنات پر حکومت کر رہا ہے اس نے ضرور ایسا ایک وقت مقرر کیا ہوگا جب ان سارے مجرموں پر عدالت قائم ہوگی اور ان سے ان کے اعمال کی باز پرس کی جائے گی ۔ یہی وجہ ہے کہ اُوپر کی آیت کو جس میں دنیوی عذاب کا ذکر کیا گیا ہے ، بعد والی آیت کے ساتھ”پس“ کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے ، گویا اس دنیوی عذاب کا بار بار واقع ہونا آخرت کی باز پرس سے یقیناً واقع ہونے پر ایک دلیل ہے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :7 اس سے معلوم ہو ا کہ آخرت کو باز پرس سراسر رسالت ہی کی بنیاد پر ہوگی ۔ ایک طرف پیغمبروں سے پوچھا جائے گا کہ تم نے نوع انسانی تک خدا کا پیغام پہنچانے کے لیے کیا کچھ کیا ۔ دوسری طرف جن لوگوں تک رسولوں کا پیغام پہنچا ان سے سوال کیا جائے گا کہ اس پیغام کے ساتھ تم نے کیا برتاؤ کیا ۔ جس شخص یا جن انسانی گروہوں تک انبیاء کا پیغام نہ پہنچا ہو ، ان کے بارے میں تو قرآن ہمیں کچھ نہیں بتاتا کہ ان کے مقدمہ کا کیا فیصلہ کیا جائے گا ۔ اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھا ہے ۔ لیکن جن اشخاص و اقوام تک پیغمبروں کی تعلیم پہنچ چکی ہے ان کے متعلق قرآن صاف کہتا ہے کہ وہ اپنے کفر و انکار اور فسق و نافرمانی کے لیے کوئی حجّت نہ پیش کر سکیں گے اور ان کا انجام اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ حسرت و ندامت کے ساتھ ہاتھ ملتے ہوئے جہنم کی راہ لیں ۔