Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
وَالۡوَزۡنُ يَوۡمَٮِٕذِ اۨلۡحَـقُّ‌ ۚ فَمَنۡ ثَقُلَتۡ مَوَازِيۡنُهٗ فَاُولٰۤٮِٕكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ‏ ﴿8﴾
اور اس روز وزن بھی برحق ہےپھر جس شخص کا پلا بھاری ہوگا سو ایسے لوگ کامیاب ہونگے ۔
و الوزن يومىذ الحق فمن ثقلت موازينه فاولىك هم المفلحون
And the weighing [of deeds] that Day will be the truth. So those whose scales are heavy - it is they who will be the successful.
Aur uss roz wazan bhi bar haq hai phir jiss shaks ka palla bhari hoga so aisay log kaamyab hongay.
اور اس دن ( اعمال کا ) وزن ہونا اٹل حقیقت ہے ۔ چنانچہ جن کی ترازو کے پلے بھاری ہوں گے ، وہی فلاح پانے والے ہوں گے ۔
اور اس دن تول ضرور ہونی ہے ( ف۱۰ ) تو جن کے پلے بھاری ہوئے ( ف۱۱ ) وہی مراد کو پہنچے ،
اور وزن اس روز عین حق 8 ہوگا ۔ جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گے ۔
اور اس دن ( اعمال کا ) تولا جانا حق ہے ، سو جن کے ( نیکیوں کے ) پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ کامیاب ہوں گے
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :8 اس کا مطلب یہ ہے کہ اس روز خدا کی میزان عدل میں وزن اور حق دونوں ایک دوسرے کے ہم معنی ہوں گے ۔ حق کے سوا کوئی چیز وہاں وزنی نہ ہوگیا اور وزن کے سوا کوئی چیز حق نہ ہوگی ۔ جس کے ساتھ جتنا حق ہوگا اتنا ہی وہ با وزن ہوگا ۔ اور فیصلہ جو کچھ بھی ہو گا وزن کے لحاظ سے ہوگا ، کسی دوسری چیز کا ذرہ برابر لحاظ نہ کیا جائے گا ۔ باطل کی پوری زندگی خواہ دنیا میں وہ کتنی ہی طویل و عریض رہی ہو اور کتنے ہی بظاہر شاندار کارنامے اس کی پشت پر ہوں ، اس ترازو میں سراسر بے وزن قرار پائےگی ۔ باطل پرست جب اس میزان میں تولے جائیں گے تو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ دنیا میں جو کچھ وہ مدّت العمر کرتے رہے وہ سب ایک پرِ کاہ کے برابر بھی وزن نہیں رکھتا ۔ یہی بات ہے جو سورہ کہف آیات ١۰۳ تا ١۰۵ میں فرمائی گئی ہے کہ جو لوگ دنیا کی زندگی میں سب کچھ دنیا ہی کے لیے کرتے رہے اور اللہ کی آیات سے انکار کرکے جن لوگوں نے یہ سمجھتے ہوئے کام کی کہ انجام کار کوئی آخرت نہیں ہے اور کسی کو حساب دینا نہیں ہے ، ان کے کارنامہ زندگی کو ہم آخرت میں کوئی وزن نہ دیں گے ۔
میزان اور اعمال کا دین قیامت کے دن نیکی بدی انصاف و عدل کے ساتھ تولی جانے کی ، اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہ کرے گا ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( ونضع الموازین القسط لیوم القیامتہ ) الخ ، قیامت کے دن ہم عدل کی ترازو رکھیں گے ، کسی پر کوئی ظلم نہ ہو گا ، رائی کے دانے کے برابر بھی عمل ہو گا تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب لینے میں کافی ہیں اور آیت میں ہے اللہ تعالیٰ ایک ذرے کے برابر بھی ظلم نہیں کرتا ، وہ نیکی کو بڑھاتا ہے اور اپنے پاس سے اجر عظیم عطا فرماتا ہے ۔ سورۃ قارعہ میں فرمایا جس کا نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو گیا اسے عیش و نشاط کی زندگی ملی اور جس کا نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہو گیا اس کا ٹھکانا ( ہاویہ ) ہے جو بھڑکتی ہوئی آگ کے خزانے کا نام ہے اور آیت میں ہے ( فَاِذَا نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ وَّلَا يَتَسَاۗءَلُوْنَ101 ) 23- المؤمنون ) یعنی نفحہ پھونک دیا جائے گا سارے رشتے ناتے اور نسب حسب ٹوٹ جائیں گے ، کوئی کسی کا پر سان حال نہ ہو گا ۔ اگر تول میں نیک اعمال بڑھ گئے تو فلاح پالی ورنہ خسارے کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے ۔ فصل کوئی تو کہتا ہے کہ خود اعمال تو لے جائیں گے کوئی کہتا ہے نامہ اعمال تو لے جائیں گے ۔ کوئی کہتا ہے خود عمل کرنے والے تو لے جائیں گے ۔ ان تینوں قولوں کو اس طرح جمع کرنا بھی ممکن ہے کہ ہم کہیں یہ سب صحیح ہیں کبھی عمال تو لے جائیں گے کبھی نامہ اعمال کبھی خود اعمال کرنے والے واللہ اعلم ۔ ان تینوں باتوں کی دلیلیں بھی موجود ہیں ۔ پہلے قول کا مطلب یہ ہے کہ اعمال گو ایک بےجسم چیز ہیں لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انہیں جسم عطا فرمائے گا جیسے کہ صحیح حدیث میں ہے سورۃ بقرہ اور سورۃ آل عمران قیامت کے دن دو سائبانوں کی یا دو ابر کی یا پر پھیلائے ہوئے پرندوں کے دو جھنڈ کی صورت میں آئیں گی اور حدیث میں ہے کہ قرآن اپنے قاری اور عامل کے پاس ایک نوجوان خوش شکل نورانی چہرے والے کی صورت میں آئے گا یہ اسے دیکھ کر پوچھے گا کہ تو کون ہے؟ یہ کہے گا میں قرآن ہوں جو تجھے راتوں کی نیند نہیں سونے دیتا تھا اور دنوں میں پانی پینے سے روکتا تھا ۔ حضرت براء والی حدیث میں جس میں قبر کے سوال جواب کا ذکر ہے اس میں یہ بھی فرمان ہے کہ مومن کے پاس ایک نوجوان خوبصورت خوشبودار آئے گا یہ اس سے پوچھے گا کہ تو کون ہے؟ وہ جواب دے گا کہ میں تیرا نیک عمل ہوں اور کافر و منافق کے پاس اس کے برخلاف شخص کے آنے کا بیان ہے یہ تو تھیں پہلے قول کی دلیلیں ۔ دوسرے قول کی دلیلیں یہ ہیں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص کے سامنے اس کے گناہوں کے ننانوے دفتر پھیلائے جائیں گے جس میں سے ہر ایک اتنا بڑا ہو گا جتنا دور تک نظر پہنچے ۔ پھر ایک پرچہ نیکی کا لایا جائے گا جس پر ( لا الہ الا اللہ ) ہو گا ۔ یہ کہے گا یا اللہ یہ اتنا سا پرچہ ان دفتروں کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو اس سے بےخطر رہ کہ تجھ پر ظلم کیا جائے ، اب وہ پرچہ ان دفتروں کے مقابلہ میں نیکی کے پلڑے میں رکھا جائے گا تو وہ سب دفتر اونچے ہو جائیں گے اور یہ سب سے زیادہ وزن دار اور بھاری ہو جائیں گے ( ترمذی ) تیسرا قول بھی دلیل رکھتا ہے حدیث میں ہے ایک بہت موٹا تازہ گنہگار انسان اللہ کے سامنے لایا جائے گا لیکن ایک مچھر کے پر کے برابر بھی وزن اللہ کے پاس اس کا نہ ہو گا پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ( اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ وَلِقَاۗىِٕهٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا 105 ) 18- الكهف ) ہم قیامت کے دن ان کے لئے کوئی وزن قائم نہ کریں گے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی تعریف میں جو حدیثیں ہیں ان میں ہے کہ حضور نے فرمایا ان کی پتلی پنڈلیوں پہ نہ جانا اللہ کی قسم اللہ کے نزدیک یہ احد پہاڑ سے بھی زیادہ وزن دار ہے ۔