Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
وَيٰۤاٰدَمُ اسۡكُنۡ اَنۡتَ وَزَوۡجُكَ الۡجَـنَّةَ فَـكُلَا مِنۡ حَيۡثُ شِئۡتُمَا وَلَا تَقۡرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوۡنَا مِنَ الظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿19﴾
اور ہم نے حکم دیا کہ اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو پھر جس جگہ سے چاہو دونوں کھاؤ اور اس درخت کے پاس مت جاؤ ورنہ تم دونوں ظالموں میں سے ہو جاؤ گے ۔
و يادم اسكن انت و زوجك الجنة فكلا من حيث شتما و لا تقربا هذه الشجرة فتكونا من الظلمين
And "O Adam, dwell, you and your wife, in Paradise and eat from wherever you will but do not approach this tree, lest you be among the wrongdoers."
Aur hum ney hukum diya kay aey aadam! Tum aur tumhari biwi jannat mein raho. Phir jiss jagah say chahao dono khao aur uss darakht kay pass mat jao werna tum dono zalimon mein say hojao gay.
اور اے آدم ! تم اور تمہاری بیوی دونوں جنت میں رہو ، اور جہاں سے جو چیز چاہو ، کھاؤ ۔ البتہ اس ( خاص ) درخت کے قریب بھی مت پھٹکنا ، ورنہ تم زیادتی کرنے والوں میں شامل ہوجاؤ گے ۔
اور اے آدم تو اور تیرا جوڑا ( ف۲۵ ) جنت میں رہو تو اس سے جہاں چاہو کھاؤ اور اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہو گے ،
اور اے آدم ، تو اور تیری بیوی ، دونوں اس جنت میں رہو ، جہاں جس چیز کو تمہارا جی چاہے کھاؤ ، مگر اس درخت کے پاس نہ پھٹکنا ورنہ ظالموں میں سے ہو جاؤ گے ۔
اور اے آدم! تم اور تمہاری زوجہ ( دونوں ) جنت میں سکونت اختیار کرو سو جہاں سے تم دونوں چاہو کھایا کرو اور ( بس ) اس درخت کے قریب مت جانا ورنہ تم دونوں حد سے تجاوز کرنے والوں میں سے ہو جاؤ گے
پہلا امتحان اور اسی میں لغزش اور اس کا انجام ابلیس کو نکال کر حضرت آدم و حوا کو جنت میں پہنچا دیا گیا اور بجز ایک درخت کے انہیں ساری جنت کی چیزیں کھانے کی رخصت دے دی گئی ۔ اس کا تفصیلی بیان سورۃ بقرہ کی تفسیر میں گذر چکا ہے ۔ شیطان کو اس سے بڑا ہی حسد ہوا ، ان کی نعمتوں کو دیکھ کر لعین جل گیا اور ٹھان لی کہ جس طرح سے ہو انہیں بہکا کر اللہ کے خلاف کر دوں ۔ چنانچہ جھوٹ افتراء باندھ کر ان سے کہنے لگا کہ دیکھو یہ درخت وہ ہے جس کے کھانے سے تم فرشتے بن جاؤ گے اور ہمیشہ کی زندگی اسی جنت میں پاؤ گے ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ ابلیس نے کہا میں تمہیں ایک درخت کا پتہ دیتا ہوں جس سے تمہیں بقاء اور ہمیشگی والا ملک مل جائے گا ۔ یہاں ہے کہ ان سے کہا تمہیں اس درخت سے صرف اس لئے روکا گیا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( یبین اللہ لکم ان تضلوا ) مطلب یہ ہے کہ ( لئلا تضلوا ) اور آیت میں ہے ( ان تمیدبکم ) یہاں بھی یہی مطلب ہے ۔ ( ملکین ) کی دوسری قرأت ( ملکین ) بھی ہے لیکن جمہور کی قرأت لام کے زبر کے ساتھ ہے ۔ پھر اپنا اعتبار جمانے کیلئے قسمیں کھانے لگا کہ دیکھو میری بات کو سچ مانو میں تمہارا خیر خواہ ہوں تم سے پہلے سے ہی یہاں رہتا ہوں ہر ایک چیز کے خواص سے واقف ہوں تم اسے کھا لو بس پھر یہیں رہو گے بلکہ فرشتے بن جاؤ گے قاسم باب مفاعلہ سے ہے اور اس کی خاصیت طرفین کی مشارکت ہے لیکن یہاں یہ خاصیت نہیں ہے ۔ ایسے اشعار بھی ہیں جہاں قاسم آیا ہے اور صرف ایک طرف کے لئے ۔ اس قسم کی وجہ سے اس خبیث کے بہکاوے میں حضرت آدم آ گئے ۔ سچ ہے مومن اس وقت دھوکا کھا جاتا ہے جب کوئی ناپاک انسان اللہ کو بیچ میں دیتا ہے ۔ چنانچہ سلف کا قول ہے کہ ہم اللہ کے نام کے بعد اپنے ہتھیار ڈال دیا کرتے ہیں ۔