Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
يٰبَنِىۡۤ اٰدَمَ قَدۡ اَنۡزَلۡنَا عَلَيۡكُمۡ لِبَاسًا يُّوَارِىۡ سَوۡاٰتِكُمۡ وَرِيۡشًا‌ ؕ وَلِبَاسُ التَّقۡوٰى ۙ ذٰ لِكَ خَيۡرٌ‌ ؕ ذٰ لِكَ مِنۡ اٰيٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمۡ يَذَّكَّرُوۡنَ‏ ﴿26﴾
اے آدم ( علیہ السلام ) کی اولاد ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اور تقوےٰ کا لباس یہ اس سے بڑھ کر ہے یہ اللہ تعالٰی کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں ۔
يبني ادم قد انزلنا عليكم لباسا يواري سواتكم و ريشا و لباس التقوى ذلك خير ذلك من ايت الله لعلهم يذكرون
O children of Adam, We have bestowed upon you clothing to conceal your private parts and as adornment. But the clothing of righteousness - that is best. That is from the signs of Allah that perhaps they will remember.
Aey aadam ( alh-e-salam ) ki aulad hum ney tumharay liye libas peda kiya jo tumhari sharamgahon ko bhi chupata hai aur mojib-e-zeenat bhi hai aur taqway ka libas yeh iss say barh ker hai. Yeh Allah Taalaa ki nishaniyon mein say hai takay yeh log yaad rakhen.
اے آدم کے بیٹو اور بیٹیو ! ہم نے تمہارے لیے لباس نازل کیا ہے جو تمہارے جسم کے ان حصوں کو چھپا سکے جن کا کھولنا برا ہے ، اور جو خوشنمائی کا ذریعہ بھی ہے ۔ ( ١١ ) اور تقوی کا جو لباس ہے وہ سب سے بہتر ہے ۔ ( ١٢ ) یہ سب اللہ کی نشانیوں کا حصہ ہے ، جن کا مقصد یہ ہے کہ لوگ سبق حاصل کریں ۔ ( ١٣ )
اے آدم کی اولاد! بیشک ہم نے تمہاری طرف ایک لباس وہ اتارا کہ تمہاری شرم کی چیزیں چھپائے اور ایک وہ کہ تمہاری آرائش ہو ( ف۳۳ ) اور پرہیزگاری کا لباس وہ سب سے بھلا ( ف۳٤ ) یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ کہیں وہ نصیحت مانیں ،
اے اولادِ آدم 15 ، ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابلِ شرم حصّوں کو ڈھانکے اور تمہارے لیے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو ، اور بہترین لباس تقوٰی کا لباس ہے ۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ، شاید کہ لوگ اس سے سبق لیں ۔
اے اولادِ آدم! بیشک ہم نے تمہارے لئے ( ایسا ) لباس اتارا ہے جو تمہاری شرم گاہوں کو چھپائے اور ( تمہیں ) زینت بخشے اور ( اس ظاہری لباس کے ساتھ ایک باطنی لباس بھی اتارا ہے اور وہی ) تقوٰی کا لباس ہی بہتر ہے ۔ یہ ( ظاہر و باطن کے لباس سب ) اﷲ کی نشانیاں ہیں تاکہ وہ نصیحت قبول کریں
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :15 اب قصہ آدم و حوا کے ایک خاص پہلو کی طرف توجہ منعطف کر کے اہل عرب کے سامنے خود ان کی اپنی زندگی کے اندر شیطانی اغوا کے ایک نمایاں ترین اثر کی نشان دہی فرمائی جاتی ہے ۔ یہ لوگ لباس کو صرف زینت اور موسمی اثرات سے جسم کی حفاظت کے لیے استعمال کرتے تھے ، لیکن اس کی سب سے پہلی بنیادی غرض ، یعنی جسم کےقابل شرم حصّوں کی پردہ پوشی آپ کے نزدیک کوئی اہمیت نہ رکھتی تھی ۔ اُنہیں اپنے ستر دوسروں کے سامنے کھول دینے میں کوئی باک نہ تھا ۔ برہنہ منظرِ عام پر نہا لینا ، راہ چلتے قضائے حاجت کے لیے بیٹھ جانا ، ازار کھل جائے تو ستر کے بے پردہ ہو جانے کی پروا نہ کرنا ان کے شب و روز کے معمولات تھے ۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ان میں سے بکثرت لوگ حج کے موقع پر کعبہ کے گرد برہنہ طواف کرتے تھے اور اس معاملہ میں ان کی عورتیں ان کے مردوں سےبھی کچھ زیادہ بے حیا تھیں ۔ ان کی نگاہ میں یہ ایک مذہبی فعل تھا اور نیک کام سمجھ کر وہ اس کا ارتکاب کرتے تھے ۔ پھر چونکہ یہ کوئی عربوں ہی کی خصوصیت نہ تھی ، دنیا کی اکثر قومیں اسی بے حیائی میں مبتلا رہی ہیں اور آج تک ہیں اس لیے خطاب اہل عرب کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ عام ہے ، اور سارے نبی آدم کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ دیکھو ، یہ شیطانی اغوا کی ایک کھلی ہوئی علامت تمہاری زندگی میں موجود ہے ۔ تم نے اپنے رب کی رہنمائی سے بےنیاز ہو کر اور اس کے رسولوں کی دعوت سے منہ موڑ کر اپنے آپ کو شیطان کےحوالے کر دیا اور اس نے تمہیں انسانی فطرت کے راستے سے ہٹاکر اسی بے حیائی میں مبتلا کر دیا جس میں وہ تمہارے پہلے باپ اور ماں کو مبتلا کرنا چاہتا تھا ۔ اس پر غور کرو تو یہ حقیقت تم پر کھل جائے کہ رسولوں کی رہنمائی کے بغیر تم اپنی فطرت کے ابتدائی مطالبات تک کو نہ سمجھ سکتے ہو اور نہ پورا کر سکتے ہو ۔
لباس اور داڑھی جمال و جلال یہاں اللہ تعالیٰ اپنا احسان یاد دلاتا ہے کہ اس نے لباس اتارا اور ریش بھی ۔ لباس تو وہ ہے جس سے انسان اپنا ستر چھپائے اور ریش وہ ہے جو بطور زینت رونق اور جمال کے پہنا جائے ۔ اول تو ضروریات زندگی سے ہے اور ثانی زیادتی ہے ۔ ریش کے معنی مال کے بھی ہیں اور ظاہری پوشاک کے بھی ہیں اور جمال و خوش لباسی کے بھی ہیں ۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے نیا کرتہ پہنتے ہوئے جبکہ گلے تک وہ پہن لیا فرمایا دعا ( الحمد اللہ الذی کسانی ما اواری بہ عورتی و اتجمل بہ فی حیاتی ) پھر فرمانے لگے میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ہے فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جو شخص نیا کپڑا پہنے اور اس کے گلے تک پہنچتے ہی یہ دعا پڑھے پھر پرانا کپڑا راہ للہ دے دے تو وہ اللہ کے ذمہ میں ، اللہ کی پناہ میں اور اللہ کی حفاظت میں آ جاتا ہے زندگی میں بھی اور بعد از مرگ بھی ( ترمذی ابن ماجہ وغیرہ ) مسند احمد میں ہے حضرت علی نے ایک نوجوان سے ایک کرتہ تین درہم کو خریدا اور اسے پہنا جب پہنچوں اور ٹخنوں تک پہنچا تو آپ نے یہ دعا پڑھی ( الحمد اللہ الذی رزقنی من ریاش ما اتجمل بہ فی الناس واواری بہ عورتی ) یہ دعا سن کر آپ سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ نے اسے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ اسے کپڑا پہننے کے وقت پڑھتے تھے یا آپ از خود اسے پڑھ رہے ہیں؟ فرمایا میں نے اسے حضور سے سنا ہے لباس التقوی کی دوسری قرأت لباس التقوی سین کے زبر سے بھی ہے ۔ رفع سے پڑھنے والے اسے مبتدا کہتے ہیں اور اس کے بعد کا جملہ اس کی خبر ہے عکرمہ فرماتے ہیں اس سے مراد قیامت کے دن پرہیز گاروں کو جو لباس عطا ہو گا وہ ہے ۔ ابن جریج کا قول ہے لباس تقوی ایمان ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں عمل صالح ہے اور اسی سے ہنس مکھ ہوتا ہے ، عروہ کہتے ہیں مراد اس سے مشیت ربانی ہے ۔ عبدالرحمن کہتے ہیں اللہ کے ڈر سے اپنی ستر پوشی کرنا لباس تقویٰ ہے ۔ یہ کل اقوال آپس میں ایک دوسرے کے خلاف نہیں بلکہ مراد یہ سب کچھ ہے اور یہ سب چیزیں ملی جلی اور باہم یک دیگر قریب قریب ہیں ۔ ایک ضعیف سند والی روایت میں حضرت حسن سے مرقوم ہے کہ میں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو منبر نبوی پر کھلی گھنڈیوں کا کرتا پہنے ہوئے کھڑا دیکھا اس وقت آپ کتوں کے مار ڈالنے اور کبوتر بازی کی ممانعت کا حکم دے رہے تھے ۔ پھر آپ نے فرمایا لوگو اللہ سے ڈرو خصوصاً اپنی پوشیدگیوں میں اور چپکے چپکے کانا پھوسی کرنے میں ۔ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ قسم کھا کر بیان فرماتے تھے کہ جو شخص جس کام کو پوشیدہ سے پوشیدہ کرے گا اللہ تعالیٰ اسی کی چادر اس پر علانیہ ڈال دے گا اگر نیک ہے تو نیک اور اگر بد ہے تو بد ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی اور فرمایا اس سے مراد خوش خلقی ہے ۔ ہاں صحیح حدیث میں صرف اتنا مروی ہے کہ حضرت عثمان نے جمعہ کے دن منبر پر کتوں کے قتل کرنے اور کبوتروں کے ذبح کرنے کا حکم دیا ۔