Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
يٰبَنِىۡۤ اٰدَمَ لَا يَفۡتِنَـنَّكُمُ الشَّيۡطٰنُ كَمَاۤ اَخۡرَجَ اَبَوَيۡكُمۡ مِّنَ الۡجَـنَّةِ يَنۡزِعُ عَنۡهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوۡءاٰتِهِمَا ؕ اِنَّهٗ يَرٰٮكُمۡ هُوَ وَقَبِيۡلُهٗ مِنۡ حَيۡثُ لَا تَرَوۡنَهُمۡ‌ ؕ اِنَّا جَعَلۡنَا الشَّيٰطِيۡنَ اَوۡلِيَآءَ لِلَّذِيۡنَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿27﴾
اے اولاد آدم! شیطان تم کو کسی خرابی میں نہ ڈال دے جیسا کہ اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے باہر کر ادیا ایسی حالت میں ان کا لباس بھی اتروا دیا تاکہ وہ ان کو ان کی شرم گاہیں دکھائے ۔ وہ اور اس کا لشکر تم کو ایسے طور پر دیکھتا ہے کہ تم ان کو نہیں دیکھتے ہو ہم نے شیطانوں کو ان ہی لوگوں کا دوست بنایا ہے جو ایمان نہیں لاتے ۔
يبني ادم لا يفتننكم الشيطن كما اخرج ابويكم من الجنة ينزع عنهما لباسهما ليريهما سواتهما انه يرىكم هو و قبيله من حيث لا ترونهم انا جعلنا الشيطين اولياء للذين لا يؤمنون
O children of Adam, let not Satan tempt you as he removed your parents from Paradise, stripping them of their clothing to show them their private parts. Indeed, he sees you, he and his tribe, from where you do not see them. Indeed, We have made the devils allies to those who do not believe.
Aey aulad-e-aadam! Shetan tum ko kissi kharabi mein na daal dey jaisa kay uss ney tumharay maa baap ko jannat say bahir kera diya aisi halat mein unn ka libas bhi utarwa diya takay woh inn ko inn ki sharamgahen dikhaye. Woh aur uss ka lashkar tum ko aisay tor per dekhta hai kay tum unn ko nahi dekhta ho. Hum ney shetanon ko unn hi logon ka dost banaya hai jo eman nahi latay.
اے آدم کے بیٹو اور بیٹیو ! شیطان کو ایسا موقع ہرگز ہرگز نہ دینا کہ وہ تمہیں اسی طرح فتنے میں ڈال دے جیسے اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکالا ، جبکہ ان کا لباس ان کے جسم سے اتر والیا تھا ، تاکہ ان کو ایک دوسرے کی شرم کی جگہیں دکھا دے ۔ اور وہ اس کا جتھ تمہیں وہاں سے دیکھتا ہے جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے ۔ ان شیطانوں کو ہم نے انہی کا دوست بنا دیا ہے جو ایمان نہیں لاتے ۔
اے آدم کی اولاد! ( ف۳۵ ) خبردار! تمہیں شیطان فتنہ میں نہ ڈالے جیسا تمہارے ماں باپ کو بہشت سے نکالا اتروا دیئے ان کے لباس کہ ان کی شرم کی چیزیں انہیں نظر پڑیں ، بیشک وہ اور اس کا کنبہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں کہ تم انہیں نہیں دیکھتے ( ف۳٦ ) بیشک ہم نے شیطانوں کو ان کا دوست کیا ہے جو ایمان نہیں لاتے ،
اے بنی آدم ، ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں پھر اسی طرح فتنے میں مبتلا کر دے جس طرح اس نے تمہارے والدین کو جنّت سے نکلوایا تھا اور ان کے لباس ان پر سے اتروا دیے تھےتاکہ ان کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے سامنے کھولے ۔ وہ اور اس کے ساتھی تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انھیں نہیں دیکھ سکتے ۔ ان شیاطین کو ہم نے ان لوگوں کا سرپرست بنا دیا ہے جو ایمان نہیں لاتے ۔ 16
اے اولادِ آدم! ( کہیں ) تمہیں شیطان فتنہ میں نہ ڈال دے جس طرح اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکال دیا ، ان سے ان کا لباس اتروا دیا تاکہ انہیں ان کی شرم گاہیں دکھا دے ۔ بیشک وہ ( خود ) اور اس کا قبیلہ تمہیں ( ایسی ایسی جگہوں سے ) دیکھتا ( رہتا ) ہے جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے ۔ بیشک ہم نے شیطانوں کو ایسے لوگوں کا دوست بنا دیا ہے جو ایمان نہیں رکھتے
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :16 ان آیات میں جو کچھ ارشاد ہوا ہے اس سے چند اہم حقیقتیں نکھر کر سامنے آجاتی ہیں: اوّل یہ کہ لباس انسان کے لیے ایک مصنوعی چیز نہیں ہے بلکہ انسانی فطرت کا ایک اہم مطالبہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے جسم پر حیوانات کی طرح کوئی پوشش پیدائشی طور پر نہیں رکھی بلکہ حیا اور شرم کا مادہ اس کی فطرت میں ودیعت کر دیا ۔ اس نے انسان کے لیے اس کے اعضائے صنفی کو محض اعضائے صنفی ہی نہیں بنا یا بلکہ سَوْأة بھی بنایا جس کے معنی عربی زبان میں ایسی چیز کے ہیں جس کے اظہار کو آدمی قبیح سمجھے ۔ پھر اس فطری شرم کے تقاضے کو پورا کرنے کے لیے اس نے کوئی بنا بنایا لباس انسان کو نہیں دے دیا بلکہ اس کی فطرت پر لباس کو الہام کیا ( اَنْزَلْنَا علَیْکُمْ لِبَاسًا ) تاکہ وہ اپنی عقل سے کام لے کر اپنی فطرت کے اس مطالبے کو سمجھے اور پھر اللہ کے پیدا کردہ مواد سے کام لے کر اپنے لیے لباس فراہم کرے ۔ دوم یہ کہ اس فطری الہام سے رو سے انسان کے لیے لباس کی اخلاقی ضرورت مقدم ہے ، یعنی یہ کہ وہ اپنی سَوْأة کو ڈھانکے ۔ اور اس کی طبعی ضرورت موخر ہے ، یعنی یہ کہ اس کا لباس اس کےلیے رِیش ( جسم کی آرائش اور موسمی اثرات سے بدن کی حفاظت کا ذریعہ ) ہو ۔ اس باب میں بھی فطرةً انسان کا معاملہ حیوانات کے برعکس ہے ۔ ان کے لیے پوشش کی اصل غرض صرف اس کا ”ریش“ ہونا ہے ، رہا اس کا سترپوش ہونا تو ان کے اعضاء صنفی سرے سے سَوْأة ہی نہیں ہیں کہ اُنہیں چھپانے کے لیے حیوانات کی جبلت میں کوئی داعیہ موجود ہوتا اور اس کا تقاضا پورا کرنے کے لیے ان کے اجسام پر کوئی لباس پیدا کیا جاتا ۔ لیکن جب انسانوں نے شیطان کی رہنمائی قبول کی تو معاملہ پھر اُلٹ گیا ۔ اس نے اپنے ان شاگردوں کو اس غلط فہمی میں ڈال دیا کہ تمہارے لیے لباس کی ضرورت بعینہ وہی ہے جو حیوانات کے اعضاء سَوْأة نہیں ہیں اسی طرح تمہارے یہ اعضاء بھی سَوْأة نہیں ، محض اعضاء صنفی ہی ہیں ۔ سوم یہ کہ انسان کے لیے لباس کا صرف ذریعہ ستر پوشی اور وسیلہ زینت و حفاظت ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ فی الحقیقت اس معاملہ میں جس بھلائی تک انسان کو پہنچنا چاہیے وہ یہ ہے کہ اس کا لباس تقویٰ کا لباس ہو ، یعنی پوری طرح ساتر بھی ہو ، زینت میں بھی حد سے بڑھا ہوا یا آدمی کی حیثیت سے گرا ہوا نہ ہو ، فخر و غرور اور تکبر و ریا کی شان لیے ہوئے بھی نہ ہو ، اور پھر ان ذہنی امراض کی نمائندگی بھی نہ کرتا ہو جن کی بنا پر مرد زنانہ پن اختیار کرتے ہیں ، عورتیں مردانہ پن کی نمائش کرنےلگتی ہیں ، اور ایک قوم دوسری قوم کے مشابہہ بننے کی کوشش کرکے خود اپنی ذلت کا زندہ اشتہار بن جاتی ہے ۔ لباس کے معاملہ میں اس خیر مطلوب کو پہنچنا تو کسی طرح ان لوگوں کے بس میں ہے ہی نہیں جنہوں نے انبیاء علیہم السلام پر ایمان لاکر اپنے آپ کو بالکل خدا کی رہنمائی کے حوالے نہیں کر دیا ہے ۔ جب وہ خدا کی رہنمائی تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں تو شیاطین ان کے سر پرست بنا دیے جاتے ہیں ، پھر یہ شیاطین ان کو کسی نہ کسی غلطی میں مبتلا کرکے ہی چھوڑتے ہیں ۔ چہارم یہ کہ لباس کا معاملہ بھی اللہ کی ان بے شمار نشانیوں میں سے ایک ہے جو دنیا میں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں اور حقیقت تک پہنچنے میں انسان کی مدد کرتی ہیں ۔ بشرطیکہ انسان خود ان سے سبق لینا چاہے ۔ اُوپر جن حقائق کیطرف ہم نے اشارہ کیا ہے انہیں اگر تامُّل کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ لباس کس حیثیت سے اللہ تعالیٰ کا ایک اہم نشان ہے ۔
ابلیس سے بچنے کی تاکید تمام انسانوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ ہوشیار کر رہا ہے کہ دیکھو ابلیس کی مکاریوں سے بچتے رہنا وہ تمہارا بڑا ہی دشمن ہے دیکھو اسی نے تمہارے باپ آدم کو دار سرور سے نکالا اور اس مصیبت کے قید خانے میں ڈالا ان کی پردہ دری کی ۔ پس تمہیں اس کے ہتھکنڈوں سے بچنا چاہئے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اَفَتَتَّخِذُوْنَهٗ وَذُرِّيَّتَهٗٓ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِيْ وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۭ بِئْسَ لِلظّٰلِمِيْنَ بَدَلً50 ) 18- الكهف ) یعنی کیا تم ابلیس اور اس کی قوم کو اپنا دوست بناتے ہو؟ مجھے چھوڑ کر ؟ حالانکہ وہ تو تمہارا دشمن ہے ظالموں کا بہت ہی برا بدلہ ہے ۔