Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
وَاِذَا فَعَلُوۡا فَاحِشَةً قَالُوۡا وَجَدۡنَا عَلَيۡهَاۤ اٰبَآءَنَا وَاللّٰهُ اَمَرَنَا بِهَا‌ ؕ قُلۡ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَاۡمُرُ بِالۡفَحۡشَآءِ‌ ؕ اَتَقُوۡلُوۡنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿28﴾
اور وہ لوگ جب کوئی فحش کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طریق پر پایا ہے اور اللہ نے بھی ہم کو یہی بتا یا ہے ۔ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالٰی فحش بات کی تعلیم نہیں دیتا کیا اللہ کے ذمہ ایسی بات لگاتے ہو جس کی تم سند نہیں رکھتے؟
و اذا فعلوا فاحشة قالوا وجدنا عليها اباءنا و الله امرنا بها قل ان الله لا يامر بالفحشاء اتقولون على الله ما لا تعلمون
And when they commit an immorality, they say, "We found our fathers doing it, and Allah has ordered us to do it." Say, "Indeed, Allah does not order immorality. Do you say about Allah that which you do not know?"
Aur woh log koi fahash kaam kertay hain to kehtay hain hum ney apney baap dada ko issi tareeq per paya hai aur Allah ney bhi hum ko yehi bataya hai. Aap keh dijiye kay Allah fahash baat ki taleem nahi deta kiya Allah kay zimmay aisi baat lagatay ho jiss ko tum sanad nahi rakhtay?
اور جب یہ ( کافر ) لوگ کوئی بے حیائی کا کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو اسی طریقے پر عمل کرتے پایا ہے ، اور اللہ نے ہمیں ایسا ہی حکم دیا ہے ۔ ( ١٤ ) تم ( ان سے ) کہو کہ : اللہ بے حیائی کا حکم نہیں دیا کرتا ۔ کیا تم وہ باتیں اللہ کے نام لگاتے ہو جن کا تمہیں ذرا علم نہیں؟
اور جب کوئی بےحیائی کریں ( ف۳۷ ) تو کہتے ہیں ہم نے اس پر اپنے باپ دادا کو پایا اور اللہ نے ہمیں اس کا حکم دیا ( ف۳۸ ) تو فرماؤ بیشک اللہ بےحیائی کا حکم نہیں دیتا ، کیا اللہ پر وہ بات لگاتے ہو جس کی تمہیں خبر نہیں ،
یہ لوگ جب کوئی شرمناک کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے اپنے باپ دادا کو اِسی طریقہ پر پایا ہے اور اللہ ہی نے ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے ۔ 17 ان سے کہو اللہ بے حیائی کا حکم کبھی نہیں دیا کرتا ۔ 18 کیا تم اللہ کا نام لے کر وہ باتیں کہتے ہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے ( کہ وہ اللہ کی طرف سے ہیں؟ )
اور جب وہ کوئی بے حیائی کا کام کرتے ہیں ( تو ) کہتے ہیں: ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی ( طریقہ ) پر پایا اور اﷲ نے ہمیں اسی کا حکم دیا ہے ۔ فرما دیجئے کہ اﷲ بے حیائی کے کاموں کا حکم نہیں دیتا ۔ کیا تم اﷲ ( کی ذات ) پر ایسی باتیں کرتے ہو جو تم خود ( بھی ) نہیں جانتے
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :17 اشارہ ہے اہل عرب کے برہنہ طواف کی طرف ، جس کا ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں ۔ وہ لوگ اس کو ایک مذہبی فعل سمجھ کر کرتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ خدا نے یہ حکم دیا ہے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :18 بظاہر یہ ایک بہت ہی مختصر سا جملہ ہے مگر درحقیقت اس میں قرآن مجید نے ان لوگوں کے جاہلانہ عقائد کے خلاف ایک بہت بڑی دلیل پیش کی ہے ۔ اس طرزِ استدلال کو سمجھنے کے لیے دو باتیں بظور مقدمہ کے پہلے سمجھ لینی چاہییں: ایک یہ کہ اہل عرب اگرچہ اپنی بعض مذہبی رسموں میں برہنگی اختیار کرتے تھے اور اسےایک مقدس مذہبی فعل سمجھتے تھے ، لیکن برہنگی کا بجائے خود ایک شرمناک فعل ہونا خود ان کے نزدیک بھی مسلَّم تھا ، چنانچہ کوئی شریف اور ذی عزت عرب اس بات کو پسند نہ کرتا تھا کہ کسی مہذب مجلس میں ، یا بازار میں ، یا اپنے اعزّہ اور اقربا کے درمیان برہنہ ہو ۔ دوسرے یہ کہ وہ لوگ برہنگی کو شرمناک جاننے کے باوجود ایک مذہبی رسم کی حیثیت سے اپنی عبادت کے موقع پر اختیار کرتے تھے اور چونکہ اپنے مذہب کو خدا کی طرف سے سمجھتے تھے اس لیے کہ ان کا دعویٰ تھا کہ یہ رسم بھی خدا ہی کی طرف سے مقرر کی ہوئی ہے ۔ اس پر قرآن مجید یہ استدلال کرتا ہے کہ جو کام فحش ہے اور جسے تم خود بھی جانتے اور مانتے ہو کہ فحش ہے اس کے متعلق تم یہ کیسے باور کر لیتے ہو کہ خدا نے اس کا حکم دیا ہوگا ۔ کسی فحش کام کا حکم خدا کی طرف سے ہرگز نہیں ہو سکتا ، اور اگر تمہارے مذہب میں ایسا حکم پایا جاتا ہے تو یہ اس بات کی صریح علامت ہے کہ تمہارا مذہب خدا کی طرف سے نہیں ہے ۔
جہالت اور طواف کعبہ مشرکین ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف کرتے تھے اور کہتے تھے کہ جیسے ہم پیدا ہوئے ہیں اسی حالت میں طواف کریں گے ۔ عورتیں بھی آگے کوئی چمڑے کا ٹکڑا یا کوئی چیز رکھ لیتی تھیں اور کہتی تھیں ۔ الیوم یبدو بعضہ اوکلہ وما بدا منہ فلا احلہ آج اس کا تھوڑا سا حصہ ظاہر ہو جائے گا اور جتنا بھی ظاہر ہو میں اسے اس کے لئے جائز نہیں رکھتی ۔ اس پر آیت ( واذا فعلوا ) الخ ، نازل ہوئی ہے ۔ یہ دستور تھا کہ قریش کے سوا تمام عرب بیت اللہ شریف کا طواف اپنے پہنے ہوئے کپڑوں میں نہیں کرتے تھے سمجھتے تھے کہ یہ کپڑے جنہیں پہن کر اللہ کی نافرمانیاں کی ہیں اس قابل نہیں رہے کہ انہیں پہنے ہوئے طواف کر سکیں ہاں قریش جو اپنے تئیں حمس کہتے تھے اپنے کپڑوں میں بھی طواف کرتے تھے اور جن لوگوں کو قریش کپڑے بطور ادھار دیں وہ بھی ان کے دیئے ہوئے کپڑے پہن کر طواف کر سکتا تھا یا وہ شخص کپڑے پہنے طواف کر سکتا تھا جس کے پاس نئے کپڑے ہوں ۔ پھر طواف کے بعد ہی انہیں اتار ڈالتا تھا اب یہ کسی کی ملکیت نہیں ہو سکتے تھے ۔ پس جس کے پاس نیا کپڑا نہ ہو اور حمس بھی اس کو اپنا کپڑا نہ دے تو اسے ضروری تھا کہ وہ ننگا ہو کر طواف کرے ۔ خواہ عورت ہو خواہ مرد عورت اپنے آگے کے عضو پرذرا سی کوئی چیز رکھ لیتی اور وہ کہتی جس کا بیان اوپر گذرا لیکن عموماً عورتیں رات کے وقت طواف کرتی تھیں یہ بدعت انہوں نے از خود گھڑ لی تھی اس فعل کی دلیل سوائے باپ دادا کی تقلید کے اور ان کے پاس کچھ نہ تھی لیکن اپنی خوش فہمی اور نیک ظنی سے کہ دیتے تھے کہ اللہ کا بھی یہی حکم ہے ۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اگر یہ فرمودہ رب نہ ہوتا تو ہمارے بزرگ اس طرح نہ کرتے ۔ اس لئے حکم ہوتا ہے کہ اے نبی آپ ان سے کہدیجئے کہ اللہ تعالیٰ بےحیائی کے کاموں کا حکم نہیں کرتا ۔ ایک تو برا کام کرتے ہوں دوسرے جھوٹ موٹ اس کی نسبت اللہ کی طرف کرتے ہو یہ چوری اور سینہ زوری ہے ۔ کہدے کہ رب العالمیں کا حکم تو عدل و انصاف کا ہے ، استقامت اور دیانت داری کا ہے ، برائیوں اور گندے کاموں کے چھوڑنے کا ہے ، عبادات ٹھیک طور پر بجا لانے کا ہے جو اللہ کے سچے رسولوں کے طریقہ کے مطابق ہوں ، جن کی سچائی ان کے زبردست معجزوں سے اللہ نے ثابت کر دی ہے ، ان کی لائی ہوئی شریعت پر اخلاص کے ساتھ عمل کرتے ہوں ۔ جب تک اخلاص اور پیغمبر کی تابعداری کسی کام میں نہ ہو اللہ کے ہاں وہ مقبول نہیں ہوتا ۔ اس نے جس طرح تمہیں اول اول پیدا کیا ہے اسی طرح وہ دوبارہ بھی لوٹائے گا ، دنیا میں بھی اسی نے پیدا کیا ، آخرت کے دن بھی وہی قبروں سے دوبارہ پیدا کرے گا ، پہلے تم کچھ نہ تھے اس نے تمہیں بنایا ۔ اب مرنے کے بعد پھر بھی وہ تمہیں زندہ کر دے گا ۔ جیسے اس نے شروع میں تمہاری ابتداء کی تھی اس طرح پھر سے تمہارا اعادہ کرے گا چنانچہ حدیث میں بھی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک وعظ میں فرمایا لوگو تم اللہ کے سامنے ننگے پیروں ننگے بدنوں بےختنہ جمع کئے جاؤ گے جیسے کہ ہم نے تمہیں پیدائش میں کیا تھا اسی کو پھر دوہرائیں گے یہ ہمارا وعدہ ہے اور ہم اسے کر کے ہی رہنے والے ہیں ۔ یہ روایت بخاری و مسلم میں بھی نکالی گئی ہے ۔ یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ جیسے ہم نے لکھ دیا ہے ویسے ہی تم ہوؤ گے ۔ ایک روایت میں ہے جیسے تمہارے اعمال تھے ویسے ہی تم ہوؤ گے یہ بھی معنی ہیں کہ جس کی ابتداء میں بدبختی لکھ دی ہے وہ بدبختی اور بداعمالی تھے ویسے ہی تم ہوؤ گے یہ بھی معنی ہیں کہ جس کی ابتداء میں بدبختی لکھ دی ہے وہ بدبختی اور بداعمالی کی طرف ہی لوٹے گا گو درمیان میں نیک ہو گیا اور جس کی تقدیر میں شروع سے ہی نیکی اور سعادت لکھ دی گئی ہے وہ انجام کار نیک ہی ہو گا گو اس سے کسی وقت برائی کے اعمال بھی سرزد ہو جائیں ۔ جیسے کہ فرعون کے زمانے کے جادوگر کہ ساری عمر سیاہ کاریوں اور کفر میں کٹی لیکن آخر وقت مسلمان اولیاء ہو کر مرے ۔ یہ بھی معنی ہیں کہ اللہ تم میں سے ہر ایک کو ہدایت پر یا گمراہی پر پیدا کر چکا ہے ایسے ہی ہو کر تم ماں کے بطن سے نکلو گے ۔ یہ بھی مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابن آدم کی پیدائش مومن و کافر ہونے کی حالت میں کی جیسے فرمان ہے آیت ( ھو الذی خلقکم فمنکم کافر و منکم مومن ) پھر انہیں اسی طرح قیامت کے دن لوٹائے گا یعنی مومن و کافر کے گروہوں میں ۔ اسی قول کی تائید صحیح بخاری شریف کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں حضور فرماتے ہیں اس کی قسم جس کے سوا کوئی اور معبود نہیں کہ تم میں سے ایک شخص جنتیوں کے اعمال کرتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک بام بھر کا یا ہاتھ بھر کا فرق رہ جاتا ہے پھر اس پر لکھا ہوا سبقت کر جاتا ہے اور دوزخیوں کے اعمال شروع کر دیتا ہے اور اسی میں داخل ہو جاتا ہے اور کوئی جہنمیوں کے اعمال کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ جہنم سے ایک ہاتھ یا ایک بام دور رہ جاتا ہے کہ تقدیر کا لکھا آگے آ جاتا ہے اور وہ جنتیوں کے اعمال کرنے لگتا ہے اور جنت نشین ہو جاتا ہے ، دوسری روایت بھی اسی طرح کی ہے اس میں یہ بھی ہے کہ اس کے وہ کام لوگوں کی نظروں میں جہنم اور جنت کے ہوتے ہیں ۔ اعمال کا دارو مدار خاتمے پر ہے اور حدیث میں ہے ہر نفس اسی پر اٹھایا جائے گا جس پر تھا ( مسلم ) ایک اور روایت میں ہے جس پر مرا ۔ اگر اس آیت سے مرد یہی لی جائے تو اسمیں اس کے بعد فرمان آیت ( فاقم وجھک ) میں اور بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں اور صحیح مسلم کی حدیث جس میں فرمان باری ہے کہ میں نے اپنے بندوں کو موحد و حنیف پیدا کیا پھر شیطان نے ان کے دین سے انہیں بہکا دیا ، اس میں کوئی جمع کی وجہ ہونی چاہیے اور وہ یہ ہے کہ اللہ نے انہیں دوسرے حال میں مومن و کافر ہونے کیلئے پیدا کیا ۔ گو پہلے حال میں تمام مخلوق کو اپنی معرفت و توحید پر پیدا کیا تھا کہ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ۔ جیسے کہ اس نے ان سے روز میثاق میں عہد بھی لیا تھا اور اسی وعدے کو ان کی جبلت گھتی میں رکھ دیا تھا اس کے باوجود اس نے مقدمہ کیا تھا کہ ان میں سے بعض شقی اور بد بخت ہوں گے اور بعض سعید اور نیک بخت ہوں گے ۔ جیسے فرمان ہے اسی نے تمہیں پیدا کیا پھر تم میں سے بعض کافر ہیں اور بعض مومن اور حدیث میں ہے ہر شخص صبح کرتا ہے پھر اپنے نفس کی خرید فروخت کرتا ہے کچھ لوگ ایسے ہیں جو اسے آزاد کرا لیتے ہیں کچھ ایسے ہیں جو اسے ہلاک کر بیٹھتے ہیں ۔ اللہ کی تقدیر ، اللہ کی مخلوق میں جاری ہے ، اسی نے مقدر کیا اسی نے ہدایت کی ، اسی نے ہر ایک کو اس کی پیدائش دی پھر رہنمائی کی ۔ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے کہ جو لوگ سعادت والوں میں سے ہیں ان پر نیکوں کے کام آسان ہوں گے اور جو شقاوت والے ہیں ان پر بدیاں آسان ہوں گی ۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے اس فرقے نے راہ پائی اور ایک فرقے پر گمراہی ثابت ہو چکی ۔ پھر اس کی وجہ بیان فرمائی کہ انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیطانوں کو دوست بنا لیا ہے ، اس آیت سے اس مذہب کی تردید ہوتی ہے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو کسی معصیت کے عمل پر یا کسی گمراہی کے عقیدے پر عذاب نہیں کرتا تا وقتیکہ اس کے پاس صحیح چیز صاف آ جائے اور پھر وہ اپنی برائی پر ضد اور عناد سے جما رہے ۔ کیونکہ اگر یہ مذہب صحیح ہوتا تو جو لوگ گمراہ ہیں لیکن اپنے تئیں ہدایت پر سمجھتے ہیں اور جو واقعی ہدایت پر ہیں ان میں کوئی فرق نہ ہونا چاہئے تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان دونوں میں فرق کیا ان کے نام میں بھی اور ان کے احکام میں بھی ۔ آیت آپ کے سامنے موجود ہے پڑھ لیجئے ۔