Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
قَالَ ادۡخُلُوۡا فِىۡۤ اُمَمٍ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ مِّنَ الۡجِنِّ وَالۡاِنۡسِ فِى النَّارِ‌ ؕ كُلَّمَا دَخَلَتۡ اُمَّةٌ لَّعَنَتۡ اُخۡتَهَا‌ ؕ حَتّٰۤى اِذَا ادَّارَكُوۡا فِيۡهَا جَمِيۡعًا ۙ قَالَتۡ اُخۡرٰٮهُمۡ لِاُوۡلٰٮهُمۡ رَبَّنَا هٰٓؤُلَۤاءِ اَضَلُّوۡنَا فَاٰتِهِمۡ عَذَابًا ضِعۡفًا مِّنَ النَّارِ‌  ؕ قَالَ لِكُلٍّ ضِعۡفٌ وَّلٰـكِنۡ لَّا تَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿38﴾
اللہ تعالٰی فرمائے گا کہ جو فرقے تم سے پہلے گزر چکے ہیں جنات میں سے بھی اور آدمیوں میں سے بھی ان کے ساتھ تم بھی دوزخ میں جاؤ ۔ جس وقت بھی کوئی جماعت داخل ہوگی اپنی دوسری جماعت کو لعنت کرے گی یہاں تک کہ جب اس میں سب جمع ہوجائیں گے تو پچھلے لوگ پہلے لوگوں کی نسبت کہیں گے کہ ہمارے پروردگار ہم کو ان لوگوں نے گمراہ کیا تھا سو ان کو دوزخ کا عذاب دوگنا دے ۔ اللہ تعالٰی فرمائے گا کہ سب ہی کا دوگنا ہے لیکن تم کو خبر نہیں ۔
قال ادخلوا في امم قد خلت من قبلكم من الجن و الانس في النار كلما دخلت امة لعنت اختها حتى اذا اداركوا فيها جميعا قالت اخرىهم لاولىهم ربنا هؤلاء اضلونا فاتهم عذابا ضعفا من النار قال لكل ضعف و لكن لا تعلمون
[ Allah ] will say, "Enter among nations which had passed on before you of jinn and mankind into the Fire." Every time a nation enters, it will curse its sister until, when they have all overtaken one another therein, the last of them will say about the first of them "Our Lord, these had misled us, so give them a double punishment of the Fire. He will say, "For each is double, but you do not know."
Allah Taalaa farmaye ga jo firqay tum say pehlay guzar chukay hain jinnaat mein say bhi aur aadmiyon mein say bhi unn kay sath tum bhi dozakh mein jao. Jiss waqt bhi koi jamat dakhil hogi apni doosti jamat ko laanat keray gi yahan tak kay jab iss mein sab jama hojayen gay to pichlay log pehlay logon ki nisbat kahen gay kay humaray perwerdigar hum ko inn logon ney gumrah kiya tha so inn ko dozakh ka azab dugna dey. Allah Taala farmaye ga sab hi ka dugna hai lekin tum ko khabar nahi.
اللہ فرمائے گا کہ : جاؤ ، جنات اور انسانوں کے ان گروہوں کے ساتھ تم بھی دوزخ میں داخل ہوجاؤ جو تم سے پہلے گذر چکے ہیں ۔ ( اس طرح ) جب بھی کوئی گروہ دوزخ میں داخل ہوگا وہ اپنے جیسوں پر لعنت بھیجے گا ( ٢٠ ) یہاں تک کہ جب ایک کے بعد ایک ، سب اس میں اکٹھے ہوجائیں گے تو ان میں سے جو لوگ بعد میں آئے تھے ، وہ اپنے سے پہلے آنے والوں کے بارے میں کہیں گے کہ : اے ہمارے پروردگار ! انہوں نے ہمیں غلط راستے پر ڈالا تھا ، اس لیے ان کو آگ کا دگنا عذاب دینا ۔ اللہ فرمائے گا کہ : سبھی کا عذاب دگنا ہے ، ( ٢١ ) لیکن تمہیں ( ابھی ) پتہ نہیں ہے ۔
اللہ ان سے ( ف۵۹ ) فرماتا ہے کہ تم سے پہلے جو اور جماعتیں جن اور آدمیوں کی آگ میں گئیں ، انہیں میں جاؤ جب ایک گروہ ( ف٦۰ ) داخل ہوتا ہے دوسرے پر لعنت کرتا ہے ( ف٦۱ ) یہاں تک کہ جب سب اس میں جا پڑے تو پچھلے پہلوں کو کہیں گے ( ف٦۲ ) اے رب ہمارے! انہوں نے ہم کو بہکایا تھا تو انہیں آگ کا دُونا عذاب دے ، فرمائے گا سب کو دُونا ہے ( ف٦۳ ) مگر تمہیں خبر نہیں ( ف٦٤ )
اللہ فرمائے گا جاؤ ، تم بھی اسی جہنم میں چلے جاؤ جس میں تم سے پہلے گزرے ہوئے گروہ جن و انس جا چکے ہیں ۔ ہر گروہ جب جہنم میں داخل ہوگا تو اپنے پیش رو گروہ پر لعنت کرتا ہوا داخل ہوگا ، حتٰی کہ جب سب وہاں جمع ہو جائیں گےتو ہر بعد والا گروہ پہلے گروہ کے حق میں کہے گا کہ اے ربّ ، یہ لوگ تھے جنہوں نے ہم کو گمراہ کیا لہٰذا اِنہیں آگ کا دوہرا عذاب دے ۔ جواب میں ارشاد ہوگا ، ہر ایک کے لیے دوہرا ہی عذاب ہے مگر تم جانتے نہیں ہو ۔ 30
اﷲ فرمائے گا: تم جنوں اور انسانوں کی ان ( جہنّمی ) جماعتوں میں شامل ہو کر جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں دوزخ میں داخل ہو جاؤ ۔ جب بھی کوئی جماعت ( دوزخ میں ) داخل ہوگی وہ اپنے جیسی دوسری جماعت پر لعنت بھیجے گی ، یہاں تک کہ جب اس میں سارے ( گروہ ) جمع ہو جائیں گے تو ان کے پچھلے اپنے اگلوں کے حق میں کہیں گے کہ اے ہمارے ربّ! انہی لوگوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا سو ان کو دوزخ کا دوگنا عذاب دے ۔ ارشاد ہوگا: ہر ایک کے لئے دوگنا ہے مگر تم جانتے نہیں ہو
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :30 یعنی بہرحال تم میں سے ہر گروہ کسی کا خلف تھا تو کسی سلف بھی تھا ۔ اگر کسی گروہ کے اسلاف نے اس کے لیے فکر وعمل کی گمراہیوں کا ورثہ چھوڑا تھا تو خود وہ بھی اپنے اخلاف کے لیے ویسا ہی ورثہ چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوا ۔ اگر ایک گرہ کے گمراہ ہونے کی کچھ ذمہ داری اس کے اسلاف پر عائد ہوتی ہے تو اس کے اخلاف کی گمراہی کا اچھا خاصا بارخود اس پر بھی عائد ہوتا ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا کہ ہر ایک کے لیے دوہرا عذاب ہے ۔ ایک عذاب خود گمراہی اختیار کرنے کا اور دوسرا عذاب دوسروں کو گمراہ کرنے کا ۔ ایک سزا اپنے جرائم کی اور دوسری سزا دوسروں کے جرائم پیشگی کی میراث چھوڑ آنے کی ۔ حدیث میں اسی مضمون کی توضیح یوں بیان فرمائی گئی ہے کہ من ابتدع بدعة ضلالةِ لا یرضاھا اللہ و رسولہ کان علیہ من الاثم مثل اٰثام من عمل بھا لا ینقص ذالک من اوزارھم شیئا ۔ یعنی جس نے کسی نئی گمراہی کا آغاز کیا جو اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک ناپسندیدہ ہو ، تو اس پر ان سب لوگوں کے گناہ کی ذمہ داری عائد ہوگی جنہوں نے اس کے نکالے ہوئے طریقہ پر عمل کیا ، بغیر اس کے کہ خود ان عمل کرنے والوں کی ذمہ داری میں کوئی کمی ہو ۔ دوسری حدیث میں ہے لاتقتل نفس ظلما الا کان علی ابن اٰدم الاول کفل من دمھا لانہ اول من سن القتل ۔ یعنی دنیا میں جو انسان بھی ظلم کے ساتھ قتل کیا جاتا ہے اس کے خونِ ناحق کا ایک حصہ آدم کے اس پہلے بیٹے کو پہنچتا ہے جس نے اپنے بھائی کو قتل کیا تھا ، کیونکہ قتلِ انسان کا راستہ سب سے پہلے اسی نے کھولا تھا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص یا گرہ کسی غلط خیال یا غلط رویّہ کی بنا ڈالتا ہے وہ صرف اپنی ہی غلطی کا ذمہ دار نہیں ہوتا بلکہ دنیا میں جتنے انسان اس سے متاثر ہوتے ہیں ان سب کے گناہ کی ذمہ داری کا بھی ایک حصہ اس کے حساب میں لکھا جاتا رہتا ہے اور جب تک اس کی غلطی کے اثرات چلتے رہتے ہیں اس کے حساب میں ان کا اندراج ہوتا رہتا ہے ۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر شخص اپنی نیکی یا بدی کا صرف اپنی ذات کی حد تک ہی ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اس امر کا بھی جواب دہ ہے کہ اس کی نیکی یا بدی کے کیا اثرات دوسروں کی زندگیوں پر مرتب ہوئے ۔ مثال کے طور پر ایک زانی کو لیجیے ۔ جن لوگوں کی تعلیم و تربیت سے ، جن کی صحبت کے اثر سے ، جن کی بری مثالیں دیکھنے سے ، اور جن کی ترغیبات سے اس شخص کے اندر زناکاری کی صفت نےظہور کیا وہ سب اس کے زنا کار بننے میں حصہ دار ہیں ۔ اور خود ان لوگوں نے اوپر جہاں جہاں سے اس بد نظری و بدنیتی اور بدکاری کی میراث پائی ہے وہاں تک اس کی ذمہ داری پہنچتی ہے حتٰی کہ یہ سلسلہ اس اولین انسان پر منتہی ہوتا ہے جس نے سب سے پہلے نوعِ انسانی کو خواہش نفس کی تسکین کا یہ غلط راستہ دکھایا ۔ یہ اس زانی کے حساب کا وہ حصہ ہے جو اس کے ہم عصروں اور اس کے اسلاف سے تعلق رکھتا ہے ۔ پھر وہ خود بھی اپنی زنا کاری کا ذمہ دار ہے ۔ اس کو بھلے اور برے کی جو تمیز دی گئی تھی ، اس میں ضمیر کی جوطاقت رکھی گئی تھی ، اس کے اندر ضبطِ نفس کی جو قوت ودیعت کی گئی تھی ، اس کو نیک لوگوں سےخیر و شر کا جو علم پہنچا تھا ، اس کے سامنے اخیار کی جو مثالیں موجود تھیں ، اس کو صنفی بدعملی کے برے نتائج سے جو واقفیت تھی ، ان میں سے کسی چیز سے بھی اس نے فائدہ نہ اُٹھایا اور اپنےآپ کو نفس کی اس اندھی خواہش کے حوالے کر دیا جو صرف اپنی تسکین چاہتی تھی خواہ وہ کسی طریقہ سے ہو ۔ یہ اس کےحساب کا وہ حصہ ہے جو اس کی اپنی ذات سے تعلق رکھتا ہے ۔ پھر یہ شخص اس بدی کو جس کا اکتساب اس نے کیا اور جسے خود اپنی سے وہ پرورش کرتا رہا ، دوسروں میں پھیلانا شروع کرتا ہے ۔ کسی مرضِ خبیث کی چھوت کہیں سے لگا لاتا ہے اور اسےاپنی نسل میں اور خدا جانے کن کن نسلوں میں پھیلا کر نہ معلوم کتنی زندگیوں کو خراب کر دیتا ہے ۔ کہیں اپنا نطفہ چھوڑ آتا ہے اور جس بچہ کی پرورش کا بار اسے خود اُٹھانا چاہیے تھا اسے کسی اور کی کمائی کا ناجائز حصہ دار ، اس کےبچوں کےحقوق میں زبردستی کا شریک ، اس کی میراث میں ناحق کا حق دار بنا دیتا ہے اور اس حق تلفی کا سلسلہ نہ معلوم کتنی نسلوں تک چلتا رہتا ہے ۔ کسی دوشیزہ لڑکی کو پُھسلا کر بد اخلاقی کی راہ پر ڈالتا ہے اور اس کے اندر وہ بری صفات ابھار دیتا ہے جو اس سے منعکس ہو کر نہ معلوم کتنے خاندانوں اور کتنی نسلوں تک پہنچتی ہیں اور کتنے گھر بگاڑ دیتی ہیں ۔ اپنی اولاد ، اپنے اقارب ، اپنے دوستوں اور اپنی سوسائٹی کےدوسرے لوگوں کے سامنے اپنے اخلاق کی ایک بری مثال پیش کرتا ہے اور نہ معلوم کتنے آدمیوں کے چال چلن خرب کرنے کا سبب بن جاتا ہے جس کے اثرات بعد کی نسلوں میں مدّتہائے دراز تک چلتے رہتے ہیں ۔ یہ سارا فساد جو اس شخص نے سوسائٹی میں برپا کیا ، انصاف چاہتا ہے کہ یہ بھی اس کے حساب میں لکھا جائے اور اس وقت تک لکھا جاتا رہے جب تک اس کی پھیلائی ہوئی خرابیوں کا سلسلہ دنیا میں چلتا رہے ۔ اس پر نیکی کو بھی قیاس کر لینا چاہیے ۔ جو نیک ورثہ اپنے اسلاف سے ہم کو ملا ہے اس کا اجر ان سب لوگوں کو پہنچنا چاہیے جو ابتدائے آفرنیش سے ہمارے زمانہ تک اس کے منتقل کرنے میں حصہ لیتے رہے ہیں پھر اس ورثہ کو لے کر اسے سنبھالنے اور ترقی دینے میں جو خدمت ہم انجام دیں گے اس کا اجر ہمیں بھی ملنا چاہیے ۔ پھر اپنی سعی خیر کے جو نقوش و اثرات ہم دنیا میں چھوڑ جائیں گے انہیں بھی ہماری بھلائیوں کے حساب میں اس وقت تک برابر درج ہوتے رہنا چاہیےجب تک یہ نقوش باقی رہیں اور ان کے اثرات کا سلسلہ نوعِ انسانی میں چلتا رہے اور ان کے فوائد سے خلقِ خدا متمتع ہوتی رہے ۔ جزا کی یہ صورت جو قرآن پیش کر رہا ہے ، ہر صاحب عقل انسان تسلیم کرےگا کہ صحیح اور مکمل انصاف اگر ہو سکتا ہے تو اسی طرح ہو سکتا ہے ۔ اس حقیقت کو اگر اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو اس سے ان لوگوں کی غلط فہمیاں بھی دور ہو سکتی ہیں جنہوں نے جزا کے لیے اسی دنیا کی موجودہ زندگی کو کافی سمجھ لیا ہے ، اور ان لوگوں کی غلط فہمیاں بھی جو یہ گمان رکھتے ہیں کہ انسان کو اس کے اعمال کی پوری جزاء تناسُخ کی صورت میں مل سکتی ہے ۔ دراصل ان دونوں گروہوں نے نہ تو انسانی اعمال اور ان کے اثرات و نتائج کی وسعتوں کو سمجھا ہے اور نہ منصفانہ جزا اور اس کے تقاضوں کو ۔ ایک انسان آج اپنی پچاس ساٹھ سال کی زندگی میں جو اچھے یا برے کام کرتا ہے ان کی ذمہ داری میں نہ معلوم اوپر کی کتنی نسلیں شریک ہیں جو گزر چکیں اور آج یہ ممکن نہیں کہ انہیں اس کی جزاء یا سزا پہنچ سکے ۔ پھر اس شخص کے یہ اچھے یا برے اعمال جو وہ آج کر رہا ہے اس کی موت کے ساتھ ختم نہیں ہو جائیں گے بلکہ ان کے اثرات کا سلسلہ آئندہ صد ہا برس تک چلتا رہے گا ، ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں انسانوں تک پھیلے گا اور اس کے حساب کا کھاتہ اس وقت تک کھلا رہے گا جب تک یہ اثرات چل رہے ہیں اور پھیل رہے ہیں ۔ کس طرح ممکن ہے کہ آج ہی اس دنیا کی زندگی میں اس شخص کو اس کے کسب کی پوری جزا مل جائے درآں حالے کہ ابھی اس کے کسب کے اثرات کا لاکھواں حصہ بھی رونما نہیں ہوا ہے ۔ پھر اس دنیا کی محدود زندگی اور اس کے محدود امکانات سرے سے اتنی گنجائش ہی نہیں رکھتے کہ یہاں کسی کو اس کے کسب کا پورا بدلہ مل سکے ۔ آپ کسی ایسے شخص کے جرم کا تصور کیجیے جو مثلاً دنیا میں ایک جنگِ عظیم کی آگ بھڑکاتا ہے اور اس کی اس حرکت کے بے شمار برے نتائج ہزاروں برس تک اربوں انسانوں تک پھیلتے ہیں ۔ کیا کوئی بڑی سے بڑی جسمانی ، اخلاقی ، روحانی ، یا مادّی سزا بھی ، جو اس دنیا میں دی جانی ممکن ہے ، اس کے اس جرم کی پوری منصفانہ سزا ہو سکتی ہے؟ اسی طرح کیا دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا انعام بھی ، جس کا تصور آپ کر سکتے ہیں ، کسی ایسے شخص کے لیے کافی ہو سکتا ہے جو مدّةالعمر نوعِ انسانی کی بھلائی کے لیے کام کرتا رہا ہو اور ہزاروں سال تک بے شمار انسان جس کی سعی کے ثمرات سے فائدہ اُٹھائے چلے جارہے ہوں ۔ عمل اور جزا کے مسئلے کو اس پہلو سے جو شخص دیکھے گا اسے یقین ہو جائے گا کہ جزا کے لیے ایک دوسرا ہی عالم درکار ہے جہاں تمام اگلی اور پچھلی نسلیں جمع ہوں ، تمام انسانوں کے کھاتے بند ہو چکے ہوں ، حساب کرنے کے لیے ایک علیم و خیبر خدا انصاف کی کُرسی پر متمکن ہو ، اور اعمال کا پورا بدلہ پانے کے لیے انسان کے پاس غیر محدود زندگی اور اس کے گرد و پیش جزا و سزا کے غیر محدود امکانات موجود ہوں ۔ پھر اسی پہلو پر غور کرنے سے اہل تناسُخ کی ایک اور بنیادی غلطی کا ازالہ بھی ہو سکتا ہے جس میں مبتلا ہو انہوں نے آواگون کو چکر تجویز کیا ہے ۔ وہ اس حقیقت کو نہیں سمجھے کہ صرف ایک ہی مختصر سی پچاس سالہ زندگی کے کارنامے کا پھل پانے کے لیے اس سے ہزاروں گنی زیادہ طویل زندگی درکار ہے ، کجا کہ اس پچاس سالہ زندگی کے ختم ہوتے ہی ہماری ایک دوسری اور پھر تیسری ذمہ دارانہ زندگی اِسی دنیا میں شروع ہو جائے اور ان زندگیوں میں بھی ہم مزید ایسے کام کرتے چلے جائیں جن کا اچھا یا بُرا پھل ہمیں ملنا ضروری ہو ۔ اس طرح تو حساب بے باق ہونے کے بجائے اور زیادہ بڑھتا ہی چلا جائے گا اور اس کے بے باق ہونے کی نوبت کبھی آہی نہ سکے گی ۔
کفار کی گردنوں میں طوق اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مشرکوں کو جو اللہ پر افتراء باندھتے تھے ، اس کی آیتوں کو جھٹلاتے تھے ، فرمائے گا کہ تم بھی اپنے جیسوں کے ساتھ جو تم سے پہلے گذر چکے ہیں خواہ وہ جنات میں سے ہوں خواہ انسانوں میں سے جہنم میں جاؤ ۔ ( فی النار یاتو فی امم ) کا بدل ہے یا ( فی امم ) میں ( فی ) معنی میں ( مع ) کے ہے ۔ ہر گروہ اپنے ساتھ کے اپنے جیسے گروہ پر لعنت کرے گا جیسے کہ خلیل اللہ علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تم ایک دوسرے سے اس روز کفر کرو گے اور آیت میں ہے ( اذ تبرا ) یعنی وہ ایسا برا وقت ہو گا کہ گرو اپنے چیلوں سے دست بردار ہو جائیں گے ، عذابوں کو دیکھتے ہی آپس کے سارے تعلقات ٹوٹ جائیں گے ۔ مرید لوگ اس وقت کہیں گے کہ اگر ہمیں بھی یہاں سے پھر واپس دنیا میں جانا مل جائے تو جیسے یہ لوگ آج ہم سے بیزار ہو گئے ہیں ہم بھی ان سے بالکل ہی دست بردار ہو جائیں گے اللہ تعالیٰ اسی طرح ان کے کرتوت ان کے سامنے لائے گا جو ان کیلئے سر تا سر موجب حسرت ہوں گے اور یہ دوزخ سے کبھی آزاد نہ ہوں گے ۔ یہاں فرماتا ہے کہ جب یہ سارے کے سارے جہنم میں جا چکیں گے تو پچھلے یعنی تابعدار مرید اور تقلید کرنے والے اگلوں سے یعنی جن کی وہ مانتے رہے ان کی بابت اللہ تعالیٰ سے فریاد کریں گے اس سے ظاہر ہے کہ یہ گمراہ کرنے والے ان سے پہلے ہی جہنم میں موجود ہوں کیونکہ ان کا گناہ بھی بڑھا ہوا تھا کہیں گے کہ یا اللہ انہیں دگنا عذاب کر چنانچہ اور آیت میں ہے ( يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُوْلُوْنَ يٰلَيْتَنَآ اَطَعْنَا اللّٰهَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَ66 ) 33- الأحزاب ) جبکہ ان کے چہرے آتش جہنم میں ادھر سے ادھر جھلسے جاتے ہوں گے ۔ اس وقت حسرت و افسوس کرتے ہوئے کہیں گے کہ کاش کہ ہم اللہ رسول کے مطیع ہوتے ۔ یا اللہ ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی تابعداری کی جنہوں نے ہمیں گمراہ کر دیا ۔ یا اللہ انہیں دگنا عذاب کر ۔ انہیں جواب ملا کہ ہر ایک کیلئے دگنا ہے ۔ یعنی ہر ایک کو اس کی برائیوں کا پورا پورا بدلہ مل چکا ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اَلَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ زِدْنٰهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوْا يُفْسِدُوْن88 ) 16- النحل ) جنہوں نے کفر کیا اور راہ رب سے روکا ان کا ہم عذاب اور زیادہ کریں گے اور آیت میں ہے آیت ( وَلَيَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَهُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ ۡ وَلَيُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عَمَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ13 ) 29- العنكبوت ) یعنی اپنے بوجھ کے ساتھ ان کے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور آیت میں ہے ان کے بوجھ ان پر لادے جائیں گے جن کو انہوں نے بےعلمی سے گمراہ کیا ۔ اب وہ جن کی مانی جاتی رہی اپنے ماننے والوں سے کہیں گے کہ جیسے ہم گمراہ تھے تم بھی گمراہ ہوئے اب اپنے کرتوت کا بدلہ اٹھاؤ اور آیت میں ہے ولو تری اذالظالمون موقوفون عندربھم کاش کہ تو دیکھتا جب کہ یہ گنہگار اللہ کے سامنے کھڑے ہوئے ہوں گے ایک دوسرے پر الزام رکھ رہے ہوں گے ۔ ضعیف لوگ متکبروں سے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن بن جاتے ۔ وہ جواب دیں گے کہ کیا ہم نے تمہیں ہدایت سے روکا تھا ؟ وہ تو تمہارے سامنے کھلی ہوئی موجود تھی بات یہ ہے کہ تم خود ہی گنہگار بد کردار تھے ۔ یہ پھر کہیں گے کہ نہیں نہیں تمہاری دن رات کی چالاکیوں نے اور تمہاری اس تعلیم نے ( کہ ہم اللہ کے ساتھ کفر کریں اور اس کے شریک ٹھہرائیں ) ہمیں گم کردہ راہ بنا دیا ۔ بات یہ ہے کہ سب کے سب اس وقت سخت نادم ہوں گے لیکن ندامت کو دبانے کی کوشش میں ہوں گے ۔ کفار کی گردنوں میں طوق پڑے ہوں گے اور انہیں ان کے اعمال کا بدلہ ضرور دیا جائے گا نہ کم نہ زیادہ ( پورا پورا )