Surah

Information

Surah # 15 | Verses: 99 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 54 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 87, from Madina
وَ قَالُوۡا يٰۤاَيُّهَا الَّذِىۡ نُزِّلَ عَلَيۡهِ الذِّكۡرُ اِنَّكَ لَمَجۡنُوۡنٌؕ‏ ﴿6﴾
انہوں نے کہا اے وہ شخص جس پر قرآن اتارا گیا ہے یقیناً تو تو کوئی دیوانہ ہے ۔
و قالوا يايها الذي نزل عليه الذكر انك لمجنون
And they say,"O you upon whom the message has been sent down, indeed you are mad.
Enhon ney kaha aey woh shaks jiss per quran utara gaya hai yaqeenan tu to koi deewana hai.
اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ : اے وہ شخص جس پر یہ ذکر ( یعنی قرآن ) اتارا گیا ہے ! تم یقینی طور پر مجنون ہو ۔
اور بولے ( ف۸ ) کہ اے وہ جن پر قرآن اترا بیشک مجنون ہو ( ف۹ )
یہ لوگ کہتے ہیں اے وہ شخص جس پر ذکر3 نازل ہوا ہے ، 4 تو یقینا دیوانہ ہے ۔
اور ( کفار گستاخی کرتے ہوئے ) کہتے ہیں: اے وہ شخص جس پر قرآن اتارا گیا ہے! بیشک تم دیوانے ہو
سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :3 ”ذکر“ کا لفظ قرآن میں اصطلاحا کلام الہٰی کے لیے استعمال ہوا ہے جو سراسر نصیحت بن کے آتا ہے ۔ پہلے جتنی کتابیں انبیاء علیہم السلام پر نازل ہوئی تھیں وہ سب بھی”ذکر“ تھیں اور یہ قرآن بھی ”ذکر“ ہے ۔ ذکر کے اصل معنی ہیں”یاد دلانا“ ” ہوشار کرنا “ اور ” نصیحت کرنا “ ۔ سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :4 یہ فقرہ وہ لوگ طنز کے طور پر کہتے تھے ۔ ان کو تو یہ تسلیم ہی نہیں تھا کہ یہ ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے ۔ نہ اسے تسلیم کر لینے کے بعد وہ آپ کو دیوانہ کہہ سکتے تھے ۔ دراصل ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ” اے وہ شخص جس کا دعوی یہ ہے کہ مجھ پر یہ ذکر نازل ہوا ہے“ ۔ یہ اسی طرح کی بات ہے جیسی فرعون نے حضرت موسی علیہ السلام کی دعوت سننے کے بعد اپنے درباریوں سے کہی تھی کہ اِنَّ رَسُوْلَکُمُ الَّذِیْٓ اُرْسِلَ اِلَیْکُمْ لَمَجْنُوْنٌ ، ” یہ پیغمبر صاحب جو تم لوگوں کی طرف بھیجے گئے ہیں ، ان کا دماغ درست نہیں ہے“ ۔
سرکش و متکبر ہلاک ہوں گے کافروں کا کفر ، ان کی سرکشی تکبر اور ضد کا بیان ہو رہا ہے کہ وہ بطور مذاق اور ہنسی کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ اے وہ شخص جو اس بات کا مدعی ہے کہ تجھ پر قرآن اللہ کا کلام اتر رہا ہے ہم تو دیکھتے ہیں کہ تو سراسر پاگل ہے کہ اپنی تابعداری کی طرف ہمیں بلا رہا ہے اور ہم سے کہہ رہا ہے کہ ہم اپنے باپ دادوں کے دین کو چھوڑ دیں ۔ اگر سچا ہے تو تو ہمارے پاس فرشتوں کو کیوں نہیں لاتا جو تیری سچائی ہم سے بیان کریں ۔ فرعون نے بھی ہی کہا تھا کہ آیت ( فَلَوْلَآ اُلْقِيَ عَلَيْهِ اَسْوِرَةٌ مِّنْ ذَهَبٍ اَوْ جَاۗءَ مَعَهُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ مُقْتَرِنِيْنَ 53؀ ) 43- الزخرف:53 ) اس پر سونے کے کنگن کیوں نہیں ڈالے گئے ؟ اس کے ساتھ مل کر فرشتے کیوں نہیں آئے ؟ رب کی ملاقات کے منکروں نے آواز اٹھائی کہ ہم پر فرشتے کیوں نازل نہیں کئے جاتے ؟ یا یہی ہوتا کہ ہم خود اپنے پروردگار کو دیکھ لیتے دراصل یہ گھمنڈ میں آ گئے اور بہت ہی سرکش ہو گئے ۔ فرشتوں کو دیکھ لینے کا دن جب آ جائے گا اس دن ان گنہگاروں کو کوئی خوشی نہ ہو گی یہاں بھی فرمان ہے کہ ہم فرشتوں کو حق کے ساتھ ہی اتارتے ہیں یعنی رسالت یا عذاب کے ساتھ اس وقت پھر کافروں کو مہلت نہیں ملے گی ۔ اس ذکر یعنی قرآن کو ہم نے ہی اتارا ہے اور اس کی حفاظت کے ذمے دار بھی ہم ہی ہیں ، ہمیشہ تغیر و تبدل سے بچا رہے گا ۔ بعض کہتے ہیں کہ لہ کی ضمیر کا مرجع نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں یعنی قرآن اللہ ہی کا نازل کیا ہوا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حافظ وہی ہے جیسے فرمان ہے آیت ( وَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ 67؀ ) 5- المآئدہ:67 ) تجھے لوگوں کی ایذاء رسانی سے اللہ محفوظ رکھے گا ۔ لیکن پہلا معنی اولی ہے اور عبارت کی ظاہر روانی بھی اسی کو ترجیح دیتی ہے ۔