Surah

Information

Surah # 15 | Verses: 99 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 54 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 87, from Madina
اِلَّا مَنِ اسۡتَرَقَ السَّمۡعَ فَاَ تۡبَعَهٗ شِهَابٌ مُّبِيۡنٌ‏ ﴿18﴾
ہاں مگر جو چوری چھپے سننے کی کوشش کرے اس کے پیچھے دھکتا ہوا ( کھلا شعلہ ) لگتا ہے ۔
الا من استرق السمع فاتبعه شهاب مبين
Except one who steals a hearing and is pursued by a clear burning flame.
Haan magar jo chori chuppay sunnay ki kosish keray uss kay peechay dehakta hua ( khulla shola ) lagta hai.
البتہ جو کوئی چوری سے کچھ سننے کی کوشش کرے تو ایک روشن شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے ۔ ( ٨ )
مگر جو چوری چھپے سننے جائے تو اس کے پیچھے پڑتا ہے روشن شعلہ ( ف۲۲ )
الا یہ کہ کچھ سن گن لے لے ۔ 11 اور جب وہ سن گن لینے کی کوشش کرتا ہے تو ایک شعلہ روشن اس کا پیچھا کرتا ہے 12 ۔
مگر جو کوئی بھی چوری چھپے سننے کے لئے آگھسا تو اس کے پیچھے ایک ( جلتا ) چمکتا شہاب ہو جاتا ہے
سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :11 یعنی وہ شیاطین جو اپنے اولیاء کو غیب کی خبریں لا کر دینے کی کوشش کرتے ہیں ، جن کی مدد سے بہت سے کاہن ، جوگی ، عامل اور فقیر نما بہروپیے غیب دانی کا ڈھونگ رچایا کرتے ہیں ، ان کے پاس حقیقت میں غیب دانی کے ذرائع بالکل نہیں ہیں ۔ وہ کچھ سن گن لینے کی کوشش ضرور کرتے ہیں ، کیونکہ ان کی ساخت انسانوں کی بہ نسبت فرشتوں کی ساخت سے کچھ قریب تر ہے ، لیکن فی الواقع ان کے پلے کچھ پڑتا نہیں ہے ۔ سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :12 ”شہاب مبین“ کے لغوی معنی ”شعلہ روشن“ کے ہیں ۔ دوسری جگہ قرآن مجید میں اس کے لیے ”شہاب ثاقب“ کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ یعنی” تاریکی کو چھیدنے والا شعلہ“ ۔ اس سے مراد ضروری نہیں کہ وہ ٹوٹنے والا تارا ہی ہو جسے ہماری زبان میں اصطلاحا شہاب ثاقب کہا جاتا ہے ۔ ممکن ہے کہ یہ اور کسی قسم کی شعاعیں ہوں ، مثلا کائناتی شعاعیں یا ان سے بھی شدید کوئی اور قسم جو ابھی ہمارے علم میں نہ آئی ہو ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہی شہاب ثاقب مراد ہوں جنہیں کبھی کبھی ہماری آنکھیں زمین کی طرف گرتے ہوئے دیکھتی ہیں ۔ زمانہ حال کے مشاہدات سے یہ معلوم ہوا ہے کہ دوربین سے دکھائی دینے والے شہاب ثاقب جو فضائے بسیط سے زمین کی طرف آتے نظر آتے ہیں ، ان کی تعداد کا اوسط ۱۰ کھرب روزانہ ہے ، جن میں سے دو کروڑ کے قریب ہر روز زمین کے بالائی خطے میں داخل ہوتی ہیں اور بمشکل ایک زمین کی سطح تک پہنچتا ہے ۔ ان کی رفتار بالائی فضا میں کم و بیش ۲٦ میل فی سیکنڈ ہوتی ہے اور بسا اوقات ۵۰ میل فی سیکنڈ تک دیکھی گئی ہے ۔ بارہا ایسا بھی ہوا ہے کہ برہنہ آنکھوں نے بھی ٹوٹنے والے تاروں کی غیر معمولی بارش دیکھی ہے ۔ چنانچہ یہ چیز ریکارڈ پر موجود ہے کہ ۱۳ نومبر ۱۸۳۳ء کو شمالی امریکہ کے مشرقی علاقے میں صرف ایک مقام پر نصف شب سے لے کر صبح تک ۲ لاکھ شہاب ثاقب گرتے ہوئے دیکھے گئے ( انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا ۔ ۱۹٤٦ء ۔ جلد ۱۵ ۔ ص ۳۹ – ۳۳۷ ) ۔ ہو سکتا ہے کہ یہی بارش عالم بالا کی طرف شیاطین کی پرواز میں مانع ہوتی ہو ، کیونکہ زمین کے بالائی حدود سے گزر کر فضائے بسیط میں ۱۰ کھرب روزانہ کے اوسط سے ٹوٹنے والے تاروں کی برسات ان کے لیے اس فضا کو بالکل ناقابل عبور بنا دیتی ہوگی ۔ اس سے کچھ ان”محفوظ قلعوں“ کی نوعیت کا اندازہ بھی ہو سکتا ہے جن کا ذکر اوپر ہوا ہے ۔ بظاہر فضا بالکل صاف شفاف ہے جس میں کہیں کوئی دیوار یا چھت بنی نظر نہیں آتی ، لیکن اللہ تعالیٰ نے اسی فضا میں مختلف خطوں کو کچھ ایسی غیر مرئی فصیلوں سے گھیر رکھا ہے جو ایک خطے کو دوسرے خطوں کی آفات سے محفوظ رکھتی ہیں ۔ یہ انہی فصیلوں کی برکت ہے کہ جو شہاب ثاقب دس کھرب روزانہ کے اوسط سے زمین کی طرف گرتے ہیں وہ سب جل کر بھسم ہو جاتے اور بمشکل ایک زمین کی سطح تک پہنچ سکتا ہے ۔ دنیا میں شہابی پتھروں ( Meteorites ) کے جو نمونے پائے جاتے ہیں اور دنیا کے عجائب خانوں میں موجود ہیں ان میں سب سے بڑا ٦٤۵ پونڈ کا ایک پتھر ہے جو گر کر ۱۱ فیٹ زمین میں دھنس گیا تھا ۔ اس کے علاوہ ایک مقام پر ۳٦-۱/۲ ٹن کا ایک آہنی تودہ بھی پایا گیا ہے جس کے وہاں موجود ہونے کی کوئی توجیہ سائنس داں اس کے سوا نہیں کر سکے ہیں کہ یہ بھی آسمان سے گرا ہوا ہے ۔ قیاس کیجیے کہ اگر زمین کی بالائی سرحدوں کی مضبوط حصاروں سے محفوظ نہ کر دیا گیا ہوتا تو ان ٹوٹنے والے تاروں کی بارش زمین کا کیا حال کر دیتی ۔ یہی حصار ہیں جن کو قرآن مجید نے”بروج“ ( محفوظ قلعوں ) کے لفظ سے تعبیر کیا ہے ۔