Surah

Information

Surah # 15 | Verses: 99 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 54 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 87, from Madina
وَاِنۡ مِّنۡ شَىۡءٍ اِلَّا عِنۡدَنَا خَزَآٮِٕنُهٗ وَمَا نُنَزِّلُهٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعۡلُوۡمٍ‏ ﴿21﴾
اور جتنی بھی چیزیں ہیں ان سب کے خزانے ہمارے پاس ہیں ، اور ہم ہرچیز کو اس کے مقررہ انداز سے اتارتے ہیں ۔
و ان من شيء الا عندنا خزاىنه و ما ننزله الا بقدر معلوم
And there is not a thing but that with Us are its depositories, and We do not send it down except according to a known measure.
Aur jitni bhi cheezen hain unn sab kay khazaney humaray pass hain aur hum her cheez ko uss kay muqarrar andaz say utartay hain.
اور کوئی ( ضرورت کی ) چیز ایسی نہیں ہے جس کے ہمارے پاس خزانے موجود نہ ہوں ، مگر ہم اس کو ایک معین مقدار میں اتارتے ہیں ۔
اور کوئی چیز نہیں جس کے ہمارے پاس خزانے نہ ہوں ( ف۲٦ ) اور ہم اسے نہیں اتارتے مگر ایک معلوم انداز سے ،
کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں ، اور جس چیز کو بھی ہم نازل کرتے ہیں ایک مقرر مقدار میں نازل کرتے ہیں ۔ 14
اور ( کائنات ) کی کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے مگر یہ کہ ہمارے پاس اس کے خزانے ہیں اور ہم اسے صرف معیّن مقدار کے مطابق ہی اتارتے رہتے ہیں
سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :14 یہاں اس حقیقت پر متنبہ فرمایا کہ یہ معاملہ صرف نباتات ہی کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ تمام موجودات کے معاملہ میں عام ہے ۔ ہوا ، پانی ، روشنی ، گرمی ، سردی ، جمادات ، نباتات ، حیوانات ، غرض ہر چیز ، ہر نوع ، ہر جنس ، اور ہر قوت و طاقت کے لیے ایک حد مقرر ہے جس پر وہ ٹھیری ہوئی ہے اور ایک مقدار ہے جس سے نہ وہ گھٹتی ہے نہ بڑھتی ہے ۔ اسی تقدیر اور کمال درجہ کی حکیمانہ تقدیر ہی کا یہ کرشمہ ہے کہ زمین سے لے کر آسمانوں تک پورے نظام کائنات میں یہ توازن ، یہ اعتدال ، اور یہ تناسب نظر آرہا ہے ۔ اگر یہ کائنات کا ایک اتفاقی حادثہ ہوتی ، یا بہت سے خداؤں کی کاریگری و کارفرمائی کا نتیجہ ہوتی تو کس طرح ممکن تھا کہ بے شمار مختلف اشیاء اور قوتوں کے درمیان ایسا مکمل توازن و تناسب قائم ہوتا اور مسلسل قائم رہ سکتا ؟
اللہ تعالیٰ کے خزانے تمام چیزوں کا تنہا مالک اللہ تعالیٰ ہے ۔ ہر کام اس پر آسان ہے ۔ ہر قسم کی چیزوں کے خزانے اس کے پاس موجود ہیں ۔ جتنا ، جب اور جہاں چاہتا ہے ، نازل فرماتا ہے ۔ اپنی حکمتوں کا عالم وہی ہے ۔ بندوں کی مصلحتوں سے بھی واقف ہے ۔ یہ محض اس کی مہربانی ہے ورنہ کون ہے جو اس پر جبر کر سکے ۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ہر سال بارش برابر ہی برستی ہے ۔ ہاں تقسم اللہ کے ہاتھ ہے ، پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ حکم بن عینیہ سے بھی یہی قول مروی ہے ، کہتے ہیں کہ بارش کے ساتھ اس قدر فرشتے اترتے ہیں ، جن کی گنتی کل انسانوں اور جنات سے زیادہ ہوتی ہے ، ایک ایک قطرے کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ کہاں برسا اور اس سے کیا اگا ۔ بزار میں ہے کہ اللہ کے پاس کے خزانے کیا ہیں ؟ صرف کلام ہے جب کہا ہو جا ہو گیا ۔ اس کا ایک روای قوی نہیں ۔ ہوا چلا کر ہم بادلوں کو پانی سے بوجھل کر دیتے ہیں ، اس میں پانی برسنے لگتا ہے ۔ یہی ہوائیں چل کر درختوں کو بار دار کر دیتی ہیں کہ پتے اور کونپلیں پھوٹنے لگتی ہیں ، اس وصف کو بھی خیال میں رکھئے کہ یہاں جمع کا صیغہ لائے ہیں اور ریح عقیمہ میں وصف وحدت کے ساتھ کیا ہے تاکہ کثرت سے نتیجہ بر آمد ہو ۔ بارداری کم از کم دو چیزوں کے بغیر ناممکن ہے ۔ ہوا چلتی ہے وہ آسمان سے پانی اٹھاتی ہے اور بادلوں کو پر کر دیتی ہے ۔ ایک ہوا ہوتی ہے جو زمین میں پیداوار کی قوت پیدا کرتی ہے ، ایک ہوا ہوتی ہے جو بادلوں کو ادھر ادھر سے اٹھاتی ہے ، ایک ہوا ہوتی ہے جو انہیں جمع کر کے تہ بہ تہ کر دیتی ہے ، ایک ہوا ہوتی ہے جو انہیں پانی سے بوجھل کر دیتی ہے ، ایک ہوا ہوتی ہے جو درختوں کو پھل دار ہونے کے قابل کر دیتی ہے ۔ ابن جریر میں بہ سند ضعیف ایک حدیث مروی ہے کہ جنوبی ہوا جنتی ہے اس میں لوگوں کے منافع ہیں اور اسی کا ذکر کتاب اللہ میں ہے ۔ مسند حمیدی کی حدیث کی حدیث میں ہے کہ ہواؤں کے سات سال بعد اللہ تعالیٰ نے جنت میں ایک ہوا پیدا کی ہے جو ایک دروازے سے رکی ہوئی ہے ۔ اسی بند دروازے سے تمہیں ہوا پہنچتی رہتی ہے ، اگر وہ کھل جائے تو زمین و آسمان کی تمام چیزیں ہوا سے الٹ پلٹ ہو جائیں ۔ اللہ کے ہاں اس کا نام اذیب ہے ، تم اسے جنوبی ہوا کہتے ہو ، پھر فرماتا ہے کہ اس کے بعد ہم تم پر میٹھا پانی برساتے ہیں کہ تم پیو اور کام میں لاؤ ۔ اگر ہم چاہیں تو اسے کڑوا اور کھاری کر دیں ۔ جیسے سورہ واقعہ میں فرمان ہے کہ جس میٹھے پانی کو تم پیا کرتے ہو اسے بادل سے برسانے والے بھی کیا تم ہی ہو ؟ یا ہم ہیں ؟ اگر ہم چاہیں تو اسے کڑوا کر دیں تعجب ہے کہ تم ہماری شکر گزاری نہیں کرتے ؟ اور آیت میں ہے اسی اللہ نے تمہارے لئے آسمان سے پانی اتارا ہے ۔ الخ ۔ تم اس کے خازن یعنی مانع اور حافظ نہیں ہو ۔ ہم ہی برساتے ہیں ہم ہی جہاں چاہتے ہیں ، پہنچاتے ہیں ، جہاں چاہتے ہیں ، محفوظ کر دیتے ہیں ۔ اگر ہم چاہیں زمین میں دھنسا دیں ۔ یہ صرف ہماری رحمت ہے کہ اسے برسایا ، بچایا ، میٹھا کیا ، ستھرا کیا تاکہ تم پیو ، اپنے جانوروں کو پلاؤ ۔ اپنی کھیتیاں اور باغات بساؤ ، ؟ اپنی ضرورتیں پوری کرو ۔ ہم مخلوق کی ابتدا اور پھر اس کے اعادہ پر قادر ہیں ۔ سب کو عدم سے وجود میں لائے ۔ سب کو پھر معدوم ہم کریں گے ۔ پھر قیامت کے دن سب کو اٹھا بٹھائیں گے ۔ زمین کے اور زمین والوں کے وارث ہم ہی ہیں ۔ سب کے سب ہماری طرف لوٹائے جائیں گے ۔ ہمارے علم کی کوئی انتہا نہیں ۔ اول آخر سب ہمارے علم میں ہے ۔ پس آگے والوں سے مراد تو اس زمانے سے پہلے کے لوگ ہیں حضرت آدم علیہ السلام تک کے ۔ اور پچھلوں سے مراد اس زمانے کے اور آئندہ زمانے کے لوگ ہیں ۔ مروان بن حکم سے مروی ہے کہ بعض لوگ بوجہ عورتوں کے پچھلی صفوں میں رہا کرتے تھے پس یہ آیت اتری ۔ اس بارے میں ایک بہت ہی غریب حدیث بھی وارد ہوئی ہے ابن جریر میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک بہت ہی خوش شکل عورت نماز میں آیا کرتی تھی تو بعض مسلمان اس خیال سے کہ اس پر نگاہ نہ پڑے ۔ آگے بڑھ جاتے تھے اور بعض ان کے خلاف اور پیچھے ہٹ آتے تھے اور سجدے کی حالت میں اپنے ہاتھوں تلے سے دیکھتے تھے پس یہ آیت اتری لیکن اس روایت میں سخت نکارت ہے ۔ عبدالرزاق میں ابو الجواز کا قول اس آیت کے بارے میں مروی ہے کہ نماز کی صفوں میں آگے بڑھنے والے اور پیچھے ہٹنے والے ۔ یہ صرف ان کا قول ہے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اس میں ذکر نہیں ۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں یہی مشابہ ہے واللہ اعلم ۔ محمد بن کعب کے سامنے عون بن عبداللہ جب یہ کہتے ہیں تو آپ فرماتے ہیں یہ مطلب نہیں بلکہ اگلوں سے مراد وہ ہیں جو مر چکے اور پچھلوں سے مراد اب پیدا شدہ اور پیدا ہونے والے ہیں ۔ تیرا رب سب کو جمع کرے گا وہ حکمت و علم والا ہے ۔ یہ سن کر حضرت عون رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اللہ آپ کو توفیق اور جزائے خیر دے ۔