Surah

Information

Surah # 15 | Verses: 99 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 54 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 87, from Madina
وَلَـقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ‌ۚ‏ ﴿26﴾
یقیناً ہم نے انسان کو کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا فرمایا ہے ۔
و لقد خلقنا الانسان من صلصال من حما مسنون
And We did certainly create man out of clay from an altered black mud.
Yaqeenan hum ney insan ko kali aur sarhi hui khankhanati mitti say peda farmaya hai.
ہم نے انسان کو سڑے ہوئے گارے کی کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا ۔ ( ١٢ )
اور بیشک ہم نے آدمی کو ( ف۳۲ ) بجتی ہوئی مٹی سے بنایا جو اصل میں ایک سیاہ بودار گارا تھی ، ( ف۳۳ )
ہم نے انسان کو سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے بنایا ۔ 17
اور بیشک ہم نے انسان کی ( کیمیائی ) تخلیق ایسے خشک بجنے والے گارے سے کی جو ( پہلے ) سِن رسیدہ ( اور دھوپ اور دیگر طبیعیاتی اور کیمیائی اثرات کے باعث تغیر پذیر ہو کر ) سیاہ بو دار ہو چکا تھا
سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :17 یہاں قرآن اس امر کی صاف تصریح کرتا ہے کہ انسان حیوانی منازل سے ترقی کرتا ہوا بشریت کے حدود میں نہیں آیا ہے ، جیسا کہ نئے دور کے ڈارونییت سے متاثر مفسرین قرآن ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، بلکہ اس کی تخلیق کی ابتداء براہ راست ارضی مادوں سے ہوئی ہے کی کیفیت کو اللہ تعالیٰ نے صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَأِ ٍ مَّسْنُوْنٍ کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے ۔ حَمأ عربی زبان میں ایسی سیاہ کیچڑ کو کہتے ہیں جس کے اندر بُو پیدا ہو چکی ہو ، یا بالفاظ دیگر خمیر اٹھ آیا ہو ۔ مسنون کے دو معنی ہیں ۔ ایک معنی ہیں متغیر ، منتن اور املس ، یعنی ایسی سڑی ہوئی جس میں سڑنے کی وجہ سے چکنائی پیدا ہو گئی ہو ۔ دوسرے معنی میں مصوَّر اور مصبوب ، یعنی قالب میں ڈھلی ہوئی جس کو ایک خاص صورت دے دی گئی ہو ۔ صلصال اس سوکھے گارے کو کہتے ہیں جو خشک ہو جانے کے بعد بجنے لگے ۔ یہ الفاظ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ خمیر اٹھی ہوئی مٹی کا ایک پتلا بنایا گیا تھا جو بننے کے بعد خشک ہوا اور پھر اس کے اندر روح پھونکی گئی ۔
خشک مٹی صلصال سے مراد خشک مٹی ہے ۔ اسی جیسی آیت ( خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ 14۝ۙ ) 55- الرحمن:14 ) ہے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ بو دار مٹی کو حما کہتے ہیں ۔ چکنی مٹی کو مسنون کہتے ہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں تر مٹی ۔ اوروں سے مروی ہے بو دار مٹی اور گندھی ہوئی مٹی ۔ انسان سے پہلے ہم نے جنات کو جلا دینے والی آگ سے بنایا ہے ۔ سموم کہتے ہیں آگ کی گرمی کو اور حرور کہتے ہیں دن کی گرمی کو ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس گرمی کی لوئیں اس گرمی کا سترہواں حصہ ہیں ۔ جس سے جن پیدا کئے گئے ہیں ۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ جن آگ کے شعلے سے بنائے گئے ہیں یعنی آگ سے بہت بہتر ۔ عمرو کہتے ہیں سورج کی آگ سے ۔ صحیح میں وارد ہے کہ فرشتے نور سے پیدا کئے گئے اور جن شعلے والی آگ سے اور آدم علیہ السلام اس سے جو تمہارے سامنے بیان کر دیا گیا ہے ۔ اس آیت سے مراد حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت و شرافت اور ان کے عنصر کی پاکیزگی اور طہارت کا بیان ہے ۔