Surah

Information

Surah # 15 | Verses: 99 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 54 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 87, from Madina
فَاِذَا سَوَّيۡتُهٗ وَنَفَخۡتُ فِيۡهِ مِنۡ رُّوۡحِىۡ فَقَعُوۡا لَهٗ سٰجِدِيۡنَ‏ ﴿29﴾
تو جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے لئے سجدے میں گر پڑنا ۔
فاذا سويته و نفخت فيه من روحي فقعوا له سجدين
And when I have proportioned him and breathed into him of My [created] soul, then fall down to him in prostration."
To jab mein ussay poora bana chukon aur iss mein apni rooh phoonk doon to tum sab iss kay liye sajday mein girr parna.
لہذا جب میں اس کو پوری طرح بنا لوں ، اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا ۔
تو جب میں اسے ٹھیک کرلوں اور اور میں اپنی طرف کی خاص معزز روح پھونک دوں ( ف۳۵ ) تو اس ( ف۳٦ ) کے لیے سجدے میں گر پڑنا ،
جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں 19 تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا ۔
پھر جب میں اس کی ( ظاہری ) تشکیل کو کامل طور پر درست حالت میں لا چکوں اور اس پیکرِ ( بشری کے باطن ) میں اپنی ( نورانی ) روح پھونک دوں تو تم اس کے لئے سجدہ میں گر پڑنا
سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :19 اس سے معلوم ہوا کہ انسان کے اندر جو روح پھونکی گئی ہے وہ دراصل صفات الہٰی کا ایک عکس یا پرتَو ہے ۔ حیات ، علم ، قدرت ، ارادہ ، اختیار اور دوسری جتنی صفات انسان میں پائی جاتی ہیں ، جن کے مجموعہ کا نام روح ہے ، یہ دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی صفات کا ایک ہلکا سا پرتو ہے جو اس کا لبد خاکی پر ڈالا گیا ہے ، اور اسی پرتَو کی وجہ سے انسان زمین پر خدا کا خلیفہ اور ملائکہ سمیت تمام موجودات ارضی کا مسجود قرار پایا ہے ۔ یوں تو ہر صفت جو مخلوقات میں پائی جاتی ہے ، اس کا مصدر و منبع اللہ تعالیٰ ہی کی کوئی نہ کوئی صفت ہے ۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ جَعَلَ اللہْ الرَّحْمَۃَ مِأَ ۃَ جُزْءٍ فَاَمْسَکَ عِنْدَہ تِسْعَۃً وَّ تِسْعِیْنَ وَاَنْزَلَ فِی الْاَرْضِ جُزْ ءً ا وَّ احِدًا فَمِنْ ذٰلِکَ الْجُزْ ءِ یَتَرَ ا حَمُ الْخَلَا ئِقُ حَتّٰی تَرْفَعُ الدَّآ بَّۃُ حَا فِرَ ھَا عَنْ وَّلَدِھَا خَشْیَۃِ اَنْ تُصِیْبَہ ( بخاری و مسلم ) ۔ ” اللہ تعالیٰ نے رحمت کو سو حصوں میں تقسیم فرمایا ، پھر ان میں سے ۹۹ حصے اپنے پاس رکھے اور صرف ایک حصہ زمین میں اتارا ۔ یہ اسی ایک حصے کی برکت ہے کہ جس کی وجہ سے مخلوقات آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں یہاں تک کہ اگر جانور اپنے بچے پر سے اپنا کھرا اٹھاتا ہے تاکہ اسے ضرر نہ پہنچ جائے ، تو یہ بھی دراصل اسی حصہ رحمت کا اثر ہے“ ۔ مگر جو چیز انسان کی دوسری مخلوقات پر فضیلت دیتی ہے وہ یہ ہے کہ جس جامعیت کے ساتھ اللہ کی صفات کا پرتو اس پر ڈالا گیا ہے اس سے کوئی دوسری مخلوق سرفراز نہیں کی گئی ۔ یہ ایک ایسا باریک مضمون ہے جس کے سمجھنے میں ذرا سی غلطی بھی آدمی کر جائے تو اس غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتا ہے کہ صفات الہٰی میں سے ایک حصہ پانا الوہیت کا کوئی جز پالینے کا ہم معنی ہے ۔ حالانکہ الوہیت اس سے وراء الوراء ہے کہ کوئی مخلوق اس کا ایک ادنیٰ شائبہ بھی پا سکے ۔