سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :24
”اس فقرے کے بھی دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک وہ جو ترجمے میں اختیار کیا گیا ہے ۔ اور دوسرا مطلب یہ کہ میرے بندوں ( یعنی عام انسانوں ) پر تجھے کوئی اقتدار حاصل نہ ہوگا کہ تو انہیں زبردستی نافرمان بنا دے ، البتہ جو خود ہی بہکے ہوئے ہوں اور آپ ہی تیری پیروی کرنا چاہیں انہیں تیری راہ پر جانے کے لیے چھوڑ دیا جائے گا ، انہیں ہم زبردستی اس سے باز رکھنے کی کوشش نہ کریں گے ۔
پہلے معنی کے لحاظ سے مضمون کا خلاصہ یہ ہوگا کہ بندگی کا طریقہ اللہ تک پہنچنے کا سیدھا راستہ ہے ، جو لوگ اس راستے کو اختیار کرلیں گے ان پر شیطان کا بس نہ چلے گا ، انہیں اللہ اپنے لیے خالص فرما لے گا اور شیطان خود بھی اقراری ہے کہ وہ اس کے پھندے میں نہ پھسیں گے ۔ البتہ جو لوگ خود بندگی سے منحرف ہو کر اپنی فلاح و سعادت کی راہ گم کر دیں گے وہ ابلیس کے ہتھے چڑھ جائیں گے اور پھر جدھر جدھر وہ انہیں فریب دے کر لے جانا چاہے گا ، وہ اس کے پیچھے بھٹکتے اور دور سے دور تر نکلتے چلے جائیں گے ۔
دوسرے معنی کے لحاظ سے اس بیان کا خلاصہ یہ ہوگا: شیطان نے انسانوں کو بہکانے کے لیے اپنا طریق کار یہ بیان کیا کہ وہ زمین کی زندگی کو اس کے لیے خوشنما بنا کر انہیں خدا سے غافل اور بندگی کی راہ سے منحرف کرے گا ۔ اللہ تعالی نے اس کی توثیق کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ شرط میں نے مانی ، اور مزید توضیح کرتے ہوئے یہ بات بھی صاف کر دی کہ تجھے صرف فریب دینے کا اختیار دیا جا رہا ہے ، یہ اقتدار نہیں دیا جا رہا کہ تو ہاتھ پکڑ کر انہیں زبردستی اپنی راہ پر کھینچ لے جائے ۔ شیطان نے اپنے نوٹس سے ان بندوں کو مستثنی کیا جنہیں اللہ اپنے لیے خالص فرما لے ۔ اس سے یہ غلط فہمی مترشح ہو رہی تھی کہ شاید اللہ تعالی بغیر کسی معقول وجہ کے یونہی جس کو چاہے گا خالص کر لے گا اور وہ شیطان کی دست رس سے بچ جائے گا ۔ اللہ تعالی نے یہ کہہ کر بات صاف کر دی کہ جو خود بہکا ہوا ہوگا وہی تیری پیروی کرے گا ۔ بالفاظ دیگر جو بہکا ہوا ہوگا وہ تیری پیروی نہ کرے گا اور وہی ہمارا وہ مخصوص بندہ ہوگا جسے ہم خالص اپنا کرلیں گے ۔