Surah

Information

Surah # 15 | Verses: 99 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 54 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 87, from Madina
اِنَّ الۡمُتَّقِيۡنَ فِىۡ جَنّٰتٍ وَّعُيُوۡنٍؕ‏ ﴿45﴾
پرہیزگار جنتی لوگ باغوں اور چشموں میں ہونگے ۔
ان المتقين في جنت و عيون
Indeed, the righteous will be within gardens and springs.
Perhezgaar jannati log baghon aur chashmon mein hongay.
۔ ( دوسری طرف ) متقی لوگ باغات اور چشموں کے درمیان رہیں گے ۔
بیشک ڈر والے باغوں اور چشموں میں ہیں ( ف٤۹ )
بخلاف اس کے متقی لوگ 27 باغوں اور چشموں میں ہوں گے
بیشک متقی لوگ باغوں اور چشموں میں رہیں گے
سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :27 یعنی وہ لوگ جو شیطان کی پیروی سے بچے رہے ہوں اور جنہوں نے اللہ سے ڈرتے ہوئے عبدیت کی زندگی بسر کی ہو ۔
جنت میں کوئی بغض و کینہ نہ رہے گا دوزخیوں کا ذکر کر کے اب جنتیوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ وہ باغات ، نہروں اور چشموں میں ہوں گے ۔ ان کو بشارت سنائی جائے گی کہ اب تم ہر آفت سے بچ گئے ہر ڈر اور گھبراہٹ سے مطمئن ہو گئے نہ نعمتوں کے زوال کا ڈر ، نہ یہاں سے نکالے جانے کا خطرہ نہ فنا نہ کمی ۔ اہل جنت کے دلوں میں گو دنیوں رنجشیں باقی رہ گئی ہوں مگر جنت میں جاتے ہی ایک دوسرے سے مل کر تمام گلے شکوے ختم ہو جائیں گے ۔ حضرت ابو امامہ فرماتے ہیں جنت میں داخل ہونے سے پہلے ہی سینے بےکینہ ہو جائیں گے ۔ چنانچہ مرفوع حدیث میں بھی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مومن جہنم سے نجات پا کر جنت دوزخ کے درمیان کے پل پر روک لئے جائیں گے جو ناچاقیاں اور ظلم آپس میں تھے ، ان کا ادلہ بدلہ ہو جائے گا اور پاک دل صاف سینہ ہو کر جنت میں جائیں گے ۔ اشتر نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آنے کی اجازت مانگی ، اس وقت آپ کے پاس حضرت طلحہ کے صاحبزادے بیٹھے تھے تو آپ نے کچھ دیر کے بعد اسے اندر بلایا اس نے کہا کہ شاید ان کی وجہ سے مجھے آپ نے دیر سے اجازت دی ؟ آپ نے فرمایا سچ ہے ۔ کہا پھر تو اگر آپ کے پاس حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان لوگوں میں سے ہوں گے ، جن کی شان میں یہ ہے کہ ان کے دلوں میں جو کچھ خفگی تھی ہم نے دور کر دی ، بھائی بھائی ہو کر آمنے سامنے تخت شاہی پر جلوہ فرما ہیں ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ عمران بن طلحہ اصحاب جمل سے فارغ ہو کر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے آپ نے انہیں مرحبا کہا اور فرمایا کہ میں امید رکھتا ہوں کہ میں اور تمہارے والد ان میں سے ہیں جن کے دلوں کے غصے اللہ دور کر کے بھائی بھائی بنا کر جنت کے تختوں پر آمنے سامنے بٹھائے گا ، ایک اور روایت میں ہے کہ یہ سن کر فرش کے کونے پر بیٹھے ہوئے دو شخصوں نے کہا ، اللہ کا عہد اس سے بہت بڑھا ہوا ہے کہ جنہیں آپ قتل کریں ان کے بھائی بن جائیں ؟ آپ نے غصے سے فرمایا اگر اس آیت سے مراد میرے اور طلحہ جیسے لوگ نہیں تو اور کون ہوں گے ؟ اور روایت میں ہے کہ قبیلہ ہمدان کے ایک شخص نے یہ کہا تھا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس دھمکی اور بلند آواز سے یہ جواب دیا تھا کہ محل ہل گیا ۔ اور روایت میں ہے کہ کہنے والے کا نام حارث اعور تھا اور اس کی اس بات پر آپ نے غصے ہو کر جو چیز آپ کی ہاتھ میں تھی وہ اس کے سر پر مار کر یہ فرمایا تھا ۔ این جرموز جو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا قاتل تھا جب دربار علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں آیا تو آپ نے بڑی دیر بعد اسے داخلے کی اجازت دی ۔ اس نے آ کر حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو بلوائی کہہ کر برائی سے یاد کیا تو آپ نے فرمایا تیرے منہ میں مٹی ۔ میں اور طلحہ اور زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو انشاء اللہ ان لوگوں میں ہیں جن کی بابت اللہ کا یہ فرمان ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ قسم کہا کر فرماتے ہیں کہ ہم بدریوں کی بابت یہ آیت نازل ہوئی ہے ۔ کثیر کہتے ہیں میں ابو جعفر محمد بن علی کے پاس گیا اور کہا کہ میرے دوست آپ کے دوست ہیں اور مجھ سے مصالحت رکھنے والے آپ سے مصالحت رکھے والے ہیں ، میرے دشمن آپ کے دشمن ہیں اور مجھ سے لڑائی رکھنے والے آپ سے لڑائی رکھنے والے ہیں ۔ واللہ میں ابو بکر اور عمر سے بری ہوں ۔ اس وقت حضرت ابو جعفر نے فرمایا اگر میں ایسا کروں تو یقینا مجھ سے بڑھ کر گمراہ کوئی نہیں ۔ ناممکن کہ میں اس وقت ہدایت پر قائم رہ سکوں ۔ ان دونوں بزرگوں یعنی حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تو اے کثیر محبت رکھ ، اگر اس میں تجھے گناہ ہو تو میری گردن پر ۔ پھر آپ نے اسی آیت کے آخری حصہ کی تلاوت فرمائی ۔ اور فرمایا کہ یہ ان دس شخصوں کے بارے میں ہے ابو بکر ، عمر عثمان ، علی ، طلحہ ، زبیر ، عبد الرحمن بن عوف ، سعد بن الی وقاص ، سعید بن زید اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ یہ آمنے سامنے ہوں گے تاکہ کسی کی طرف کسی کی پیٹھ نہ رہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایک مجمع میں آ کر اسے تلاوت فرما کر فرمایا یہ ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں گے ۔ وہاں انہیں کوئی مشقت ، تکلیف اور ایذاء نہ ہو گی ۔ بخاری و مسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے اللہ کا حکم ہوا ہے کہ میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو جنت کے سونے کے محل کی خوشخبری سنا دوں جس میں نہ شور و غل ہے نہ تکلیف و مصیبت ۔ یہ جنتی جنت سے کبھی نکالے نہ جائیں گے حدیث میں ہے ان سے فرمایا جائے گا کہ اے جنتیو تم ہمیشہ تندرست رہو گے کبہی بیمار نہ پڑو گے اور ہمیشہ زندہ رہو گے کبھی نہ مروگے اور ہمیشہ جوان رہو گے کبھی بوڑھے نہ بنو گے اور ہمیشہ یہیں رہو گے کبھی نکالے نہ جاؤ گے ۔ اور آیت میں ہے وہ تبدیلی مکان کی خواہش ہی نہ کریں گے نہ ان کی جگہ ان سے چھنے گی ۔ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ میرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ میں ارحم الراحمین ہوں ۔ اور میرے عذاب بھی نہایت سخت ہیں ۔ اسی جیسی آیت اور بھی گزر چکی ہے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ مومن کو امید کے ساتھ ڈر بھی رکھنا چاہئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس آتے ہیں اور انہیں ہنستا ہوا دیکھ کر فرماتے ہیں جنت دوزخ کی یاد کرو ، اس وقت یہ آیتیں اتریں ۔ یہ مرسل حدیث ابن ابی حاتم میں ہے ۔ آپ بنو شیبہ کے دروازے سے صحابہ کے پاس آ کر کہتے ہیں میں تو تمہیں ہنستے ہوئے دیکھ رہا ہوں یہ کہہ کر واپس مڑ گئے اور حطیم کے پاس سے ہی الٹے پاؤں پھرے ہمارے پاس آئے اور فرمایا کہ ابھی میں جا ہی رہا تھا ، جو حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا کہ جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ تو میرے بندوں کو نامید کر رہا ہے ؟ انہیں مرے غفور و رحیم ہو نے کی اور میرے عذابوں کے المناک ہونے کی خبر دے دے ۔ اور حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا اگر بندے اللہ تعالیٰ کی معافی کو معلوم کرلیں تو حرام سے بچنا چھوڑ دیں اور اگر اللہ کے عذاب کو معلوم کرلیں تو اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالیں ۔