Surah

Information

Surah # 15 | Verses: 99 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 54 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 87, from Madina
قَالَ هٰٓؤُلَاۤءِ بَنٰتِىۡۤ اِنۡ كُنۡـتُمۡ فٰعِلِيۡنَؕ‏ ﴿71﴾
۔ ( لوط علیہ السلام نے ) کہا اگر تمہیں کرنا ہی ہے تو یہ میری بچیاں موجود ہیں ۔
قال هؤلاء بنتي ان كنتم فعلين
[Lot] said, "These are my daughters - if you would be doers [of lawful marriage]."
( loot alh-e-salam ney ) kaha agar tumhen kerne hi hai to yeh meri bachiyan mojood hain.
لوط نے کہا : اگر تم میرے کہنے پر عمل کرو تو یہ میری بیٹیاں ( جو تمہارے نکاح میں ہیں ، تمہارے پاس ) موجود ہی ہیں ۔ ( ٢٤ )
کہا یہ قوم کی عورتیں میری بیٹیاں ہیں اگر تمہیں کرنا ہے ، ( ف۷۷ )
“ لوط نے عاجز ہو کر کہا ” اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے تو یہ میری بیٹیاں موجود ہیں! 40
لوط ( علیہ السلام ) نے کہا: یہ میری ( قوم کی ) بیٹیاں ہیں اگر تم کچھ کرنا چاہتے ہو ( تو بجائے بدکرداری کے ان سے نکاح کر لو )
سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :40 اس کی تشریح سورہ ہود کے حاشیہ نمبر ۸۷ میں بیان کی جا چکی ہے ۔ یہاں صرف اتنا اشارہ کافی ہے کہ یہ کلمات ایک شریف آدمی کی زبان پر ایسے وقت میں آئے ہیں جب کہ وہ بالکل تنگ آچکا تھا اور بدمعاش لوگ اس کی ساری فریاد فغاں سے بے پروا ہو کر اس کے مہمانوں پر ٹوٹے پڑ رہے تھے ۔ اس موقع پر ایک بات کو صاف کر دینا ضروری ہے ۔ سورہ ہود میں واقعہ جس ترتیب سے بیان کیا گیا ہے اس میں یہ تصریح ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کو بدمعاشوں کے اس حملہ کے وقت تک یہ معلوم نہ تھا کہ ان کے مہمان درحقیقت فرشتے ہیں ۔ وہ اس وقت تک یہی سمجھ رہے تھے کہ یہ چند مسافر لڑکے ہیں جو ان کے ہاں آکر ٹھیرے ہیں ۔ انہوں نے اپنے فرشتہ ہونے کی حقیقت اس وقت کھولی جب بدمعاشوں کا ہجوم مہمانوں کی قیامگاہ پر پل پڑا اور حضرت لوط علیہ السلام نے تڑپ کر فرمایا لَوْ اَنَّ لِیْ بِکُمْ قُوَّۃً اَوْ اٰوِیْٓ اِلیٰ رُکْنٍ شَدِیْدٍ ( کاش مجھے تمہارے مقابلے کی طاقت حاصل ہوتی یا میرا کوئی سہارا ہوتا جس سے میں حمایت حاصل کرتا ) ۔ اس کے بعد فرشتوں نے ان سے کہا کہ اب تم اپنے گھر والوں کو لے کر یہاں سے نکل جاؤ اور ہمیں ان سے نمٹنے کے لیے چھوڑ دو ۔ واقعات کی اس ترتیب کو نگاہ میں رکھنے سے پورا اندازہ ہو سکتا ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام نے یہ الفاظ کس تنگ موقع پر عاجز آکر فرمائے تھے ۔ اس سورے میں چونکہ واقعات کو ان کی ترتیب وقوع کے لحاظ سے نہیں بیان کیا جا رہا ہے ، بلکہ اس خاص پہلو کو خاص طور پر نمایاں کرنا مقصود ہے جسے ذہن نشین کرنے کی خاطر ہی یہ قصہ یہاں نقل کیا گیا ہے ، اس لیے ایک عام ناظر کو یہاں یہ غلط فہمی پیش آتی ہے کہ فرشتے ابتدا ہی میں اپنا تعارف حضرت لوط علیہ السلام سے کرا چکے تھے اور اب اپنے مہمانوں کی آبرو بچانے کے لیے ان کی یہ ساری فریاد و فغاں محض ایک ڈرامائی انداز کی تھی ۔