Surah

Information

Surah # 15 | Verses: 99 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 54 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 87, from Madina
وَلَـقَدۡ كَذَّبَ اَصۡحٰبُ الۡحِجۡرِ الۡمُرۡسَلِيۡنَۙ‏ ﴿80﴾
اور حجر والوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا ۔
و لقد كذب اصحب الحجر المرسلين
And certainly did the companions of Thamud deny the messengers.
Aur hijr walon ney bhi rasoolon ko jhutalaya.
اور حجر کے باشندوں نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا تھا ۔ ( ٢٨ )
اور بیشک حجر والوں نے رسولوں کو جھٹلایا ( ف۸٦ )
حجر 45 کے لوگ بھی رسولوں کی تکذیب کر چکے ہیں ۔
اور بیشک وادئ حجر کے باشندوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا
سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :45 یہ قوم ثمود کا مرکزی شہر تھا ۔ اس کے کھنڈر مدینہ کے شمال مغرب میں موجودہ شہر العلاء سے چند میل کے فاصلہ پر واقع ہیں ۔ مدینہ سے تبوک جاتے ہوئے یہ مقام شاہراہ عام پر ملتا ہے اور قافلے اس وادی میں سے ہو کر گزرتے ہیں ، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق کوئی یہاں قیام نہیں کرتا ۔ آٹھویں صدی ہجری میں ابن بطوطہ حج کو جاتے ہوئے یہاں پہنچا تھا ۔ وہ لکھتا ہے کہ ”یہاں سرخ رنگ کے پہاڑوں میں قوم ثمود کی عمارتیں موجود ہیں جو انہوں نے چٹانوں کو تراش کر ان کے اندر بنائی تھیں ۔ ان کے نقش و نگار اس وقت تک ایسے تازہ ہیں جیسے آج بنائے گئے ہوں ۔ ان مکانات میں اب بھی سڑی گلی انسانی ہڈیاں پڑی ہوئی ملتی ہیں ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ اعراف حاشیہ نمبر ۵۷ )
آل ثمود کی تباہیاں حجر والوں سے مراد ثمودی ہیں جنہوں نے اپنے نبی حضرت صالح علیہ السلام کو جھٹلایا تھا اور ظاہر ہے کہ ایک نبی کا جھٹلانے والا گویا سب نبیوں کا انکار کرنے والا ہے ۔ اسی لئے فرمایا گیا کہ انہوں نے نبیوں کو جھٹلایا ۔ ان کے پاس ایسے معجزے پہنچے جن سے حضرت صالح علیہ السلام کی سچائی ان پر کھل گئی ۔ جیسے کہ ایک سخت پتھر کی چٹان سے اونٹنی کا نکلنا جو ان کے شہروں میں چرتی چگتی تھی اور ایک دن وہ پانی پیتی تھی ایک دن شہروں کے جانور ۔ مگر پھر بھی یہ لوگ گردن کش ہی رہے بلکہ اس اونٹنی کو مار ڈالا ۔ اس وقت حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا بس اب تین دن کے اندر اندر قہرے الہی نازل ہو گا ۔ یہ بالکل سچا وعدہ ہے اور اٹل عذاب ہے ان لوگوں نے اللہ کی بتلائی ہوئی راہ پر بھی اپنے اندھاپے کو ترجیح دی ۔ یہ لوگ صرف اپنی قوت جتانے اور ریا کاری ظاہر کرنے کے واسطے تکبر و تجبر کے طور پر پہاڑوں میں مکان تراشتے تھے ۔ کسی خوف کے باعث یا ضرورتا یہ چیز نہ تھی ۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک جاتے ہوئے ان کے مکانوں سے گزرے تو آپ نے سر پر کپڑا ڈال لیا اور سواری کو تیز چلایا اور اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ جن پر عذاب الہی اترا ہے ان کی بستیوں سے روتے ہوئے گزرو ۔ اگر رونا نہ آئے تو رونے جیسی شکل بنا کر چلو کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انہیں عذابوں کا شکار تم بھی بن جاؤ آخر ان پر ٹھیک چوتھے دن کی صبح عذاب الہی بصورت چنگھاڑ آیا ۔ اس وقت ان کی کمائیاں کچھ کام نہ آئیں ۔ جن کھیتوں اور پھولوں کی حفاظت کے لئے اور انہیں بڑھانے کے لئے ان لوگوں نے اونٹنی کا پانی پینا نہ پسند کر کے اسے قتل کر دیا وہ آج بےسود ثابت ہوئے اور امر رب اپنا کام کر گیا ۔