Surah

Information

Surah # 15 | Verses: 99 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 54 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 87, from Madina
وَمَا خَلَقۡنَا السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ وَمَا بَيۡنَهُمَاۤ اِلَّا بِالۡحَـقِّ‌ ؕ وَاِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِيَةٌ‌ فَاصۡفَحِ الصَّفۡحَ الۡجَمِيۡلَ‏ ﴿85﴾
ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کو حق کے ساتھ ہی پیدا فرمایا ہے اور قیامت ضرور ضرور آنے والی ہے ۔ پس تو حسن و خوبی ( اور اچھائی ) سے درگزر کر لے ۔
و ما خلقنا السموت و الارض و ما بينهما الا بالحق و ان الساعة لاتية فاصفح الصفح الجميل
And We have not created the heavens and earth and that between them except in truth. And indeed, the Hour is coming; so forgive with gracious forgiveness.
Hum ney aasmanon aur zamin ko aur inn kay darmiyan ki sabb cheezon ko haq kay sath peda farmaya hai aur qayamat zaroor zaroor aaney wali hai. Pus tu husn-o-khoobi ( aur achai ) say dar guzar kerley.
اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان کے درمیان جو کچھ ہے اس کو کسی برحق مقصد کے بغیر پیدا نہیں کیا ، ( ٢٩ ) اور قیامت کی گھڑی آکر رہے گی ۔ لہذا ( اے پیغمبر ! ان کافروں کے طرز عمل پر ) خوبصورتی کے ساتھ درگذر سے کام لو ۔ ( ٣٠ )
اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے عبث نہ بنایا ، اور بیشک قیامت آنے والی ہے ( ف۹۲ ) تو تم اچھی طرح درگزر کرو ، ( ف۹۳ )
ہم نے زمین اور آسمان کو اور ان کی سب موجودات کو حق کے سوا کسی اور بنیاد پر خلق نہیں کیا ہے ، 47 اور فیصلے کی گھڑی یقینا آنے والی ہے ، پس اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، تم ﴿ان لوگوں کی بے ہودگیوں پر ﴾ شریفانہ درگزر سے کام لو ۔
اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے عبث پیدا نہیں کیا ، اور یقیناً قیامت کی گھڑی آنے والی ہے ، سو ( اے اخلاقِ مجسّم! ) آپ بڑے حسن و خوبی کے ساتھ درگزر کرتے رہئے
سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :47 یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تسکین و تسلی کے لیے فرمائی جا رہی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اس وقت بظاہر باطل کا جو غلبہ تم دیکھ رہے ہو اور حق کے راستہ میں جن مشکلات اور مصائب سے تمہیں سابقہ پیش آ رہا ہے ، اس سے گھبراؤ نہیں ۔ یہ ایک عارضی کیفیت ہے ، مستقل اور دائمی حالت نہیں ہے ۔ اس لیے زمین و آسمان کا یہ پورا نظام حق پر تعمیر ہوا ہے نہ کہ باطل پر ۔ کائنات کی فطرت حق کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے نہ کہ باطل کے ساتھ ۔ لہٰذا یہاں اگر قیاس و دوام ہے تو حق کے لیے نہ کہ باطل کے لیے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ ابراہیم حواشی ۲۵ – ۲٦ – ۳۵ تا ۳۹ ) ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلیاں اللہ نے تمام مخلوق عدل کے ساتھ بنائی ہے ، قیامت آنے والی ہے ، بروں کو برے بدلے نیکوں کو نیک بدلے ملنے والے ہیں ۔ مخلوق باطل سے پیدا نہیں کی گئی ۔ ایسا گمان کافروں کا ہوتا ہے اور کافروں کے لئے ویل دوزخ ہے ۔ اور آیت میں ہے کیا تم سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے؟ بلندی والا ہے اللہ مالک حق جس کے سوا کوئی قابل پرستش نہیں عرش کریم کا مالک وہی ہے ۔ پھر اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ مشرکوں سے چشم پوشی کیجئے ، ان کی ایزا اور جھٹلانا اور برا کہنا برداشت کر لیجئے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ان سے چشم پوشی کیجئے اور سلام کہہ دیجئے انہیں ابھی معلوم ہو جائے گا ۔ یہ حکم جہاد کے حکم سے پہلے تھا یہ آیت مکیہ ہے اور جہاد بعد از ہجرت مقرر اور شروع ہوا ہے ۔ تیرا رب خالق ہے اور خالق مار ڈالنے کے بعد بھی پیدائش پر قادر ہے ، اسے کسی چیز کی بار بار کی پیدا ئش عاجز نہیں کر سکتی ۔ ریزوں کو جب بکھر جائیں وہ جمع کر کے جان ڈال سکتا ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اَوَلَيْسَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ ڲ بَلٰى ۤ وَهُوَ الْخَــلّٰقُ الْعَلِـيْمُ 81؀ ) 36-يس:81 ) ، آسمان و زمین کا خالق کیا ان جیسوں کی پیدائش کی قدرت نہیں رکھتا ؟ بیشک وہ پیدا کرنے والا علم والا ہے وہ جب کسی بات کا ارادہ کرتا ہے تو اسے ہو جانے کو فرما دیتا ہے بس وہ ہو جاتی ہے ۔ پاک ذات ہے اس اللہ کی جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی ملکیت ہے اور اسی کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے ۔