سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :52
اس گروہ سے مراد یہود ہیں ۔ ان کو مُقْتَسِمِیْن اس معنی میں فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے دین کو تقسیم کر ڈالا ، اس کی بعض باتوں کو مانا ، اور بعض کو نہ مانا ، اور اس طرح طرح کی کمی و بیشی کر کے بیسیوں فرقے بنا لیے ۔ ان کے ”قرآن“ سے مراد توراۃ ہے جو ان کو اسی طرح دی گئی تھی جس طرح امت محمدیہ کو قرآن دیا گیا ہے ۔ اور اس ” قرآن “ کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالنے سے مراد وہی فعل ہے جسے سورہ بقرہ آیت ۸۵ میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ اَفَتُؤْ مِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ( کیا تم کتاب اللہ کی بعض باتوں پر ایمان لاتے ہو اور بعض سے کفر کرتے ہو؟ ) ۔ پھر یہ جو فرمایا کہ یہ تنبیہ جو آج تم کو کی جا رہی ہے یہ ویسی ہی تنبیہ ہے جیسی تم سے پہلے یہود کو کی جا چکی ہے ، تو اس سے مقصود در اصل یہود کے حال سے عبرت دلانا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ یہودیوں نے خدا کی بھیجی ہوئی تنبیہات سے غفلت برت کر جو انجام دیکھا ہے وہ تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے ۔ اب سوچ لو ، کیا تم بھی یہی انجام دیکھنا چاہتے ہو؟