Surah

Information

Surah # 26 | Verses: 227 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 47 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 197 and 224-227, from Madina
اِنۡ نَّشَاۡ نُنَزِّلۡ عَلَيۡهِمۡ مِّنَ السَّمَآءِ اٰيَةً فَظَلَّتۡ اَعۡنَاقُهُمۡ لَهَا خٰضِعِيۡنَ‏ ﴿4﴾
اگر ہم چاہتے تو ان پر آسمان سے کوئی ایسی نشانی اتارتے کہ جس کے سامنے ان کی گردنیں خم ہوجاتیں ۔
ان نشا ننزل عليهم من السماء اية فظلت اعناقهم لها خضعين
If We willed, We could send down to them from the sky a sign for which their necks would remain humbled.
Agar hum chahatay to inn per aasman say koi aisi nishani utartay kay jiss kay samney inn ki gardaney khum ho jatin.
اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے کوئی ایسی نشانی اتار دیں کہ اس کے آگے ان کی گردنیں جھک کر رہ جائیں ۔ ( ٢ )
اگر ہم چاہیں تو آسمان سے ان پر کوئی نشانی اتاریں کہ ان کے اونچے اونچے اس کے حضور جھکے رہ جائیں ( ف٤ )
ہم چاہیں تو آسمان سے ایسی نشانی نازل کر سکتے ہیں کہ ان کی گردنیں اس کے آگے جھک جائیں ۔ 3
اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے ( ایسی ) نشانی اتار دیں کہ ان کی گردنیں اس کے آگے جھکی رہ جائیں
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :3 یعنی کوئی ایسی نشانی نازل کر دینا جو تمام کفار کو ایمان و طاعت کی روش اختیار کرنے پر مجبور کر دے ، اللہ تعالیٰ کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہے ۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یہ کام اس کی قدرت سے باہر ہے ۔ بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح کا جبری ایمان اس کو مطلوب نہیں ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ لوگ عقل و خرد سے کام لے کر ان آیات کی مدد سے حق کو پہچانیں جو کتاب الہیٰ میں پیش کی گئی ہیں ، جو تمام آفاق میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں ، جو خود ان کی اپنی ہستی میں پائی جاتی ہیں ۔ پھر جب ان کا دل گواہی دے کہ واقعی حق وہی ہے جسے انبیاء علیہم السلام نے پیش کیا ہے ، اور اس کے خلاف جو عقیدے اور طریقے رائج ہیں وہ باطل ہیں ، تو جان بوجھ کر باطل کو چھوڑیں اور حق کو اختیار کریں ۔ یہی اختیاری ایمان اور ترک باطل اور اتباع حق وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ انسان سے چاہتا ہے ۔ اسلیے اس نے انسان کو ارادے اور اختیار کی آزادی دی ہے ۔ اسی بنا پر اس نے انسان کو یہ قدرت عطا کی ہے کہ صحیح اور غلط ، جس راہ پر بھی وہ جانا چاہے جاسکے ۔ اسی وجہ سے اس نے انسان کے اندر خیر اور شر کے دونوں رجحانات رکھ دیے ہیں ، فجور اور تقویٰ کی دونوں راہیں اس کے آگے کھول دی ہیں ، شیطان کو بہکانے کی آزادی عطا کی ہے ، نبوت اور وحی اور دعوت خیر کا سلسلہ راہ راست دکھانے کے لیے قائم کیا ہے ، اور انسان کو انتخاب راہ کے لیے ساری مناسب حال صلاحیتیں دے کر اس امتحان کے مقام پر کھڑا کر دیا ہے کہ وہ کفر و فسق کا راستہ اختیار کرتا ہے یا ایمان و طاعت کا ۔ اس امتحان کا سارا مقصد ہی فوت ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کوئی ایسی تدبیر اختیار فرمائے جو انسان کو ایمان اور اطاعت پر مجبور کر دینے والی ہو ۔ جبری ایمان ہی مطلوب ہوتا تو نشانیاں نازل کر کے مجبور کرنے کی کیا حاجت تھی ، اللہ تعالیٰ انسان کو اسی فطرت اور ساخت پر پیدا فرما سکتا تھا جس میں کفر ، نافرمانی اور بدی کا کوئی امکان ہی نہ ہوتا ، بلکہ فرشتوں کی طرح انسان بھی پیدائشی فرماں بردار ہوتا ۔ یہی حقیقت ہے جس کی طرف متعدد مواقع پر قرآن مجید میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ مثلاً فرمایا : وَلَوْ شَآءَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ کُلُّھُمْ جَمِیْعاً اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّیٰ یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ O ۔ اگر تمہارا رب چاہتا تو زمین کے رہنے والے سب کے سب لوگ ایمان لے آتے ۔ اب کیا تم لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کرو گے ؟ ( یونس ، آیت 99 ) ۔ اور : وَلَوْ شَآءَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ وَلِذٰلِکَ خَلَقَھُمْ ۔ اگر تیرا رب چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک ہی امت بنا سکتا تھا ۔ وہ تو مختلف راہوں پر ہی چلتے رہیں گے ( اور بے راہ رویوں سے ) صرف وہی بچیں گے جن پر تیرے رب کی رحمت ہے ۔ اسی لیے تو اس نے ان کو پیدا کیا تھا ۔ ( ہود ۔ آیت 119 ) ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ( یونس ، حواشی 101 ۔ 102 ۔ ہود ، حاشیہ 116 ) ۔