Surah

Information

Surah # 26 | Verses: 227 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 47 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 197 and 224-227, from Madina
وَاِذۡ نَادٰى رَبُّكَ مُوۡسٰۤى اَنِ ائۡتِ الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِيۡنَۙ‏ ﴿10﴾
اور جب آپ کے رب نے موسیٰ ( علیہ السلام ) کو آواز دی کہ تو ظالم قوم کے پاس جا ۔
و اذ نادى ربك موسى ان ات القوم الظلمين
And [mention] when your Lord called Moses, [saying], "Go to the wrongdoing people -
Aur jabb aap kay rab ney musa ( alh-e-salam ) ko aawaz di kay tu zalim qom kay pass jaa.
اور اس وقت کا حال سنو جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو آواز دے کر کہا تھا کہ : اس ظالم قوم کے پاس جاؤ
اور یاد کرو جب تمہارے رب نے موسیٰ کو ندا فرمائی کہ ظالم لوگوں کے پاس جا ،
انہیں اس وقت کا قصہ سناؤ جب کہ تمہارے رب نے موسی ( علیہ السلام ) کو پکارا ” 7 ظالم قوم کے پاس جا ۔ ۔ ۔ ۔
اور ( وہ واقعہ یاد کیجئے ) جب آپ کے رب نے موسٰی ( علیہ السلام ) کو نِدا دی کہ تم ظالموں کی قوم کے پاس جاؤ
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :7 اوپر کی مختصر تمہیدی تقریر کے بعد اب تاریخی بیان کا آغاز ہو رہا ہے جس کی ابتدا حضرت موسیٰ اور فرعون کے قصے سے کی گئی ہے ۔ اس سے خاص طور پر جو سبق دینا مقصود ہے وہ یہ کہ : اولاً ، حضرت موسیٰ کو جن حالات سے سابقہ پیش آیا تھا وہ ان حالات کی بہ نسبت بدرجہا زیادہ سخت تھے جن سے نبی صلی اللہ یہ وسلم کو سابقہ درپیش تھا ۔ حضرت موسیٰ ایک غلام قوم کے فرد تھے جو فرعون اور اس کی قوم سے بری طرح دبی ہوئی تھی ، بخلاف اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے ایک فرد تھے اور آپ کا خاندان قریش کے دوسرے خاندانوں کے ساتھ بالکل برابر کی پوزیشن رکھتا تھا ۔ حضرت موسیٰ نے خود اس فرعون کے گھر میں پرورش پائی تھی اور ایک قتل کے الزام میں دس برس روپوش رہنے کے بعد انہیں حکم دیا گیا تھا کہ اسی بادشاہ کے دربار میں جا کھڑے ہو جس کے ہاں سے وہ جان بچا کر فرار ہوئے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی کسی نازک صورت حال سے سابقہ نہ تھا ۔ پھر فرعون کی سلطنت اس وقت دنیا کی سب سے بڑی طاقتور سلطنت تھی ۔ قریش کی طاقت کو اس کی طاقت سے کوئی نسبت نہ تھی ۔ اس کے باوجود فرعون حضرت موسیٰ کا کچھ نہ بگاڑ سکا اور آخر کار ان سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا ۔ اس سے اللہ تعالیٰ کفار قریش کو یہ سبق دینا چاہتا ہے کہ جس کی پشت پر اللہ کا ہاتھ ہو اس کا مقابلہ کر کے کوئی جیت نہیں سکتا ۔ جب فرعون کی موسیٰ علیہ السلام کے سامنے کچھ پیش نہ گئی تو تم بیچارے کیا ہستی ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں بازی جیت لے جاؤ گے ۔ ثانیاً جو نشانیاں حضرت موسیٰ کے ذریعہ سے فرعون کو دکھائی گئیں اس سے زیادہ کھلی نشانیاں اور کیا ہو سکتی ہیں ۔ پھر ہزارہا آدمیوں کے مجمع میں فرعون ہی کے چیلنج پر علی الاعلان جادوگروں سے مقابلہ کرا کے یہ ثابت بھی کر دیا گیا کہ جو کچھ حضرت موسیٰ دکھا رہے ہیں وہ جادو نہیں ہے ۔ فن سحر کے جو ماہرین فرعون کی اپنی قوم سے تعلق رکھتے تھے اور اس کے اپنے بلائے ہوئے تھے ۔ انہوں نے خود یہ تصدیق کر دی کہ حضرت موسیٰ کی لاٹھی کا اژدھا بن جانا ایک حقیقی تغیر ہے اور یہ صرف خدائی معجزے سے ہو سکتا ہے ، جادوگری کے ذریعہ سے ایسا ہونا کسی طرح ممکن نہیں ۔ ساحروں نے ایمان لاکر اور اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اس امر میں کسی شک کی گنجائش بھی باقی نہ چھوڑی کہ حضرت موسیٰ کی پیش کردہ نشانی واقعی معجزہ ہے ، جادو گری نہیں ہے ۔ لیکن اس پر بھی جو لوگ ہٹ دھرمی میں مبتلا تھے انہوں نے نبی کی صداقت تسلیم کر کے نہ دی ۔ اب تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو کہ تمہارا ایمان لانا درحقیقت کوئی حسی معجزہ اور مادی نشان دیکھنے پر موقوف ہے ۔ تعصب ، حمیت جاہلیہ ، اور مفاد پرستی سے آدمی پاک ہو اور کھلے دل سے حق اور باطل کا فرق سمجھ کر غلط بات کو چھوڑنے اور صحیح بات قبول کرنے کے لیے کوئی شخص تیار ہو تو اس کے لیے وہی نشانیاں کافی ہیں جو اس کتاب میں اور اس کے لانے والے کی زندگی میں اور خدا کی وسیع کائنات میں ہر آنکھوں والا ہر وقت دیکھ سکتا ہے ۔ ورنہ ایک ہٹ دھرم آدمی جسے حق کی جستجو ہی نہ ہو اور اغراض نفسانی کی بندگی میں مبتلا ہو کر جس نے فیصلہ کر لیا ہو کہ کسی ایسی صداقت کو قبول نہ کرے گا جس سے اس کی اغراض پر ضرب لگتی ہو ، وہ کوئی نشانی دیکھ کر بھی ایمان نہ لائے گا خواہ زمین اور آسمان ہی اس کے سامنے کیوں نہ الٹ دیے جائیں ۔ ثانیاً ، اس ہٹ دھرمی کا جو انجام فرعون نے دیکھا وہ کوئی ایسا انجام تو نہیں ہے جسے دیکھنے کے لیے دوسرے لوگ بے تاب ہوں ۔ اپنی آنکھوں سے خدائی طاقت کے نشانات دیکھ لینے کے بعد جو نہیں مانتے وہ پھر ایسے ہی انجام سے دو چار ہوتے ہیں ۔ اب کیا تم لوگ اس سے عبرت حاصل کرنے کے بجائے اس کا مزا چکھنا ہی پسند کرتے ہو؟ تقابل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، الاعراف ، آیات 103 تا 137 ۔ یونس ، 75 تا 92 ۔ بنی اسرائیل ، 101 تا 104 ۔ جلد سوم طٰہٰ ، 0 تا 79 ۔
موسیٰ علیہ السلام اور اللہ جل شانہ کے مکالمات اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور اپنے رسول اور اپنے کلیم حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کو جو حکم دیا تھا اسے بیان فرما رہے ہیں کہ طور کے دائیں طرف سے آپ کو آواز دی آپ سے سرگوشیاں کیں آپ کو اپنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور برگزیدہ بنایا اور آپ کو فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجا جو ظلم پر کمر بستہ تھے ۔ اور اللہ کا ڈر اور پرہیزگاری نام کو بھی ان میں نہیں رہی تھی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی چند کمزوریاں جناب باری تعالیٰ کے سامنے بیان کی جو عنایت الٰہی سے دور کردی گئیں جیسے سورۃ طہ میں آپ کے سوالات پور کردئیے گئے ۔ یہاں آپ کے عذر یہ بیان ہوئے کہ مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے جھٹلادیں گے ۔ میرا سینہ تنگ ہے میری زبان لکنت والی ہے ، ہارون کو بھی میرے ساتھ نبی بنا دیا جائے ۔ اور میں نے ان ہی میں سے ایک قبطی کو بلا قصور مار ڈالا تھا جس وجہ سے میں نے مصر چھوڑا اب جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ کہیں وہ مجھ سے بدلہ نہ لے لیں ۔ جناب باری تعالیٰ نے جواب دیا کہ کسی بات کا کھٹکا نہ رکھو ۔ ہم تیرے بھائی کو تیرا ساتھی بنادیتے ہیں ۔ اور تمہیں روشن دلیل دیتے ہیں وہ لوگ تمہیں کوئی ایذاء نہ پہنچا سکیں گے میرا وعدہ ہے کہ تم کو غالب کرونگا ۔ تم میری آیتیں لے کر جاؤ تو سہی میری مدد تمہارے ساتھ رہے گی ۔ میں تمہاری ان کی سب باتیں سنتا رہونگا ۔ جیسے فرمان ہے میں تم دونوں کے ساتھ ہوں سنتا ہوں دیکھتا رہونگا ۔ میری حفاظت میری مدد میری نصرت وتائید تمہارے ساتھ ہے ۔ تم فرعون کے پاس جاؤ اور اس پر اپنی رسالت کا اظہار کرو ۔ جسیے دوسری آیت میں ہے کہ اس سے کہو کہ ہم دونوں میں سے ہر ایک اللہ کا فرستادہ ہے ۔ فرعون سے کہا کہ تو ہمارے ساتھ بنو اسرائیل کو بھیج دے وہ اللہ کے مومن بندے ہیں تو نے انہیں اپنا غلام بنارکھا ہے اور ان کی حالت زبوں کر رکھی ہے ۔ ذلت کے ساتھ ان سے اپنا کام لیتا ہے اور انہیں عذابوں میں جکڑ رکھاہے اب انہیں آزاد کردے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس پیغام کو فرعون نے نہایت حقارت سے سنا ۔ اور آپ کو ڈانٹ کر کہنے لگا کہ کیا تو وہی نہیں کہ ہم نے تجھے اپنے ہاں پالا ؟ مدتوں تک تیری خبر گیری کرتے رہے اس احسان کا بدلہ تو نے یہ دیا کہ ہم میں سے ایک شخص کو مار ڈالا اور ہماری ناشکری کی ۔ جس کے جواب میں حضرت کلیم اللہ علیہ السلام نے فرمایا یہ سب باتیں نبوت سے پہلے کی ہیں جب کہ میں خود بےخبر تھا ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرائت میں بجائے من الضالین کے من الجاھلین ہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ساتھ ہی فرمایا کہ پھر وہ پہلا حال جاتا رہا دوسرا دور آیا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا رسول بناکر تیری طرف بھیجا اب اگر تو میرا کہا مانے گا تو سلامتی پائے گا اور میری نافرمانی کرے گا تو ہلاک ہوگا ۔ اس خطا کے بعد جب کہ میں تم میں سے بھاگ گیا اس کے بعد اللہ کا یہ فضل مجھ پر ہوا اب پرانے قصہ یاد نہ کر ۔ میری آواز پر لبیک کہہ ۔ سن اگر ایک مجھ پر تو نے احسان کیا ہے تو میری قوم کی قوم پر تو نے ظلم وتعدی کی ہے ۔ ان کو بری طرح غلام بنارکھا ہے کیا میرے ساتھ کا سلوک اور انکے ساتھ کی یہ سنگدلی اور بد سلوکی برابر برابر ہوجائیگی؟